ایک غیر ملکی اخبار کی یہ خبر میرے لئے عجیب و غریب تھی کہ ایک امریکی اہلکار نے گزشتہ ماہ انکشاف کیا تھا کہ واشنگٹن کیلئے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کو روکنا ایک اہم ’’مقصد‘‘ رہا ہے۔ ہماری کوششوں سے یہ منصوبہ تقریباً ایک دہائی سے تاخیر کا شکار ہے۔ پاکستانی سیاست کے مشہور کردار امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری بیورو برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور، ڈونلڈ لو نے بھی 19مارچ کو کانگریس میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ اس پائپ لائن کو روکنا ہمارا ایک اہم مقصد ہے اور ہم اس پر مسلسل کام کر رہے ہیں بائیس اپریل کو ایرانی صدر پاکستان آئے اور تیئس اپریل کو واشنگٹن نے پاکستان کو پابندیوں کی دھمکی دی مگر اسے صرف دھمکی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ امریکہ نے پاکستان سے فوجی نوعیت کے کاروبار والی تین چینی اور ایک بیلا روس کی کمپنی پر پابندی لگا دی ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے تین روزہ دورہ پاکستان کے بعد دونوں ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ دونوں فریقین نے توانائی کے شعبے بشمول بجلی کی تجارت، بجلی کی ترسیل اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں تعاون پر بھی اتفاق کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان باقی دو بارڈر میں مارکیٹس کھولنے کا اعلان کیا گیا، پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اس پائپ لائن کو ایران کے جنوبی پارس گیس فیلڈ سے پاکستان تک 1900کلومیٹر (1180 میل) سے زیادہ پھیلانا تھا جسے ایران نے کافی عرصہ پہلے مکمل کر لیا تھا۔ اس پائپ لائن کی تعمیر پر ایران تقریباً دو بلین ڈالر خرچ کر چکا تھا مگر امریکی پابندیوں کے خدشے کے پیش نظر یہ منصوبہ پاکستان کی جانب سے ابھی تک شروع نہیں ہو سکا تھا تاہم اب اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ دونوں فریقوں نے اگلے پانچ سال میں دو طرفہ تجارت کا حجم 10 بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ یقیناً ایران کے ساتھ کاروبار کرنے کے باعث امریکی پابندیاں پاکستان پر لگائی جائیں گی۔ خاص طور پر ایرانی مالیاتی اداروں کے ساتھ کاروباری معاملات امریکہ کیلئے بہت تشویشناک ہیں۔ دراصل تیل اور پیٹرولیم مصنوعات سے ایران کی آمدنی کو محدود کرنے کی واشنگٹن کی کوششیں کئی دہائیوں پرانی ہیں۔ اس نے ایران میں سینکڑوں اداروں اور لوگوں پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔ مرکزی بینک سے لے کر سرکاری عہدیداروں تک- جن پر ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور اور مسلح گروپوں جیسے فلسطین کی حماس، لبنان کی حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں کی مادی حمایت کرنے کا الزام ہے اور اب خیر ایران کھل کر فلسطین کا ساتھ دے رہا ہے بلکہ پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کے معاملے پر پاکستان اور ایران کی سوچ ایک ہے۔ ایران اور پاکستان نے ایک مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے یہ مطالبہ بھی کیاکہ اسرائیل کو خطے میں اس کی مہم جوئی، پڑوسیوں پر حملہ کرنے اور غیر ملکی سفارتی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے غیر قانونی اقدامات سے روکا جائے۔ اسرائیل نے ایرانی حملے کے جواب میں جو حملہ کیا تھا اس میں شام کی بھی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔ بیان میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محصور لوگوں تک بلا روک ٹوک انسانی رسائی، بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کے احتساب کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے ایرانی صدر کےدورے کے دوران پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں۔ جہاں تک امریکی پابندیوں کا تعلق ہے تو وہ پاکستان پر کئی بار عائد کی گئی ہیں۔ بلکہ کئی پابندیاں تو مسلسل چلی آ رہی اتنی قریبی دوستی کے باوجود جب سن دوہزار میں امریکہ نے پاکستان کی خلائی ترقی پر پابندیاں عائد کی تھیں وہ ابھی تک اسی طرح موجود ہیں بلکہ اس کے بعدسائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے معاملات میں بڑھائی بھی گئی ہیں۔ اسی طرح کی وجوہات کے سبب پاکستانیوں کی اکثریت امریکہ کو پسند نہیں کرتی۔ ایک گیلپ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 72 فیصد سے زیادہ پاکستانیوں کا خیال تھا کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہیں دشمن ہے۔ پاکستان پر امریکی پابندیوں کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع ہوا جب انہوں نے کہا کہ ’’ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔‘‘ اس کے بعد ضیاالحق دور میں افغان جنگ کے سبب تعلقات میں کچھ بہتری آئی مگر قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ضیاالحق کے آخری دور میں امریکہ ہمارا سخت مخالف ہو چکا تھا۔ لوگ کہتے ہیں یہ مخالفت ضیاالحق کی موت پر منتج ہوئی۔ پھر پرویز مشرف کے دور میں امریکہ مجبوراً پاکستان پر مہربان ہوا مگر کابل سے نکلتے وقت امریکہ کو جس ہزیمت سے گزرنا پڑا۔ اس کا سارا غصہ ابھی تک پاکستان پر ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ صاحبانِ اقتدار امریکہ کوناراض کیسے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اتنی ہمت کیسے کی ہے۔ یقیناً کہیں نہ کہیں سے کوئی اشارہ ضرور ملا ہو گا۔ کوئی امید کی کرن ایسی ضرور دکھائی دی ہو گی۔ روس سے تیل خریدنے کا معاملہ ابھی راستے میں ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک میں بھی سعودیہ کی شرکت پر گفت و شنید جاری ہے۔ ایسے میں ایسی اوپن خارجہ پالیسی ویسے تو تمام پاکستانیوں کے دھڑکتے دلوں کی آواز ہے مگر نہاں خانہ سیاستِ عالم گیر میں کیا چل رہا ہے۔ اس کے متعلق ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ عمران خان سے اس لئے ناراض ہو گیا تھا کہ جس دن وہ ماسکو گئے اسی دن روس نے یوکرائن پر حملہ کیا۔ بالکل ویسی ہی صورت حال ہے جس دن ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا اس کے بعد فوراً ایرانی صدر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ حالانکہ پاکستان اور ایران میں کچھ سرحدی جھڑپیں بھی ہو چکی تھیں۔ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ اللہ کرے وہ ملک و قوم کیلئے بہتر ہو۔