ہم سال بھر پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں ،صوبے ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں ،ڈیم بنانے کی بات ہو تو کہا جاتا ہے پانی کہاں سے لائیں گے لیکن جب برسات کا موسم شروع ہوتا ہے تو مصنوعی آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب آجاتا ہے اور سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتا ہے۔ہم متبادل توانائی کی پالیسی اپناتے ہیں ،لوگوں کو بتاتے ہیں ،گاڑیاں ڈیزل یا پیٹرول پر چلانے کے بجائے سی این جی پر منتقل کروائیں ،دیکھتے ہی دیکھتے پوری انڈسٹری وجود میں آجاتی ہے تو پتہ چلتا ہے داب شدہ قدرتی گیس (Compressed natural gas)مطلوبہ مقدار میں میسر ہی نہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے باعث پورا ملک اندھیروں کی لپیٹ میں آجاتا ہے ،معیشت کا پہیہ رُکنے لگتا ہے،ہم سوچے سمجھے بغیر بجلی کے کارخانے لگاتے ہیں ،کرائے کے بجلی گھر حاصل کیے جاتے ہیں ،نجی کمپنیوں سے معاہدے کیے جاتے ہیں ،چند برس بعد پتہ چلتا ہے بجلی تو بہت وافر مقدار میں دستیاب ہوگئی ہے اب اضافی کرنٹ کہاں دوڑائیں ۔معاہدوں کے مطابق نجی کمپنیوں کو بجلی نہ خریدنے کے باوجود ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیںاور یہ بوجھ صارفین پر منتقل ہوتا ہے ۔لوگوں کو شمسی توانائی پر منتقل ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے ،بتایا جاتا ہے کہ سولر پینل لگوائیں اور بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے نجات پائیں۔جب اس مہم کے نتیجے میں لوگ سولر پینل لگوانا شروع کردیتے ہیں تو سرکاری دفاتر میں بیٹھے بابو کہتے ہیں اس رجحان کے سبب توازن بگڑ رہا ہے ،لوگ شمسی توانائی کی طرف چلے جائیں گے تو ہم اضافی بجلی کہاں کھپائیں گے۔ان سب پر ٹیکس لگا دو ۔
گنے کی فصل آتی ہے تو شاندار پیداوار کا شور مچ جاتا ہے ،بتایا جاتا ہے کہ اس سال چینی ضرورت سے زیادہ ہوگی تو کیوں نہ اسے برآمد کرکے غیرملکی ترسیلات زر میں اضافہ کیا جائے؟سمری تیار ہوتی ہے ،خود کو عقل کل سمجھنے والی افسر شاہی منظور ی دیتی ہے اور چینی بیچ دی جاتی ہے۔سرمایہ کار وں کو چینی برآمد کرنے پر سبسڈی بھی دی جاتی ہے۔مگرچند ماہ بعد یہ راز کھلتا ہے کہ چینی کی قلت پیدا ہوگئی ہے ،بحران سر اُٹھارہا ہے اگر فوری طور پر چینی درآمد نہ کی گئی تو حالات پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔چنانچہ وہی چینی اب مہنگے داموں خرید کر لائی جاتی ہے تاکہ چینی کی قلت ختم ہوسکے ۔سیٹھ پھر سے مال بناتے ہیں ۔اسی طرح جب گندم کی پیداوار آتی ہے تو بمپر کراپ کا غل مچ جاتا ہے ۔خوشخبری دی جاتی ہے کہ ہماری زمینیں سونا اُگل رہی ہیں ،اس بار ضرورت سے کہیں زیادہ پیداوار ہوئی ہے ۔کسان پریشان ہیں ،کوئی خریدار نہیں مل رہا ۔چنانچہ گندم ایکسپورٹ کرنے کی سمری تیار کرکے منظوری حاصل کی جاتی ہے۔چند ماہ بعد آٹے کے نرخ بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔گندم کی قلت اور ذخیرہ اندوز ی کے سبب عوام پریشان ہوتے ہیں تو سستے داموں بیچی گئی گندم مہنگے داموں خرید کر لائی جاتی ہے۔گندم کی قلت ہو،چینی کا بحران یا پھر بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی کمی ،حکومت کی طرف سے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے اعلیٰ سطح کی انکوائری کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن رپورٹ آنے سے پہلے کوئی نئی واردات ڈال کر لوگوں کو اُلجھا دیا جاتا ہے۔گندم کے موجودہ بحران کا سبب بھی یہی ہے۔گزشتہ برس بمپر کراپ ہوئی بتایا گیا کہ 28.18ملین ٹن گندم پیدا ہوئی ہے ۔جولائی 2023ء میں جب شہباز شریف وزیراعظم تھے تو ایک سمری آئی جس میں کہا گیا کہ ضرورت کے مطابق گندم موجود ہے لیکن احتیاطاً ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو 1.8ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔8اگست 2023ء کو یہ سمری مسترد کردی گئی ۔اس کے بعد نگران حکومت آگئی۔سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر اور چیئرمین اپٹما گوہر اعجاز جنہیں معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے لایا گیا تھا ،انہوں نے سابقہ حکومت کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے نہ صرف گندم درآمد کرنے کی اجازت دیدی بلکہ یہ کام نجی شعبہ کے سپرد کردیا گیا کہ وہ جتنی چاہے گندم درآمد کرلے ۔پاکستان میں اپریل کے مہینے میں گندم کی نئی فصل آنا شروع ہوجاتی ہے تو نرخ گرجاتے ہیں مگر اس بار تو منڈی میں گراوٹ کی انتہا ہوگئی ۔وجہ یہ تھی کہ ایک یا دو ملین کے بجائے 30ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دیدی گئی۔غیر ملکی گندم کی آخری کھیپ 15مارچ 2024ء کو پاکستان پہنچی۔یہی وجہ ہے کہ مقامی گندم اور کسانوں کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔اخبارات اور ٹی وی چینلز پرشائع اور نشر ہونے والی خبروں کے مطابق نگران حکومت میں ہونے والے اس غلط فیصلے کے باعث حکومت کو 140ارب روپے جبکہ کسانوں کو 380ارب روپے کا نقصان ہوا۔یعنی مجموعی طور پر 500ارب روپے کی لوٹ مار کی گئی ۔اب اس کا ایک اور نقصان یہ ہوگا کہ جن کسانوں کو بمپر کراپ کے باوجود بدترین نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے ،وہ اگلے سال گندم کی کاشت نہیں کریں گے تو اناج کی قلت کے خوفناک بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہم اکثر وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں چیز کی کمی ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں گڈ گورننس کا شارٹ فال ہے ۔نیک نیتی کی کمی ہے۔خلوص کی قلت ہے۔عزم اور ارادوں کا فقدان ہے۔اہلیت اور قابلیت کا بحران ہے۔جب تک اس بدانتظامی اور بدنیتی پر قابو نہیں پایا جاتا یعنی مس مینجمنٹ سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاتا ،برق و شرر سے ملے باغبانوں کا سراغ نہیں لگایا جاتا،آئی ایم ایف سے جتنے مرضی ڈالر لے لیں ،معیشت بہتر نہیں ہوگی ،یہ چمن یونہی رہے گا۔