’’ روٹی کتنے کی بیچ رہے ہو؟‘‘ ’’جی۔16روپے کی۔‘‘ ’’اور نان…؟‘‘ ’’نان 20روپے کا جناب…!!‘‘ ’’ٹھیک ہے۔ اس سے زیادہ قیمت نہیں لینی۔‘‘ ’’اور کیا حال چال ہیں‘‘ ’’جی بالکل ٹھیک۔‘‘گزشتہ دنوں لاہور میں اڈّا پلاٹ پر واقع ایک تندور پر سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف اور ایک نان بائی کے درمیان یہ مکالمہ ہوا۔ پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ، محترمہ مریم نواز بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ مریم نواز کے پاس روٹی کی قیمت سے متعلق پنجاب حکومت کا نوٹی فی کیشن بھی تھا۔
اُنہوں نے اُس کی ایک کاپی دُکان دار کو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اُسے دیوار پر چسپاں کر دے۔ اِس دوران وہاں جمع ہونے والے لوگوں نے’’نواز شریف زندہ باد‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ یہ واقعہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کا موضوع بن گیا اور سوشل میڈیا پر بھی اس کا کافی چرچا رہا۔اُسی شام ڈی ایچ اے کینٹ کے ایک مکین نے ٹیلی فون پر 20روٹیوں کا آرڈر دیا۔ مکین نے جب ڈیلیوری بوائے کو 16روپے فی روٹی کے حساب سے پیسے دئیے، تو اُس نے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ’’تندور مالک نے سختی سے کہا ہے کہ ایک روٹی کے 20 روپے ہی لینے ہیں۔‘‘ مجبوراً اُسے20روپے فی روٹی کے حساب سے پیسے دینے پڑے۔
دوسرے روز جب اخبارات میں نواز شریف اور مریم نواز کے تندروں کے معائنے کی خبریں شائع ہوئیں، تو ساتھ ہی یہ خبر بھی شہ سرخیوں میں تھی کہ’’ لاہور، اسلام آباد، راول پنڈی اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں نان بائی ایسوسی ایشن نے پنجاب حکومت کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف ہڑتال کی کال دے دی ہے۔‘‘ راول پنڈی میں نان بائی ایسوسی ایشن کے صدر، سجّاد عباسی نے کہا کہ’’ ہڑتال جزوی نہیں، بلکہ شٹر ڈائون ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ رات کی تاریکی میں بند کمروں میں بیٹھ کر جو نوٹی فی کیشن جاری کیا گیا، اُسے واپس لیا جائے۔
ہم منہگا آٹا خرید کر سَستی روٹی نہیں دے سکتے۔ حکومت نے جو ریٹ جاری کیا ہے، وہ 2012ء اور 2013 ء کا ہے، جب کہ اب2024 ء چل رہا ہے۔ گیس، پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں آسمان کو چُھو رہی ہیں۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ اب تندور کی سیاست نہیں چلے گی۔ اگر ہمارے خلاف مقدمات درج کیے گئے، تو ہم ڈی چوک تک مارچ کریں گے۔‘‘روٹی کی قیمت کم کرنے کے اعلان پر پنجاب بَھر کی نان بائی ایسوسی ایشنز نے جو ردّ ِ عمل ظاہر کیا، اُس نے حکومت اور نان بائیوں کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کر دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہیں روٹی 16 روپے اور نان20 روپے کا مل رہا تھا، تو کہیں یہ20 اور25 روپے میں دست یاب تھے۔
حکومت بھی ہر جگہ چھاپے نہیں مار سکتی، اِس لیے صوبے کے اکثر مقامات پر روٹی اور نان پرانی قیمتوں ہی پر فروخت ہوتے رہے۔ البتہ، لاہور کے بیش تر نان بائیوں نے حکومتی فیصلے کا بَھرم رکھا، لیکن عام محنت کش اور سفید پوش صارف اگر نان بائیوں سے بحث کی پوزیشن میں نہیں اور بھوکا رہنے کی بجائے پرانی قیمت پر مجبور ہے، تو دوسری طرف، صاحبِ ثروت افراد کے لیے منہگی روٹی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
وہ روٹی کی قیمت پوچھنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کرتے۔ گو کہ پنجاب حکومت کے اقدامات سے آٹا سستا ہوا ہے، تاہم اب بھی اِس ضمن میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اگر کسی تندور پر حکومت کے ڈر سے کم قیمت پر روٹی ملتی بھی ہے، تو یہ وزن اور حجم میں اِنتہائی ہلکی پُھلکی اور نازک سی ہوتی ہے۔جیسا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ایک محنت کش 16روپے والی روٹی کا صرف ایک نوالہ بنا کر کھا گیا اور ایسی تین چار نازک اندام روٹیاں بھی اُس کی بھوک نہیں مِٹا سکتیں۔
مسئلہ آج کا نہیں…!!
پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دَور ایسا گزرا ہو، جس میں عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورت آٹا اور گندم آسانی یا سستے داموں دست یاب ہوئے ہوں۔صرف ایک سال پہلے کی صُورتِ حال دیکھیں، تو یوں لگتا تھا، گویا ہم صومالیہ یا سوڈان جیسے قحط زدہ ممالک کے باسی ہیں۔ ایک، ڈیڑھ سال پہلے کی چند خبروں کی سُرخیاں ملاحظہ کیجیے۔ ’’رمضان المبارک میں مفت آٹا لینے والوں میں بھگدڑ مچ گئی،12 افراد ہلاک، بچّے بھی شامل۔‘‘ ’’روٹی کے ایک ایک ٹکڑے پر لوگ دوسروں کو مار رہے ہیں۔‘‘’’بھوکے عوام نے آٹے کا ٹرک لُوٹ لیا۔ روٹی کی جگہ لوگوں کے حصّے میں موت۔‘‘ ’’حکومت بے بس۔ ذخیرہ اندوزوں کی موجیں۔
گندم افغانستان اسمگل۔ لوگ آٹے کے لیے ترس گئے۔‘‘’’ آٹا لینے کے لیے عوام 8-8 گھنٹوں سے قطاروں میں لگے ہیں۔ آٹا بحران نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔‘‘ اِس قسم کی خبریں الجزیرہ ٹی وی، بی بی سی اور بھارتی نیوز چینلز پر بریکنگ نیوز بنیں۔ بالخصوص، بھارتی چینلز اور اخبارات نے تو خُوب نمک مرچ لگا کر ان خبروں کو پیش کیا اور پاکستان کو ایک فاقہ زدہ مُلک قرار دیتے رہے۔ بیش تر غیر مُلکی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے خبروں کے اِس پہلو پر زیادہ زور دیا کہ ایک زرعی اور دنیا کے سب سے بڑے آب پاشی نظام کے حامل مُلک کے عوام، آٹے اور گندم کے ایک ایک دانے کے لیے ترس رہے ہیں۔
زرعی مُلک کا بَھرم کیسے ٹوٹا…؟؟
اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں مختلف فصلوں کی پیداوار اونچ نیچ کا شکار رہتی ہے۔ کبھی کسی سال کسی فصل کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، تو دوسرے سال اس میں کمی آگئی۔ کبھی اِتنی فصل ہوئی کہ برآمد تک کی نوبت آگئی، تو دوسرے سال سیلاب نے سری فصل پر پانی پھیر دیا۔ لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اکثر و بیش تر مختلف فصلوں، خاص طور پر گندم کے حوالے سے بحران ہی کا شکار رہا اور ہر دوسرے، تیسرے سال پورے پاکستان، بالخصوص پنجاب کے عوام آٹے اور گندم کے بحران میں مبتلا ہو گئے، جس کا نقطۂ عروج گزشتہ سال دیکھنے میں آیا، جب عوام کو قطاروں میں لگ کر آٹا لینا پڑا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ایک عرصے تک پاکستان ایک زرعی مُلک اور 5دریائوں کی سرزمین کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا، لیکن پھر اس کا یہ بَھرم ٹوٹ گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت انگریزوں نے پنجاب میں آب پاشی کا جدید نظام رائج کر رکھا تھا۔ پاکستان سے پانچ دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج اور سندھ گزرتے تھے اور پنجاب (پنج کے معنی 5 اور آب کا مطلب دریا) کا مقام پنجند، اُن کے ملاپ، سنگم کا مقام تھا۔ انگریزوں نے جدید آب پاشی نظام کے لیے محکمۂ آب پاشی 1849 ء میں قائم کیا تھا، جو 24 بڑی نہروں کے ذریعے (جو کہ 23 ہزار کلو میٹر پر پھیلی ہوئی تھیں) کاشت کاروں کو پانی فراہم کرتا تھا۔ پھر سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کی مقدار کم ہو گئی۔ کئی دریائی پانیوں پر بھارت کو دسترس حاصل ہو گئی۔
