بات چیت: رؤف ظفر، لاہور
(عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی)
گلوکار، نغمہ نگار، میوزک کمپوزر اور پروڈیوسر شیراز اُپل کا شمار، پاکستان کے اُن موسیقاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے بہت کم عرصے میں شہرت کی بلندیوں کو چُھوا، یہاں تک کہ اُن کی موسیقی کا جادو، سرحد پار، بھارت میں بھی سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ وہ بھارت کے معروف میوزک ڈائریکٹر، اے۔ آر۔ رحمان کے، جنہیں موسیقی کی دنیا میں لیجنڈ کی حیثیت حاصل ہے، بااعتماد ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔
شیراز اپل 29جنوری 1976ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے کریڈٹ پر 300 سے زائد گانے اور 4میوزک البمز ہیں، جنہیں بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہوئی۔ 2010ء میں انڈین میوزک انڈسٹری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ وہ بھارت کی چار فلموں کا میوزک دے چُکے ہیں، جب کہ گزشتہ 10 ,8 برس میں بننے والی پاکستانی فلموں کا لگ بھگ 80 فی صد میوزک اُن ہی کا مرہونِ منّت ہے۔
بطور میوزک ڈائریکٹر اُن کا سب سے مقبول گانا، کوک اسٹوڈیو کے سیزن8 کا عاطف اسلم کا گایا ہوا گانا ہے۔ جب کہ اے۔ آر۔ رحمان کے ساتھ، امریکا کے متعدّد شہروں میں ہونے والے کنسرٹس بھی اُن کی بڑی کام یابی سمجھے جاتے ہیں۔
شیراز اپل کے سفرِ موسیقی اور دیگر کام یابیوں، کام رانیوں کا احوال، اُن کے اور فیملی کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی ایک تفصیلی نشست کی صُورت جانیے، جو بطورِ خاص ’’عالمی یومِ والد‘‘ اور ’’عید الاضحٰی‘‘ کے تناظر میں ترتیب دی گئی۔ نیز، اِن ایّام کی مناسبت سے سوال و جواب بھی ہوئے۔
س: آپ پیدائش کے اعتبار سے خالصتاً لاہوری ہیں؟
ج: جی ہاں۔ لاہور میں پیدا ہوا، لیکن بچپن میں کسی ایک جگہ ٹھہرنا نصیب میں نہیں تھا۔ والد صاحب (کرنل امتیاز اپل)، پاک فوج کے شعبہ ایوی ایشن میں پائلٹ تھے۔ اور فرائض کے سلسلے میں اُن کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہوتی رہتی تھی۔
چناں چہ مَیں نے اسلام آباد، لاہور، پشاور، ملتان سب ہی شہروں سے تعلیم حاصل کی۔ ایف ایس سی گورنمنٹ کالج، ملتان سے کیا۔ بی کام لاہور سے اور پھر لاہور ہی سے 1998ء میں ایم بی اے کیا۔
س: اگر موسیقی کی طرف رجحان تھا، تو ایم بی اے کیوں کیا؟
ج: میرا ایم بی اے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ والد صاحب کو بھی پتا تھا کہ بچپن ہی سے میرا رجحان موسیقی کی طرف ہے، لیکن انہوں نے شرط عائد کردی تھی کہ پہلے ڈگری لو۔ پھر موسیقی کی اجازت ملےگی۔ اُس وقت اُن کی شرط پرغصّہ آیا تھا، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ وہ بالکل درست تھے۔
غالباً اُن کا خیال تھا کہ اگرمَیں موسیقی کے شعبے میں ناکام بھی رہا تو کم ازکم متبادل روزگار تو ہونا چاہیے۔ بہرحال، مَیں نے 1998ء میں ایم بی اے کی ڈگری لی اور والد صاحب نے میوزک کی اجازت دے دی۔
س: تو کیا اس سے پہلے موسیقی شجرِ ممنوعہ تھی؟
ج: نہیں۔ یہ شوق تو بچپن سےساتھ ساتھ پروان چڑھا۔ بچپن میں میرے آئیڈیل کشور کمار اور وائیٹل سائنز بینڈ تھے۔ تب مجھے انگلش میوزک زیادہ پسندتھااورمَیں نجی محافل، دوستوں وغیرہ میں خُوب گانے گایا کرتا تھا۔ لوگ بھی میری آوازخاصی پسند کرتےتھے۔
