• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجابی کہاوت ہے جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے۔ یعنی جس گھر میں خوش حالی ہو، اس کے جھلے ، بے وقوف افراد بھی سمجھ دار اور سیانے ہوجاتے ہیں۔ بھوک ، افلاس، بدحالی آپ کی عقل اورسوجھ بوجھ پر پردہ ڈال دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج بُرے معاشی حالات کا شکار ہیں۔ غربت کی وجہ سے ہماری عقل پر پردہ پڑ چکا ہے۔ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ انتشار، افراتفری، توڑ پھوڑ، بدتمیزی اور بد لحاظی کا معاشرہ جنم لے رہا ہے۔ ہماری معاشی بربادی میں سُرخ فیتے کی شکار ایسی پالیسیاں کار فرما ہیں جو خوش حالی کے ہر مرحلے پر رکاوٹ بن کر آڑے آجاتی ہیں۔

آج ہمارا کسان گندم کی سرکاری قیمت 3900 روپے فی چالیس کلو گرام پر رُل رہا ہے۔ اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ پنجاب حکومت کی باردانہ تقسیم کی آن لائن رجسٹریشن پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آڑھتی مافیا منڈیوں میں کسانوں کا استحصال کررہا ہے۔ پنجاب کے کسان سراپا احتجاج ہیں۔ لانگ مارچ، دھرنوں کی کال دی جا چکی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نوازشریف! اگرآپ چاہیں تو ایک لمحے میں کسانوں کی مسیحا بن کر 75فی صد ووٹ بینک کا رُخ اپنے حق میں بدل سکتی ہیں اور ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔ آپ کی خدمت میںگزشتہ چار سالہ دیانت دارانہ مشاہدے، دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں عرض ہے کہ کسانوں کا کیا قصور کہ اگر نگران دور حکومت میں ضرورت سے زیادہ مہنگی گندم امپورٹ کرکے سرکاری گوداموں میں بھر لی گئی اورقومی خزانے پر بوجھ مزید بڑھا دیا گیا۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آنے والے سیزن میں مقامی سطح پر کاشت ہونے والی گندم کون خریدے گا؟ گندم کی فی ایکڑ کاشت اور منڈیوں تک ترسیل کے اخراجات ملاحظہ فرمائیں کہ فی ایکڑ بیج 7500 روپے، ڈی اے پی کھاد 14000 روپے، یوریا11600 روپے، زمین کی تیاری (ٹریکٹر، زرعی آلات کے اخراجات)12000 روپے، اسپرے 3000 روپے، ڈیزل یا بجلی(ٹیوب ویل ) کم از کم 4800 روپے ،ٹھیکہ زمین (زیادہ تر زرعی رقبہ ٹھیکے داری نظام کے تحت کاشت کیا جاتا ہے)75000 روپے (چھ ماہ)، سالانہ ڈیڑھ لاکھ ، متفرق اخراجات 3000 ہزار روپے، گندم کٹائی (تھریشر)ساڑھے سات من گندم سرکاری قیمت کے حساب سے 29250 روپے کل اخراجات فی ایکڑ 1 لاکھ60 ہزار روپے، اگر پنجاب میں فی ایکڑ زیادہ سے زیادہ پیداوار 45 من بھی لگائیں تو سرکاری ریٹ کے مطابق کل آمدن 1 لاکھ 75 ہزارروپے شمار کی جاتی ہے۔ اگر گندم منڈی تک پہنچانے کے اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو کسان اپنے کپڑے بھی منڈی میں اتار کر گھر آئے گا۔ ان اعدادو شمار میں زکوٰۃو عشر کا کہیں ذکر تذکرہ نہیں کیا جارہا۔ باردانہ کے آن لائن نظام کی پیچیدگیوں سے بھی کسان سخت پریشان نظر آتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ! آپ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سوچیں کہ جس ملک میں انٹرنیٹ سروس آئے دن بند رہتی ہو، دور دراز علاقوں میں موبائل سگنلز کا مسئلہ درپیش ہو، جہاں غریب کسان کے پاس روٹی کھانے کے پیسے نہ ہوں۔