اس کے بعد جب حُکم ران اپنی کرسی بچانے میں لگ گئے، تو سیاسی عدم استحکام نے مُلک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور حُکم رانوں کی توجّہ عوام اور کسانوں سے ہٹ گئی۔ اُنہیں غیر مُلکی قرضوں کا چسکا پڑ گیا، بیڈ گورنینس معمول بن گئی، تو زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح زراعت کا شعبہ بھی زوال پذیر ہو گیا اور ہمیں اشیائے خوردنی بھی درآمد کرنا پڑ گئیں۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ17 جون2022 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق تیل اور کھانے پینے کی اشیاء، گندم، چائے، دالیں، چینی، خوردنی تیل کا درآمدی بِل28 ارب،14 کروڑ ڈالرز تک جا پہنچا۔
یہ خطرناک اضافہ عالمی منڈیوں میں بڑھتی قیمتوں اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے ہوا۔ ماہرین نے اشیائے خور و نوش کے درآمدی بِل میں52 فی صد اضافے کو مُلکی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا، خاص طور پر پاکستان کے لیے جو ایک زرعی مُلک کے طور پر جانا جاتا ہے۔
خوردنی اشیاء، تیل اور گندم وغیرہ کا یہ درآمدی بل، مُلک میں زرعی تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی، حکومت کی زرعی پالیسیز، مختلف فصلوں کی پیداوار اور کاشت کاروں کو دی جانے والی سہولتوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان اداروں کی غیر تسلّی بخش کارکردگی اور کاشت کاروں کے مسائل پر حکومت کی عدم دل چسپی کا نتیجہ ہے کہ مُلک میں ہر دو، تین سال بعد آٹے، گندم اور چینی کا بحران عوام کو قطاروں میں لاکھڑا کرتا ہے۔ جہاں لوگ آٹے کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی بازی بھی لگا دیتے ہیں۔
ناقص پالیسیز ایک بڑا مسئلہ
پاکستان میں زرعی سیکٹر کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا اور کاشت کار حکومت سے کبھی خوش نہیں رہے۔ اربوں روپے کے کسان پیکیجز کے باوجود (جیسا کہ اب پنجاب میں 400ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا گیا ہے) زرعی سیکٹر میں کوئی خوش گوار پیش رفت نہیں ہوئی۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2023ء کے مطابق مُلک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا حصّہ22 اعشاریہ7 فی صد ہے اور اس سے مُلک کی 37 اعشاریہ 4 فی صد لیبر فورس وابستہ ہے۔
یہ عوام کو زندگی کی بنیادی خوراک گندم، چاول، چینی وغیرہ فراہم کرنے کا سب سے بڑا شعبہ ہے اور گندم ایک شہری کی روزانہ خوراک کا 60فی صد حصّہ ہے۔ پاکستان میں گندم کی پیداوار ہمیشہ موسم کے رحم و کرم اور کمی بیشی کا شکار رہی۔ جیسے 1990ء سے 2011ء تک گندم کی پیداوار میں دُگنا اضافہ ہوا، لیکن اس کے بعد یہ جمود کا شکار ہو گئی۔ اُس وقت یہ پیداوار 2کروڑ 84لاکھ ٹن تک تھی۔ 2021ء میں یہ دو کروڑ70 لاکھ ٹن ہوگئی۔
بعدازاں، حکومت نے 2کروڑ84 ٹن کا ہدف مقرّر کیا، لیکن سیلاب کے باعث یہ ٹارگٹ دو کرو ڑ68 لاکھ ٹن کر دیا گیا، جب کہ ہماری قومی ضرورت 3کروڑ ٹن سے زائد ہے، جسے پورا کرنے کے لیے پاکستان کو ہر سال اوسطاً 3لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنا پڑتی ہے۔ اس مسئلے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ناقص زرعی پالیسیز اور وسائل کو بھرپور استعمال نہ کرنے کی وجہ سے پنجاب کا کاشت کار حکومت سے کبھی خوش نہیں رہا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پنجاب میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 31من، جب کہ بھارتی پنجاب میں یہ 58مَن سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان گندم کی درآمد پر 10بلین ڈالرز تک خرچ کر دیتا ہے اور ہمیں درآمدی قیمت 6ہزار روپے فی ٹن پڑتی ہے، حالاں کہ اس سے کم رقم کاشت کاروں کو سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کر کے پیداوار میں کئی گُنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ 2023ء میں بھی ہمارے ہاں گندم کی ریکارڈ27 کروڑ 50لاکھ ٹن پیداوار ہوئی، لیکن بڑھتی آبادی نے ہماری خوراک کی ضروریات میں اضافہ کر دیا ہے۔
مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ہماری پیداوار اچھی ہوئی ہو، تب بھی ہم مخصوص افراد کو نوازنے کے لیے بلاضرورت گندم درآمد کر لیتے ہیں۔ ماہرینِ زراعت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زرعی سیکٹر کی بد حالی ناقص زرعی پالیسیز اور حکومتی عدم توجّہی کی وجہ سے ہے۔ گندم کی خریداری میں محکمۂ خوراک کے افسران کی بدانتظامی، پانی، بجلی، گیس اور کھاد کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ اور کاشت کاری کے جدید ترین آلات کی عدم موجودگی اِس مسئلے کی بنیادی وجوہ ہیں۔
اِس ضمن میں ماہرین نے جن چند وجوہ کی خاص طور پر نشان دہی کی ہے، اُن میں ذخیرہ اندوزی، گندم ذخیرہ کرنے کے ناکافی انتظامات، آڑھتیوں اور تاجروں کی منافع خوری، گندم کے زیرِ کاشت رقبے میں (سوائے ایک، دو سالوں کے) مسلسل کمی، آب پاشی کا ناقص نظام، پانی کا بے دریغ زیاں، ماحولیاتی تبدیلی، پیداواری مداخل (in Puts) کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور گندم کی افغانستان اسمگلنگ وغیرہ خاص طور پر اہم ہیں۔
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ بلا ضرورت گندم کی درآمد بھی گندم کے بحران اور کاشت کاروں کی بدحالی کا ایک بڑا سبب ہے۔ 29اپریل 2024ء کی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال پرائیویٹ سیکٹر کو نوازنے کے لیے بیورو کریسی نے ضرورت سے زاید گندم درآمد کرنے کی اجازت دی، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور کسان الگ خوار ہوئے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں…؟؟
* سرکاری امدادی قیمتِ خرید، کسان کی لاگت سے 47 فی صد کم ہے
* بحران کی آڑ میں مافیا اربوں روپے کما لیتی ہے
* بحران کے ذمّے داران کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی
پاکستان میں آئے روز گندم اور آٹے کے بحران کے پسِ پردہ درجنوں عوامل کارفرما ہیں، جن کی نشان دہی ماہرینِ سیاست نے کچھ یوں کی ہے۔رُکن قومی اسمبلی، شیخ وقاص اکرم نے ایوان میں کسانوں کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے کہا کہ’’پاکستانی کاشت کار رُل گیا ہے۔
حکومت 3900 روپے کسانوں سے گندم کی خریداری کی امدادی رقم مقرّر تو کرتی ہے، لیکن خریداری یقینی نہیں بناتی، جب کہ مخصوص حلقوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے3200 روپے فی مَن امپورٹ ہونے والی گندم 47 سو روپے میں خرید لیتی ہے۔وہ کسان، جسے پانی، بجلی، گیس، کھاد منہگی مل رہے ہوں، بیج بھی ادھار لینا پڑتا ہو، 10ہزار میں بلیک میں ملنی والی یوریا بھی خرید نہ سکتا ہو، پھر بھی یہ سمجھنا کہ39 سو روپے امدادی رقم مقرّر کرنے سے کسان خوش حال ہوگا، سراسر احمقانہ بات ہے۔