پھر اُسی زمانے میں بھارتی موسیقاراے۔ آر۔ رحمان میرا آئیڈیل، بلکہ جنون بن گئے۔ ویسے 1995ء میں میرا پہلا گانا آچُکا تھا، جو پاکستان کے پہلے نجی چینل، ایس ٹی این/ این ٹی ایم پرسپرہُٹ بھی رہا۔
س: موسیقی میں کوئی استاد بھی ہے؟
ج: کوئی استاد نہیں۔ سارا کچھ مَیں نے خُود کیا۔ اور مَیں سمجھتا ہوں، یہ عطیۂ خداوندی، God Gifted ہے۔ میرا اس میں کوئی کمال نہیں، البتہ پروڈکشن کا کام میں نے اے۔ آر۔ رحمان سے سیکھا۔
س: آپ کےخاندان میں دُوردُور تک کسی کی میوزک سے وابستگی دکھائی نہیں دیتی، تو آپ کو کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟
ج: ابتدا میں والد صاحب میرے اِس شوق کے حق میں نہیں تھے، لیکن والدہ کا ووٹ شروع سے میرے ساتھ تھا،توجب والد نے بھی میرا اِس قدرجنون دیکھا، توخاموش ہوگئے۔ اور یوں میری آواز اورتوانا ہوگئی۔
س: موسیقی سے پہلی کمائی کتنی ہوئی؟
ج: مَیں اُس وقت ملتان سے ایف ایس سی کر رہا تھا، جب ایک ’’بینڈ‘‘ کو جوائن کر کے ایک تقریب میں گانا گایا، تو مجھے اُس کا معاوضہ دوسو روپے ملا، جو اُس زمانے میں کافی بڑی رقم تھی، حالاں کہ مَیں ایک پک اپ میں، جس میں موسیقی کاسامان لدا ہواتھا، بیٹھ کر کنسٹرٹ ہال تک پہنچا تھا۔
س: عملاً موسیقی کے میدان میں کب داخل ہوئے اور کب آپ کی آواز لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی؟
ج: عملی طور پر مَیں 2001ء میں اِس فیلڈ میں داخل ہوا۔ تاہم، مجھے صحیح معنوں میں شہرت 2003ء میں حاصل ہوئی، جب میرا گانا’’تیرا تے میرا‘‘ سُپرہٹ ہوا۔ مَیں نے کچھ عرصہ ایک بینک میں بھی کام کیا، جسے بعدازاں خیرباد کہہ دیا۔ اور وقت کےساتھ ساتھ میوزک ہی میرا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔
یہاں یہ ذکر بھی کرنا چاہوں گا کہ مَیں اے۔ آر۔ رحمان سے رابطےمیں تھا اور اُنہیں میری آواز پسند تھی، تو 2001ء میں اُنہوں نےمجھے لندن بُلا کر فلم ’’نائیک‘‘ کے لیے گانا ریکارڈ کروایا اورتب سےلے کر آج تک ہم دونوں رابطے میں رہتے ہیں۔
س: اے۔ آر۔ رحمان آپ کے آئیڈیل تھے، تو اُن سے مل کر تو خُوشی کی انتہا نہ رہی ہوگی؟
ج: جی بالکل، ایسا ہی تھا۔ اے۔ آر۔ رحمان تو میراجنون تھے۔ آپ اِس کا اندازہ اِس بات سےلگا سکتےہیں کہ مَیں گھرمیں اپنی بہن کا ڈسٹر کان سے لگا کر اُن سے فرضی باتیں کیا کرتا تھا۔ پھر اللہ نے وہ دن بھی دکھائے، جب مَیں نے اُن کے ساتھ مل کر امریکا میں دوبار14 شہروں میں کنسرٹس کیے۔
س: اُن سے ملاقات کب اور کیسے ہوئی؟
ج: مَیں 2000ء میں فیملی کے ساتھ امریکا میں تھا۔ ہم نیویارک میں تھے، جب میری اہلیہ کے ہاتھ ایک بروشر لگا، جس میں نیویارک میں اُن کے ایک کنسرٹ کا اشتہار تھا۔ مَیں نے اُن سے کسی طرح مل کراپنی پہلی سی ڈی اُنھیں دی۔
انہیں میری آواز اِتنی اچھی لگی کہ بعد میں لندن بُلا کر گانا ’’شاکالاکا‘‘ ریکارڈ کروایا۔ اُس کے بعد ہمارے تعلقات استوار ہوتے چلے گئے۔ مَیں اُن کے ساتھ امریکا کے کنسرٹس میں شریک ہوا اور بہ حیثیت پاکستانی، یہ میرے لیے بڑا اعزاز ہے۔
س: کام یاب فنی سفر کے ساتھ، آپ کا ازدواجی سفر بھی شروع ہوگیا۔ شادی آپ کی پسند کی ہے یا اریجنڈ؟
ج: جی، میری شادی میری پسند کی ہے اور یہ 23 سال کی عُمر میں ہوگئی تھی۔ اس دوران زندگی کئی نشیب و فراز سے گزری۔ ایک وقت ایسابھی آیا (2011ء میں) جب دنیا سے دل بالکل اچاٹ ہوگیا اور مَیں اہلیہ اور خاندان کے ساتھ امریکا شفٹ ہوگیا۔ اپنا لاہور کا اسٹوڈیو بھی اونے پونے بیچ دیا۔
