• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منہ چھپانے والے زمانے گز ر گئے۔ اب سیاست کے حمام میں سب عریاں پھرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہیں ۔عربی کے معروف شاعر متنبی نے کہا تھا کہ بادشاہ نے اپنے ملبوس کے لئے تمام شہر کو برہنہ کر دیا ہے۔ افسوس کہ احساسِ برہنگی بھی لیراں لیراں ہو چکا ہے۔ کہیں کچھ بچا ہی نہیں۔ کوئی آئین، کوئی قانون، کوئی اخلاقیات، کوئی رواج، کوئی دین و مذہب، کوئی نظریہ، کوئی شرم ساری، کچھ بھی تو نہیں بچا۔ ہمارے سابق نگران وزیر اعظم بھی کتنے سادہ لوح ہیں، فرماتے ہیں کہ سینتالیس کی بات میں نے چھیڑ دی تو تم منہ چھپاتے پھرو گے۔ انہوں نے سوچا ہی نہیں کہ کس سے منہ چھپائیں گے، آئینہ روز دیکھتے ہیں، انہیں کچھ احساس ہی نہیں ہوتا۔ عوام کو پتہ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں، انہیں کیوں لایا گیا ہے۔ بس ابھی تک پیپلز پارٹی کے ہونے کا احساس باقی ہے۔ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینٹ بنوا لیا ہے، حالانکہ کاکڑ صاحب کا بہت شور و غوغا تھا۔ بلاول بھٹو اپنے گورنرز بنانے پر بھی ڈٹے رہے اور آخر کارکا میاب ہو گئے۔ توقع ہے کہ کالم کے شائع ہونے سے پہلے فیصل کریم کنڈی گورنر خیبر پختون خوا کا اور سردار سلیم حیدر گورنر پنجاب کاحلف اٹھا چکے ہونگے۔ میں اس کامیابی پر بلاول بھٹو کو مبارک بادپیش کرتا ہوں کہ انہوں نے انتہائی اہم نوجوان قیادت کو انتہائی اہم ترین عہدوں سے نوازا ہے۔

بات ہو رہی تھی منہ چھپانے کی۔ بےشک ایک وقت ایسا ہوا کرتا تھا جب لوگ کوئی غلط کام کرتے تھے تو منہ چھپا لیتے تھے۔ یعنی غلط کاریاں چھپ چھپ کر کی جاتی تھیں۔ جناب ِداغ نے کہاتھا

جنابِ شیخ ہیں آداب عرض کرتا ہوں

اندھیری رات میں چھپ کر کہاں چلے استاد

اب استادوں کو نہ اندھیری رات کی ضرورت ہے اور نہ نقاب پوشی کی۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے کہ وہ دن دہاڑے ہو رہا ہے۔ کون اعتراض کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔ میں کل اسلام آباد کے بلیو ایریا سےگزر رہا تھا۔ وہاں گرین ایریا میں ایک پلازہ کی تعمیر جاری تھی۔ میں نے حیرت سے پوچھا یہ کیسے ممکن ہوا تو ہمسفر نے کہا ’’پہلے گرین ایریا کو پارکنگ ایریا میں بدلا گیا اور پھر پارکنگ ایریا کو پلازہ میں کہ پلازہ کی بیسمنٹ میں پارکنگ ایریا تو بنانا ہی پڑتا ہے۔

اور اب آتے ہیںدانہِ گندم کی طرف، جس کے سبب ہمیں اتنی خوبصورت دنیا ملی۔ اسکینڈل شروع یہاں سے ہوا کہ یوکرائن سے تیس لاکھ ٹن سے زائد گندم نگران حکومت نے منگوا لی۔ کوئی مجبوری ہو گی۔ یہ نہیں سوچا کہ پاکستان خود ایک زرعی ملک ہے، دوسرا کسان سب سے زیادہ گندم کاشت کرتے ہیں تیسرا پہلے گندم اور آٹا ہم افغانستان بھیج دیا کرتے تھے وہ کام بھی تقریباً بند پڑا ہے۔ ایسی صورتحال میں کسان کیا کرے گا۔ چند دن پہلے میں پنجاب کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر سے ملنے پنجاب اسمبلی گیا تو وہ اس وقت کسان کے ساتھ وہیں چیئرنگ کراس پر اظہار یکجہتی کے لئے گفتگو کر رہے تھے۔ پہلی بار مجھے صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا کہ کسان تو بالکل تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اگلی فصل کے آنے تک دہقان کی حالت وہی ہو گی جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا تھا

