• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ پر کئی ممتاز محققین نے وسیع پیمانے پر تحقیق کی ہے‘ اس تحقیق کے نتیجے میں سندھ کے بارے میں حقائق سامنے آئے ہیں۔ تحقیق میں ایک اہم انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ ایک معروف برگزیدہ ہستی کو ان کے علاقے کے کچھ ظالم لوگوں نے اتنا تنگ کیا کہ انہوں نے اللہ پاک سے دعا کی کہ ان کو بہت تنگ کیا جارہا ہے‘ اس کے جواب میں ان کو اللہ پاک کی طرف سے پیغام ملا کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کے علاوہ وہ لوگ جو ان کا ساتھ دے رہے ہیں ان کو ساتھ لیکر کشتی میں بیٹھ کر سمندر کے ذریعے کسی اور علاقے میں منتقل ہوجائیں تو انہوں نے یہی کیا‘ سمندر کے ایک وسیع علاقے کو کشتی کے ذریعے پار کرکے وہ ہمالیہ کی پہاڑیوں کے پاس آکر رکے پھر انہوں نےاپنے خاندان سمیت ہمالیہ پہاڑ کے ایک غار کے پاس رہائش اختیار کی‘ ان کے دو بیٹے تھے‘ اس تحقیق کے مطابق ان کے ایک بیٹے کا نام ’’ہند‘‘ تو دوسرے کا نام ’’سندھ‘‘ تھا‘ پھر یہ بیٹے یہیں بڑے ہوئے‘ ہند نے جس علاقے کو سنبھالا اس کا نام ’’ہند‘‘ ہوگیا اور دوسرے بیٹے نے جو علاقہ سنبھالا اس کا نام ’’سندھ‘‘ ہوگیا۔ ان اطلاعات کے مطابق بعد میں ’’ہند‘‘ کا علاقہ’’ ہندوستان‘‘ کہلانے لگا جبکہ سندھ کا علاقہ آج تک سندھ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

یہ بھی تاریخ کا ایک اہم انکشاف ہے کہ کافی عرصہ تک دونوں علاقے یعنی ’’ہند‘‘ اور ’’سندھ‘‘ برادر ملکوں کے طور پر آگے بڑھتے رہے‘ بعد میں دونوں کی تاریخوں کے الگ الگ باب منظر عام پر آئے۔ ایک تحقیق میں یہ بھی دعویٰ کیا گیاکہ تاریخ میں سب سے پہلے قانون کے تحت انصاف پر مشتمل معاشرہ سندھ میں قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔پانچ ہزار سال پہلے سندھ میں بادشاہت کے بجائے عوامی راج قائم کیا گیا تاکہ سارے عوام کو برابری کی بنیاد پر عزت اور آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے‘ آگے بڑھنے‘ علم حاصل کرنے‘ کاروبار کرنے اور زراعت سنبھالنے کے حقوق مل سکیں۔ سندھی زبان کیلئے پہلا اسکرپٹ تیار کرکے سندھ میں اسکول اور فنی تربیت کے ادارے قائم کیے گئے۔ اس دور میں سب سے پہلے سندھ کے عوام نے Wheel ایجاد کیا ،جس سے گدھا گاڑی کی ابتدا ہوئی اور زرعی پیداوار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہوگیا‘ ان تحقیقات کے مطابق سندھ کے عوام نے پہلی بار کپاس سے دھاگہ اور دھاگے سے کپڑا بنانے کی مشین اور یہ ہنر ایجاد کرکے پہلی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بنیاد ڈالی۔ سندھ کے سمندر میں بڑی تعداد میں بندرگاہیں تعمیر کی گئیں‘ بڑا اور مضبوط سمندری جہاز بناکر سندھ کے لوگ نہ فقط برآمد کنندگان (ایکسپورٹر) بن گئے۔ ساتھ ہی وہ دریائوں اور سمندر میں بحری جہاز چلانے کے موجد بھی بن گئے‘ اس وقت سندھ کی برآمد اس حد تک بڑھی کہ سندھ میں تیار کی گئی پروڈکٹس ماگان (بحرین) سے سمیر (عراق) اور مصر تک فراہم کی جاتی رہیں‘ اسی دور میں سونے اور چاندی کے زیورات بنانے کی پہلی صنعت سندھ میں قائم ہوئی‘ دنیا میں پہلی بار ناپ اور تول کے جدید انسٹرومنٹ (اوزار) بھی سندھ میں ایجاد کیے گئے‘ یہ اوزار آج بھی الیکٹرانک انسٹرومنٹ کے معیار کے ہیں‘ یہ اوزار بعد میں برآمد ہونے کے بعد ماگان‘ سمیر اور مصر میں بھی استعمال ہونے لگے‘ اس طرح اس دور میں سندھ دنیا کا امیر ترین اور انتہائی پروگریسو ملک بن گیا‘ اس مرحلے پر میں اپنی طرف سے یہ معلومات پیش کرتا ہوں کہ سندھ میں کئی سمندری بندرگاہیں تھیں حالانکہ اس وقت کراچی میں فقط ایک بندرگاہ تھی جبکہ بندرگاہوں کی زیادہ تعداد ضلع ٹھٹھہ میں تھی‘ اس کے علاوہ ضلع بدین کے نزدیک سمندر میں بھی ایک بندرگاہ تھی جسے زیادہ تر ہندوستان کے قریبی علاقے کے مسلمان خاص طور پر حج پر جانے کیلئےاستعمال کرتے تھے اس دور میں ٹھٹھہ ضلع کی بندرگاہیں دنیا کے اکثر علاقوں میں بہت مقبول تھیں‘ خاص طور پر فراعین مصر کے دور میں مصر کے حکمران اپنے جہاز ان بندرگاہوں کی طرف بھیجتے تھے‘ سندھ میں تیار کیا جانے والا سامان وہاں موجود ہوتا جسے بیرون ملک سے آنے والے جہاز ران آکر خریدتے تھے‘ ان کو خاص طور پر سندھ میں تیار کیا جانے والا ثقافتی طرز کا کپڑا بہت پسند تھا‘جس میں اجرک بھی شامل ہوتی تھی‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اجرک سندھ کی ثقافت کی ممتاز علامت ہے۔

تازہ ترین