یہ قیمت اُس کی لاگت سے 40 فی صد کم ہے۔ یہ وہ کسان ہیں، جنہیں ابھی تک پچھلے سال کی گنے کی فصل کی قیمت بھی ادا نہیں کی گئی۔‘‘ارسلان خان خاکوانی نے بھی کم و بیش یہی شکوہ کیا کہ’’ پاکستان کے چند مافیاز صرف اپنے کمیشن کے لیے اصافی گندم امپورٹ کر کے اور اسے نسبتاً سستا بیچ کر پاکستانی کسانوں کی سارے سال کی محنت مٹّی میں ملا دیتے ہیں۔ مُلک میں گندم کا کبھی حقیقی بحران نہیں رہا، البتہ مافیاز خود بحران پیدا کر کے اُس کی آڑ میں اربوں روپے کماتی ہیں اور کاشت کار کو کچھ نہیں ملتا۔ جب کاشت کار دیکھتا ہے کہ اُسے گندم کی فصل سے کچھ نہیں ملتا، تو وہ دوسری فصلوں کاٹن، گنا، مکئی، سرسوں کی طرف راغب ہونے لگتا ہے، جس سے گندم کی قلّت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘
ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت گندم کی امدادی پرائس فکس تو کر دیتی ہے، لیکن اِس قیمت پر گندم اُٹھاتی نہیں، جس سے کسان، جس نے اس فصل کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں، تاجر اور آڑھتی مافیا کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے۔ کسانوں کے اِس وقت بھی اربوں روپے آڑھتیوں اور تاجروں کے پاس پڑے ہیں۔ یہ مافیا، گندم کی ذخیرہ اندوزی اور اس کی مصنوعی قلّت پیدا کر کے بھی اربوں روپے کماتا ہے۔
اِسی لیے مُلک میں جب بھی آٹے یا گندم کا بحران پیدا ہوتا ہے، تو اُس کی پُشت پر امپورٹرز، تاجر، آڑھتی، مل اونرز اور حکومتی عُہدے دار ہی ہوتے ہیں، جو عوام کو تگنی کا ناچ نچاتے ہیں۔حکومت کی ناقص اور کسان دشمن پالیسیز کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی زمانے میں دوسروں کو آٹا دینے والا مُلک، اب ہر سال، دو سال بعد گندم کے بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔ حکومت گندم امپورٹ کرنے پر جتنا زرِمبادلہ (تقریباً ایک ارب ڈالر) خرچ کرتی ہے، اگر وہ کسانوں کی بہبود پر صَرف کرے، تو سارے مسائل حل ہو جائیں۔
کسان بورڈ کے مرکزی صدر، سردار ظفر حسین خان کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’پنجاب ایک زرعی خطّہ ہے اور کبھی یہ’’ اناج گھر‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے، تو پھر ہر سال، دو سال بعد گندم کی قلّت کیوں ہوجاتی ہے؟ دراصل اِس کی وجہ حکومت کی ناقص حکمتِ عملی ہے۔ پہلے باہر سے گندم منگوالی جاتی ہے، پھر جان بوجھ کر آٹے یا گندم کا بحران پیدا کردیا جاتا ہے۔ کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں، کیوں کہ یہ کھیل کھیلنے والے صاحبانِ اقتدار ہیں۔
روس سے گندم پانچ ہزار، پانچ سو روپے فی من درآمد کی گئی، جب کہ ہمارے کسانوں سے کم قیمت پر بھی گندم خریدتے ہوئے ان کے پیٹ میں مروڑ اُٹھتے ہیں۔ حالاں کہ درآمد شدہ گندم کوالٹی میں بھی پاکستانی گندم سے کم تر ہے۔ میرے نزدیک، پاکستان میں آٹے اور گندم کا بحران ایک منصوبے کے تحت پیدا کیا جاتا ہے اور اس کا حل یہی ہے کہ بحران پیدا کرنے والوں کا تعیّن کر کے اُنہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو پھر مُلک میں ایسا طوفان آئے گا، جو کسی سے بھی سنبھالا نہیں جائے گا۔‘‘