مکرم علی
ہمارا نظام تعلیم بھی خوب ہے، اس میں بہت تلاش کے بعد سب کچھ ملتا ہے سوائے تعلیم کے جو گھر کی سطح پر ہو یا محلے کی ، شہر ،صوبے کی سطح پر ہو یا ملک کی، ہر جگہ سوائے استاد اور تعلیم سے وابستہ لوگوں کے ہر کس و ناکس سے تعلیم کے بارے میں مشورہ لیا جاتا ہے اور ہر شخص یہ مشورہ مفت دینے کے لئے ادھار کھائے بیٹھا رہتا ہے۔ ہمارے یہاں انگریزی ذریعہ تعلیم کے بھی ادارے ہیں اور اردو میڈیم کے بھی۔ انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں کے بورڈ اردو میں لکھے ملتے ہیں اور اردو میڈیم اسکولوں کے بورڈ پر کہیں نہیں لکھا ملے گا کہ یہاں ذریعہ تعلیم اردو ہے بلکہ اردو میڈیم ہی لکھا ہوگا۔
ان اسکولوں میں اردو اور انگریزی کے سوا ہر چیز پڑھائی جاتی ہے۔ اگر ان میں واقعی انگریزی یا اردو پڑھائی جاتی تو پھر دس برس تک یہ زبانیں پڑھنے کے بعد بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں اور جامعات میں ان پر اتنا زور کیوں دیا جاتا۔ چھٹی جماعت سے بچہ انگریزی کا جملہ بنا نا شروع کرتا ہے اور بی اے، بی ایس سی تک وہ جملہ مکمل نہیں کر پاتا ۔ انٹر اور بی اے میں اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ فل اسٹاپ کہاں لگانا ہے اور کو ماکہاں ، یعنی بی اے ،بی ایس سی میں وہ PUNCTUATION سیکھتا ہے اور پھر بی اے کرکے جب نکلتا ہے تو فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ٹائپسٹ سے نوکری کی درخواست لکھواتا ہے اور تمام شہرمیں بس اس کاغذ کے پرزے کو لئے مارا مارا پھرتا ہے۔
رہی اردو تو یہ بہت سے لوگوں کی مادری زبان ہے اور جن کی مادری زبان نہیں وہ بھی اسے سمجھتے بولتے اور لکھتے ہیں۔ اب یہ ان کا حق ہے کہ جیسے چاہے بولیں یا لکھیں۔ بہرحال اس پورے سلسلے میں کہیں نہ کہیں خرابی ضرور ہے۔ استاد میں ، شاگرد میں، نصاب میں یا پھر خود زبان میں۔
یہ تمام صورت حال باعث حیرت بھی ہے اور پریشان کن بھی ۔ یہ سمجھ لیں ہماری تعلیم کا حال بھی اب کچھ ایسا ہو گیا ہے جو ایک مریض کا کئی ڈاکٹروں اور حکیموں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ معیار تعلیم کی ہی بات لے لیجئے ۔ اس پر بہت کچھ کہا بھی جارہا اور لکھا بھی جا رہا ہے، سب کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ معیار گرتا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ جو لوگ اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں ،وہی فرماتے ہیں کہ معیار تعلیم گر رہا ہے،اگر واقعی ایسا ہے تو آپ اسے ٹھیک کر دیجئے۔ مزید یہ کہ روز بروز ایسے قوانین، اصول اور ضابطے بنائے جاتے ہیں جس سے معیار کی بہتری تو کیا ابتری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پچھتر سال بعد بھی یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ، معیار تعلیم کیسے بہتر کیا جائے؟ نظام تعلیم کیسا ہونا چاہیے ؟ اس پر غور کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس وقت کیا حالات ہیں۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہماری آبادی تین گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو مغربی طرز کے مدرسوں، کالجوں اور جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بہت سےفارغ التحصیل ہو چکے ہیں ۔ ان کو اپنی تاریخی اور ثقافتی روایات سے عموما اور شعائر اسلامی سے خصوصاً کوئی واقفیت نہیں ہے۔