وہ مہنگا ترین اینڈرائڈ موبائل فون کیسے خریدے اور چلائے گا؟ باردانہ تقسیم کا آن لائن طریقہ کار رجسٹریشن کے کٹھن مراحل، کوڈ کی تصدیق، گرداوری مالک زمین کے نام، زمین ٹھیکے دار کاشت کررہا ہو، تصدیق شدہ موبائل سم ٹھیکے دار کی، ایسے میں کوڈ کی تصدیق کیسے ممکن ہوگی؟ اگر مالک زمین کی تصدیق ہو بھی جائے تو اس کا قابل کاشت رقبہ صرف چھ ایکڑ تک محدود، چھ ایکڑ پر صرف 36 بیگ باردانہ مذاق نہیں تو کیا ہے؟ کاشت کار کی چھ ایکڑ پیداوار اوسطاً 270 من ریکارڈ کی جارہی ہے۔ کاشت کار اپنی اضافی پیداوار کہاں لے جائے۔ دکھ اس بات کاہے اگر اللہ تعالیٰ نے کسانوں کے دن پھیر ہی دیئے ہیں اور ملک کی خوش حالی کا ایک دروازہ کھلنے کو ہے تو ہم اس کی قدر کیوں نہیں کررہے؟ کسان پریشان ہے، ذہنی تناؤ کا شکارہے، آڑھتی مافیا، سمگلنگ مافیا اس کا گھیراؤ کئے ہوئے ہے۔ اس کی چھ ماہ کی کمائی اونے پونے داموں رُل رہی ہے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ! براہ کرم کسان کی آواز سنیں، اس کی داد رسی کریں، غلہ منڈیوں کی نگرانی کا نظام فعال کرکے مافیاز کا راستہ روکیں، مارکیٹ کمیٹیوں کو متحرک کرکے آڑھتی مافیا کا خاتمہ کریں۔ تنوروں پر چھاپے مارنا، روٹی کی قیمت کنٹرول کرنے کی کوششوں سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ کسان کو اتنا خوش حال کردیں کہ وہ تنور کے سامنے لائنوں میں کھڑے ہو کر روٹی کی بھیک نہ مانگے۔ ہم نے ماضی قریب میں عمران دور حکومت میں ملک کی بربادی ہوتے بھی دیکھی ہے لیکن ایک بات کی گواہی ضرور دی جاسکتی ہے کہ انتہائی مہنگائی کے دور میں بھی کسان، کاشت کار ، مزارعے اور ہاری خوش اور خوش حال تھے۔ انہیں ان کی محنت کا پھل مل رہا تھا۔ اکثر دیہی علاقوں میں کسانوں کی رائے یہی تھی کہ جس گھردانے اس کے کملے بھی سیانے۔ کسان کی پریشانی یہ بھی ہے کہ آڑھتی 3000 سے 3500 روپے فی من گندم خرید کر مافیا کی ملی بھگت سے کم از کم 600 روپے ہاتھوں ہاتھ منافع کما رہا ہے۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت 3900 روپے من گندم خرید کر فلور ملوں کو 4700 روپے من میں فروخت کرکے800 روپے فی من پیسہ کمائے گی۔ جب اس قیمت پر فلور ملوں کو گندم سپلائی کی جائے گی تو آپ خود اندازہ کرلیں کہ روٹی کیا بھاؤ بکے گی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت اپنا منافع کم کرکے کسان کو اس کی محنت کا حق ادا کرے اور اضافی گندم افغانستان اسمگل ہونے سے روک کرقانونی طریقے سے برآمد کرکے پیسے کمائے ، آج کی بات یہی ہے کہ کسان خوش حال، پاکستان خوش حال۔ دلوں پر راج کرنے کا یہی سب سے آسان طریقہ ہے۔

تازہ ترین