دہقاں ہے کسی قبر سے اگلا ہوا مردہ

بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے

بات سابق وزیر اعظم اور حنیف عباسی کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی پر شروع ہوئی تھی۔ حنیف عباسی نے اسی مسئلہ میں ان پر کرپشن کا الزام لگایا۔ میرے خیال میں ہم جہاں پہنچ گئے ہیں وہاں کرپشن ورپشن کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ایک دو سو ارب روپے ادھر ادھر ہو جانے کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں۔ صرف یہی گندم والا اسکینڈل تقریباً ایک ارب ڈالر کا ہے۔ ہاں گھڑی کی فروخت کا جرم اپنی جگہ پر مسلمہ ہے۔ اس پر سزا ضروری ہے کہ تمہیں صرف ایک گھڑی فروخت کرنے کی بجائے پورا اسلام آباد بیچ دینا چاہئے تھا۔ پچھلے دنوں مجھے لاہور میں کچھ لوگ ملے، انہوں نے پروجیکٹ بنایا ہوا تھا کہ لاہور میں آثار قدیمہ کی جتنی عمارتیں ہیں ان سے کمائی کیسے ممکن ہے۔ پلان یہ تھا کہ وہ وہاں مارکیٹیں اور دکانیں بنائیں گے اور آثار قدیمہ کے محکمے کو پہلے سے ہزار گنا زیادہ آمدنی ہو گی۔ میں نےبڑے غور سے اس پروجیکٹ کا مطالعہ کیا تو مجھے لگا کہ اب قبضہ گروپ والے شالا مار باغ اور مقبرہ جہانگیر پر بھی قبضہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد پر بھی ان کی نظر ہے۔ انہوں نے بادشاہی مسجد کے دونوں اطراف جو طویل گیلریاں ہیں انہیں دکانوں میں بدلنا تھا اور بھی بڑی دلچسپ چیزیں تھیں۔ وہ کوئی چھوٹی موٹی پارٹی نہیں تھی۔ مجھے لگتا ہے اگر کسی بڑے کے ساتھ ان کے معاملات طے پا گئے تو پاکستان میں آثار قدیمہ کی شکل بھی بدل جائے گی۔ نیویارک میں پی آئی اے ہوٹل کی شکل تو بدل چکی ہے۔ اسے امریکی حکومت نے اسائلم سیکرز کی پناہ گاہ کے طور پر کرائے پر لیا ہوا ہے۔ پی آئی اے خریدنے والوں سے بھی درخواستیں منگوا لی گئی ہیں۔ حکومت پی آئی اے کے اکاون فیصد شیئر پچیس سے تیس کروڑ ڈالر میں فروخت کرنا چاہتی ہے اور گوگل کے مطابق نیویارک میں پی آئی اے کی صرف ایک عمارت کی قیمت کا تخمینہ یہ ہے۔ ’’وسط قیمت پر، روز ویلٹ، اپنے 1015کمروں کے ساتھ، 636 ملین ڈالر میں فروخت ہو گا۔ اگر یہ مڈ ٹاؤن مین ہٹن میں فروخت ہونے والے ہوٹلوں کی قیمتوں پر فروخت کیا جاتا ہے، جو اس کا حقیقی موازنہ ہے، تو یہ انٹرپرائز ویلیو میں1بلین ڈالر اور1.4 بلین ڈالر کے درمیان فروخت ہو گا۔‘‘

تازہ ترین