مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب میں ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان کی منتخب آئینی حکومتوں کو بار بار کیوں ختم کیا جاتا رہا جبکہ ان تمام ادوار میں ملک کی ترقی و خوشحالی کے دور رس منصوبے عمل میں لائے جارہے تھے ۔ اپنا مقدمہ تاریخی ترتیب سے پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1993ء میں ہماری حکومت کا تختہ کیوں الٹا گیا؟ اس وقت ملکی ترقی کیلئے جو ایجنڈا دیا تھا ، اس پر عمل ہوجاتا تو آج ہمارا ملک ایشیا میں سب سے آگے ہوتا۔ لوگوں نے تنقید کی کہ موٹرویز پر پیسے ضائع کیے لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ موٹر ویز سے کتنا فائدہ پہنچا۔ہمیں دوبارہ موقع ملا تو ملکی دفاع میں بھی حصہ ڈالا اور ملک کو ایٹمی قوت بنایا۔ ایٹمی دھماکوں سے روکنے کیلئے کی گئی پانچ ارب ڈالر کی پیشکش مسترد کی جو کہ اس وقت بہت بڑی رقم تھی ، آج سب کہتے ہیں کہ ہم نے دھماکے کرکے درست فیصلہ کیا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرویز مشرف نے مارشل لا لگا کر ملک کے وزیراعظم کو ہائی جیکر بنادیا ۔ 2013ء کے الیکشن میں سب سے پہلے عمران خان سے ملنے بنی گالا گیا، عمران خان نے 35 پنکچر کا الزام لگایا تو انہیں سمجھایا کہ یہ بات درست نہیں مل کر چلیںاور ملک کیلئے کام کریں مگر اس کے بعدوہ لندن پہنچے، ظہیر الاسلام اور طاہر القادری سے ملے اور پھر دھرنوں کا آغاز ہوگیا تو میں حیران رہ گیا۔ کہاں سے ان کو اشارہ ہوا کچھ نہیں بتایا، ان کا اخلاقی فرض تھا کہ ہمیں بتاتے کہ آپ سے ان ان باتوں پر اختلاف ہے لیکن ملاقات میں ہاں میں ہاں ملائی اور پھر کمر میں خنجر گھونپ کر دھرنے شروع کردیے۔ چار ماہ تک اس کی وجہ سے چینی صدر کی آمدمیں تاخیر ہوئی۔ اس کے بعد وہ آئے اور سی پیک کا معاہدہ ہوا۔ میرے دوست مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کے بعد کہا کہ ہم اور آپ مل کر کے پی میں حکومت بناسکتے ہیں مگر میں نے معذرت کی اور کہا کہ سنگل لارجسٹ پارٹی پی ٹی آئی ہے انہیں حکومت بنانے کا موقع دیں ۔ن لیگ کے قائد نے دعویٰ کیا کہ مجھے پارٹی کی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ ن لیگ سینٹرل کمیٹی کا نہیں تھا بلکہ کہیں اور سے آیا تھا۔ مجھے تنخواہ نہ لینے پر سزا دی گئی ، میرے پاس ویڈیو ہے جس میں ثاقب نثار کہتے ہیں کہ عمران کو لانا ہے،نواز اورمریم کو جیل میں رکھنا ہے،ایسے چیف جسٹس کا احتساب ہونا چاہیے۔ پھرایسے بندے کو لائے جس نے تباہی مچادی۔ مظاہر نقوی کو بھی نیب کے کٹہرے میں لانا چاہیے، اتنی جائیدادیں کہاں سے آئیں؟ 75 برس سے اگر احتساب ہوتا رہتا تو آج ہم مختلف قوم ہوتے۔ بتایا جائے کہ مہنگائی کس کے دور سے شروع ہوئی؟ قوم ووٹ دیتے وقت کیوں نہیں سوچتی کہ ہمارے دور میں مہنگائی کتنی تھی اور گزشتہ دور میں کتنی تھی؟ قوم سے گلہ ہے کہ ہمیں تنخواہ نہ لینے پر نکال دیا گیا اور قوم خاموش رہی۔نواز شریف نے اس خطاب میں اپنا مقدمہ بڑی جامعیت کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کردیا ہے۔ تاہم اگر ان واقعات کے ذمے دار طاقتور حلقوں اور عدلیہ کے ارکان کے نزدیک جن کی طرف سابق وزیر اعظم نے اشارہ کیا ہے، یہ بیان درست نہ ہو تو انہیںٹھوس ثبوت و شواہد کے ساتھ اپنا مؤقف سامنے لانا چاہیے۔ بصورت دیگر ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے حامی تمام افراد کو جمہوریت کشی اور آئین شکنی کے تمام ذمے داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کی بھرپور تائید کرنی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ملک کا سیاسی استحکام اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔ دھرنوں سے لے کر تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے تک تمام معاملات کی عدالتی تحقیقات کی تجویز خود فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں پیش کرچکے ہیں جبکہ موجودہ چیف جسٹس بھی ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کے علم بردار ہیں لہٰذا جلدازجلد اس سمت میں عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