• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب کہاں اُن کی وفا، یادِ وفا باقی ہے

ساز تو ٹوٹ گیا، اُس کی صدا باقی ہے

تجھ کو ظالم میرے ناکردہ گناہوں کی قسم

اور بھی دے دے، اگر کوئی سزا باقی ہے

جو برس جائیں، تو بہہ جائے خدائی ساری

میری آنکھوں میں ابھی تک گھٹا باقی ہے

غم پہ غم سہہ کے بھی جینا ہی پڑے گا ہم کو

چند سانسوں کی ابھی اور سزا باقی ہے

(شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ)

کہاں فرہاد رہتا ہے…؟

کئی سالوں سے اِس دل میں

عجب سی ایک الجھن تھی

ذہن کے سب

نہاں خانوں میں اِک طوفان برپا تھا

مَیں سب سے پوچھتا تھا کہ کہاں فرہاد رہتا ہے؟

اِسی دوران اِک دن

کشورِایران کے اِک گاؤں جا پہنچا

وہاں کی ایک وادی میں

مجھے اِک بانسری کی دُھن نے

یوں مسرور کر ڈالا کہ

مَیں اُس کے تعاقب میں

بہت ہی دُور جا نکلا

وہاں ایک بوڑھے سے شجر کے پاس بیٹھا

ایک لڑکا بانسری کچھ یوں بجاتا تھا کہ

اُس کی دُھن کو سُن کر

فاختہ، بلبل، کبوتر سب چہکتے تھے

سبھی گلشن مہکتے تھے

مَیں اُس کے پاس پہنچا اور

اُس سے کہا مَیں نے

سنو!ے بانسری والے

مجھے اتنا بتادو ’’کہاں فرہاد رہتا ہے؟‘‘

مرِی یہ بات سُن کر بانسری والا

ذرا سا مُسکرایا اور پھر بولا

’’جہاں شیریں رہتی ہے، وہاں فرہاد رہتا ہے، وہاں فرہاد رہتا ہے‘‘

( ارسلان اللہ خان،حیدرآباد )