دوسرا گروہ ان اصحاب کا ہے جو درس نظامیہ یا اسی قبیل کے دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں اور جو جدید علوم و فنون کی ان غیر معمولی ترقیوں سے قطعی لاعلم ہیں جو گذشتہ چند صدیوں میں طبعی ، حیاتی اور عمرانی علوم کے علاوہ ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں رونما ہوئی ہیں، اس لئے وہ موجودہ دور کے تقاضوں اور رجحانات کو نہیں سمجھ سکتے ۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہیں مذکورہ بالا جدید یا قدیم کسی قسم کی تعلیم نصیب نہیں اور جو اپنی جہالت کے باعث غربت بھوک اور امراض کا شکار ہیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جس امت کے پیغمبر صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ اس حکم پر مبنی تھی کہ پڑھنا لکھنا اور علم حاصل کرنا انسانوں کا بنیادی فرض ہے۔ جس دین نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ عالم گیر تعلیم کا اصول پیش کیا ، اس دین کے ماننے والوں کی اکثریت ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے۔ رہی بات مقصد تعلیم کی، تو ہماری سمجھ میں آج تک یہ آیا نہیں کہ ہمارے سامنے تعلیم کے مقاصد کیا ہیں۔ میرا خو د تعلیم و تدریس سے برسوں کا واسطہ ہے،تقریباً 15برس تک تعلیمی اداروں کی خاک چھاننے کا تجربہ اس چوتھائی صدی کی وابستگی کے علاوہ ہے۔ اپنے اس تجربے کی بنیاد پر برملا کہہ سکتا ہوں کہ یہ واحد شعبہ زندگی ہے جس کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئی۔
ہم جب تک ابتدائی تعلیمی مدارج پر واضح تعلیمی مقاصد متعین نہیں کرلیتے قومی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ لازمی ابتدائی تعلیم کے ساتھ ہمارا دوسرا اہم مقصد تعلیم کے ذریعے ملک میں اسلامی مساوات اورمعاشرہ کے مختلف طبقوں کے درمیان پائی جانے والی ناہمواریوں کو ختم کرنے کے لئےتمام تعلیمی اداروں میں بلا تخصیص ایک ایسا یکساں نظام تعلیم رائج کرناچا ہیےجو قومی آہنگی اور یکجہتی کو فروغ دے کر ان محرکات کا تدارک کرسکے جو ایک متحد قوم تیار کرنے کی بجائے مراعات یافتہ طبقوں کو جنم دے کر استحصال کے عمل کوجاری رکھتا ہو۔
گذشتہ پچھتر سال کے تجربات ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں۔ مسلسل بھٹکنے کے باوجو اگر اب بھی ہم تعلیمی نصب العین اور مقاصد متعین کرنے سے اغماز برتتے رہے تو یہ ایک مجرمانہ غفلت اور بے پروائی ہوگی۔ اس وقت تعلیم کے شعبے میں ہمہ گیر اصلاحات اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے مربوط تعلیمی حکمت عملی کے ذریعےملی مقاصد کو آگے بڑھائیں۔ ایک نظریاتی مملکت کی حیثیت سے ہمارے متعین نظریات کو معرض بحث نہیں بنایا جا سکتا۔
تعلیم سے متعلق ہماری روایات ہمارے لئے ہمیشہ قابل فخر رہی ہیں ۔ دور غلامی میں بھی قرطبہ، بخارا اور بغداد کا تذکرہ ہمارے لئے ایک گونہ سکون و طمانیت کا باعث رہا ہے۔ ان سب کے با وجو د حیرت ہے کہ جس موضوع سے سب سے زیادہ بے اعتنائی برتی جاتی رہی ہے وہ تعلیم کے بنیادی نصب العین اور تعلیمی مقاصد کا تعین ہے۔ ہمارے تعلیمی مقاصد میں اولیت تو خود تعلیم کی عظمت، علم کے احترام اور اس کے حصول کو ملنی چاہیے کہ اس کو قرآن وحدیث نے ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے ایک فریضہ قرار دیا ہے۔
بلا تخصیص خواندگی اور لازمی تعلیم جس کا مطالبہ یورپ و امریکہ میں گذشتہ صدی میں عام ہوا آج سے چودہ سو سال قبل ہمارا ایک مسلمہ اصول قرار دیا جا چکا ہے۔ علم کے حصول کے لئے چاہے وہ چین جانے کی نصیحت ہو یا غزوہ بدر کے قیدیوں کے لئے کسی ایک ناخواندہ بچے کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی شرط۔ ۔ آج نظریاتی مملکت میں ناخواندگی کے پس منظر میں ابتدائی لازمی اور مفت تعلیم کا مطالبہ ہم سب کے لئے باعث شرمندگی ہونا چاہیے کہ ہم تا حال بنیادی تعلیمی مقاصد کو سر مو آگے بڑھانے میں ناکام ہیں۔ اس ناکامی کا واحد سبب تعلیم کے بنیادی نصب العین اور تعلیمی مقاصد سے روگردانی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟
اعلیٰ تعلیم کے نئے نئے اداروں اور نئی نئی جامعات کے قیام سے یہ سمجھ لینا کہ ہم تعلیمی مقاصد کو فروع دے رہے ہیں ایک غلطی ہوگی ۔ بے ربط تعلیم کے ذریعے یہ زعم باطل کہ ہمارا ملک تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا، خام خیالی سے زیادہ نہیں۔ تعلیمی مقاصد اور نصب العین کے تعین کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں بے مقصد پیش رفت ہمیں اپنی منزل سے قریب نہیں بلکہ فریب منزل کا شکار کرتی چلی جائے گی۔
