( گزشتہ سےپیوستہ)
انڈین آئین اور جمہوریت میں اس وقت پوری دنیا کیلئے بہت بڑا تفاخر ہے کہ اس کی بنیادیں لبرل سیکولر اقدار پر استوار ہیں انکے بابائے قوم مہاتما گاندھی اگرچہ اپنی زندگی میں کئی حوالوں سے مذہبی ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے اپنی پرارتھنا میں رامائن اور بھگوت گیتا کے ساتھ دیگر مقدس کتب بشمول قرآن اور بائبل کا پاٹ بھی کرواتے تھے۔ ابھی جس طرح لوک سبھا کی نئی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے نریندر مودی نے بھی یہی اسلوب اپنایا ہے لیکن گاندھی جی نے اپنی ساری سیاست سیکولر بنیادوں پر کی جس میں وہ ہندو مسلم کو بلا تمیز اپنی دو آنکھوں کی مانند قرار دیتے تھے۔ اس کے برعکس جناح صاحب اپنی ذاتی زندگی میں قطعی غیر مذہبی تھے جس پر ان کے مسلم سیاسی مخالف انہیں طرح طرح کے طعنے بھی دیتے تھے لیکن تاہم لیگی سیاست سراسر مذہبی بنیادوں پر تھی ۔ بی جے پی کے معروف رہنما ایل کے ایڈوانی نے جب جناح صاحب کی ذاتی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں سیکولر قرار دیا تو ایڈوانی جی کی اپنی پارٹی کے اندر اتنی مخالفت ہوئی کہ انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔انڈین الیکشن 2024ء میں کانگریس سمیت اپوزیشن اتحاد بالخصوص راہول گاندھی یہ پروپیگنڈاپوری انتخابی مہم میں زور شور سےکررہے ہیں کہ اس مرتبہ اگر’’ چار سو پار‘‘ کا نعرہ کامیاب ہوگیا تو حکمران بی جے پی اور پردھان منتری مودی بھارتی آئین کی سیکولر حیثیت کو بدل ڈالیں گے جبکہ بی جے پی اور بالخصوص پرائم منسٹر مودی اس الزام کی نفی کرتے ہوئے یہ استدلال کرتے ہیں کہ انکے مخالفین اس نوع کی الزام تراشیاں محض مسلم ووٹ کو ان سے دور رکھنے کیلئےکررہے ہیں ہمارا تو صرف یہ ماننا ہے کہ جب بھی کمزور اور نچلے طبقات کیلئے مراعات دینی ہوں تو وہ دھرم کی بناد پر نہیں استحقاق کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔ اگر ایک پل کی تعمیر کا ٹھیکہ دینا ہے تو قابلیت و صلاحیت کو معیار ہونا چاہیے نہ کہ دھرم کے کوٹہ کو۔ مودی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے دیش کی سیکولر بنیادوں کو مضبوط کیا ہے نہ کہ کمزور، اس سلسلے میں وہ سب کیلئے یکساں قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے کیوں مذہبی تفریق کرتے ہوئے کچھ فرقوںکیلئے دھرم کی بنیاد پر الگ پرسنل قوانین بنوائے اگر بانٹو یاتقسیم کرو کی پالیسی برٹش سرکار نے اختیار کی تھی تو آزادی کے بعد کانگریس سرکار کو چاہیے تھا کہ اسے بدل دیتی انہوں نے اپنا قومی فرض ادا نہیں کیا مگر ہم کررہے ہیں، اس کے بعد وہ اپنے ہم وطنوں سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا یہ رویہ کیاسیکولر ویلیوز کے حق میں ہے یا مخالفت میں؟ آزادی کے بعد کانگرسی لیڈر ہندو، مسلم، سکھ، کرسچین، پارسی،جینز اور بدھ فرقوں کے نام لے لے کر اس مذہبی تفریق کو نمایاں کرتے یا ابھارتےتھے لیکن میں ایسے نہیں کرتامیں ایک ہی نظر اور ایک ہی شبد میں سب کو مخاطب کرتا ہوں اور وہ ہے اے میرے دیش واسیو! کیا یہ سیکولر رویہ نہیں ہے؟ اس سلسلے میں مودی مسلم مہیلاؤں یا خواتین کیلئے اپنی ٹرپل طلاق کی پالیسی، قوانین سازی یا اس کے نفاذ کی مثال دیتے ہیں بقول مودی یہ چیز مولوی کو جتنی بھی بُری لگی ہے مگر مسلم مہیلاؤں(خواتین) کو اس سے فائدہ پہنچا ہے جنہیں کھڑے کھڑے تین شبد بول کر فارغ کردیاجاتا تھا ہم نے تو ان کے حقوق کی رکھشا کی ہے اور وہ اس سے خوش ہیں۔ اس انتخابی مہم میں ”رام مندر“ کا ایشو بھی خوب اچھلا ہے جس کی تاریخ اگرچہ صدیوں پرانی ہے لیکن مودی سرکار نے حال ہی میں ”رام مندر“ تعمیر کرتے ہوئے اس کا پرجوش افتتاح کیا ہے۔ کانگریس اور اس کے ہمنواؤں نے اس میں شریک ہونے سے انکار کردیا ،یہ کہتے ہوئے کہ یہ بابری مسجد کو منہدم کرکے بنایا گیا ہے راجیو گاندھی اپنے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ رام مندر ضرور بنے گا مگر بابری مسجد پر بھی خراش نہیں آنے دیں گے۔ سچائی کے ساتھ پرکھ کی جائے تو بی جے پی کی سیاست کو جتنا بڑھاوا یا فائدہ رام مندر کی سمسیا نے دیا ہے اتنا کسی دوسرے ایشو نے نہیں دیا۔ ایک وقت تھا جب کانگریس کے بالمقابل بی جے پی کی ذرا نہیں چلتی تھی وہ شدید ترین پابندیوں میں رام مندر کی رتھ یاترا لے کر نکلتے تھے اور اکثر جیلوں میں پہنچا دیے جاتے تھے۔ کانگریس اپنی وسیع تر ہندو میجارٹی کی مانگ کی بھائوناؤں کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ سری رام چندر کی ہندو مذہب یا رامائن میں جو اہمیت ہے وہ کسی وضاحت کی محتاج نہیں، اس کی تفصیل اگلے کالم میں۔(جاری ہے )
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)