اس وقت جو چیز وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ سب سے زیادہ متا ثر ہو رہی ہے وہ طلباء کی تربیت ہے، جس کو ایک زمانے میں ہمارے روایتی طریقہ تعلیم میں خصوصی اہمیت دی جاتی تھی۔ ہمارے یہاں بچوں اور طلبہ کی تربیت ایک ایسے معاشرہ کی بھر پورذمہ داری تھی اور ہے جسے گلستان اور بوستان کی معاشرت کہا جا سکتا ہے۔لیکن اب جب ہم آزاد ہیں ، اپنے نظریات اور اپنی روایات کو قائم کرنے کے مختار ہیں، اپنے ملک کے قدرتی وسائل کے مالک ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے کسی کے پابند نہیں ہیں تو کیوں کچھ نہیں کر رہے۔
آزاد ملکوں میں تعلیمی ادارےاعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتے ہیں،جو قوم اپنے مخصوص نظریات، روایات اور ضرورتوں کے مطابق متعین کرتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہمیں جو تعلیمی نظام ورثہ میں ملا وہ ان اعلیٰ مقاصد سے یکسر مبّرا تھا اور اس کا محور غیر ملکی حکمرانوں کی اپنی سیاسی ضروریات تھیں۔
غلامی کی طویل رات میں بھی مصلحین قوم نے مروجہ تعلیم میں مسلمانوں کی روایات اور ملی نظریات کی روشنی میں وقتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی اہمیت کو آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور کی تمام ابتدائی تحریکیں مسلمانوں کی تعلیم سے متعلق نظر آتی ہیں اور خودمسلم لیگ بھی کسی حد تک آل انڈیا مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کی ایک ضمنی تنظیم کی حیثیت سے وجود میں آئی۔ مسلمانوں کی ان کوششوں میں ملکی حالات کے پس منظر میں ان کی وقتی ضروریات کو زیادہ دخل تھا۔ لیکن تعلیم کے قومی مقاصد کا تعین خصوصاً تعلیم کے ذریعہ نئی نسل کی تربیت کا جو پہلو آزاد قوموں کی تعمیر و ترقی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے رہبران ملت کی قرارو اقعی توجہ سے محروم رہا۔
ہم اس کو ان کی بے توجہی اور بے اعتنائی قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ تعلیمی مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے قوم کی آزادی اور خود مختاری ایک لازمی شرط ہے ۔ انگریز کے نو آبادیاتی نظام تعلیم کے تحت عام انگریزی اور سرکاری مدارس میں طلبا کی تربیت کا مفہوم نظم ونسق اور ڈسپلن پر زور دینے تک محدود سمجھا جاتا تھا۔ میشنری تعلیمی ادروں میں تعلیم کے ساتھ اخلاقیات اور عقائد کا درس بھی دیا جاتا تھا جبکہ اب تک پاکستان میں جتنی بھی کوششیں تعلیم کے سلسلے میں ہوئی ہیں وہ محض مختلف اقوام کے تجربوں کی نامکمل اور نیم دلانہ نقل کے سوا کچھ نہیں۔ اس سلسلے میں اگر کوئی صرف پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں میں تعلیم (نظام تعلیم اور نصاب تعلیم) کے باب میں ریمارکس جمع کرے تو عبرت پکڑے گا۔
اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ جو کوئی بھی کرسیٔ اقتدار پر قابض ہوا اس کے ذہن میں تعلیم کا کوئی منصوبہ نہیں تھا ۔ ہم جب تک ابتدائی تعلیمی مدارج پر واضح تعلیمی مقاصد متعین نہیں کرلیتے قومی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ عام خواندگی اورلازمی ابتدائی تعلیم کے ساتھ ہمارا دوسرا اہم مقصد تعلیم کے ذریعے ملک میں اسلامی مساوات اور معاشرہ کے مختلف طبقوں کے درمیان پائی جانے والی ناہمواریوں کو ختم کرنے کے لئے ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں بلا تخصیص ایک ایسا یکساں نظام تعلیم رائج کرنا چاہیے جو قومی آہنگی اور یکجہتی کو فروغ دے کر ان محرکات کا تدارک کرسکے جو ایک متحد قوم تیار کرنے اور مراعات یافتہ طبقوں کو جنم دے کر استحصال کے عمل کوجاری رکھتا ہو۔