دراصل مَیں صوفی ازم کی طرف مائل ہوگیا تھا اورمجھے لگا کہ مَیں جو کچھ کر رہاہوں، سب غلط ہے۔ لیکن پھر امریکا ہی میں، مَیں نےدیکھا، محافلِ سماع، بالخصوص تاج دارِ حرم ’’قوالی‘‘ سُنتے ہوئے لوگ حضورﷺ کے اسمِ مبارک پر کیسےآب دیدہ ہوگئے، تب اُن کے جذبات ناقابلِ بیان تھے، تومَیں نے سوچا کہ یہ حمد و ثناء، قوالیاں اور صوفیانہ کلام تو لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنےکا ایک موثروسیلہ بھی ہے۔
سو، پھر زندگی کا دوسرا بڑا فیصلہ کیا اور پاکستان واپس آگیا۔ لاہورمیں اپنا اسٹوڈیو دوبارہ خریدا۔ بعدازاں، کئی قوالیاں کمپوز کیں۔ صوفیانہ کلام میوزک میں ڈھالا۔ اور میرے اس کام کونہ صرف مُلکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی، تو رب کا بڑا شُکر ادا کیا۔
موسیقی میں میراکوئی استاد نہیں، لیکن مَیں تقریباً ہرسازبجا لیتا ہوں۔ کیوں کہ مجھے ہرنئی چیزسیکھنے کا اشتیاق رہتا ہے۔ تین سوسے زائد گانےگا چُکا ہوں۔ متعدّد پاکستانی ڈراموں کے مقبول ٹائٹل سانگز میری ہی کمپوزیشن اورآواز میں ہیں۔
س: آپ کا ایک گانا آرٹی فیشل انٹیلی جینس کا بھی شاخسانہ ہے، وہ کیا قصّہ ہے؟
ج: جیسا کہ مَیں نے بتایا، مجھےموسیقی میں نت نئے تجربات کاشوق ہے، تو اِسی سبب، مَیں نے اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ایک گانا تخلیق کیا۔ دراصل مَیں نے ایک مصنوعی گلوکارہ کی آواز میں، جسے مَیں نے نیہا گُپتاکانام دیا، ایک گانا تیار کیا۔ آواز اور گانے کے بول بہت خُوب صُورت ہیں، لیکن سب مصنوعی ہیں، جب کہ سُننے میں یہ بالکل حقیقی گلوکارہ کی آواز لگتی ہے۔
عموماً مصنوعی ذہانت کے استعمال سےلوگوں کی آواز کی نقل تیار کی جاتی ہے، لیکن مَیں نے پہلی مرتبہ مصنوعی آواز تخلیق کی اور چوں کہ موسیقی کی دنیا میں یہ پہلا تجربہ تھا، تو مَیں نےاِسے باقاعدہ اپنے نام سے رجسٹرکروایا ہے۔
س: آپ نے 1995-96ء سے دنیائے موسیقی میں قسمت آزمائی شروع کی، اپنا پہلا گانا ’’دیوانہ ہوگیا ہوں‘‘ خُود لکھا اور کمپوز کیا۔ تب سےآج تک کے سفر کو مختصراً کیسے بیان کریں گے؟
ج: موسیقی میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جب گنگنانا شروع کیا، تب سےاب تک کا یہ سفر تقریباً30 برس پرمحیط ہے۔ میرے کریڈٹ پر کتنے گانے ہیں، یاد بھی نہیں، غالباً 300 سے زیادہ۔ مَیں اس میدان میں بطور گلوکار، نغمہ نگار، میوزک، کمپوزر کام کررہا ہوں۔
مقبول گانوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے، جن میں زیادہ معروف ’’ہونا تھا پیار، رانجھنا، توکُجا مَن کُجا، تیرا تے میرا، ٹوٹی فروٹی، قلابازدل، مَن جا وے، رویا رے، ربّا، سائیاں وے، لڑکی اچاری، تُو ہی تُو، تین بہادر‘‘ اوردیگر کئی گیت شامل ہیں، جب کہ سرِفہرست عاطف اسلم کا ’’تاج دارِ حرم‘‘ ہے، جسے مَیں نے پروڈیوس بھی کیا اور کمپوز بھی۔
اِسی طرح بھارتی فلم نائیک کا گانا، شاہ کالاکا بےبی، رانجھناں فلم کے گانے رانجھناں اور ینگستان کے، میرے خدا کو بھی بہت پذیرائی ملی۔ جن پاکستانی فلموں کی موسیقی ترتیب دی، اُن میں تین بہادر، بِن روئے، کراچی سے لاہور، چھلاوا، جوانی پھرنہیں آنی، پنجاب نہیں جائوں گی وغیرہ کےگانے بےحد مقبول ہوئےاور بطور کمپوزر، جن گلوکاروں کےساتھ کام کیا، اُن میں عاطف اسلم، فریحہ پرویز، شفقت امانت علی اور دیگر شامل ہیں۔
کوک اسٹوڈیو کی ایک اور بہت مقبول پیش کش ’’تُو کُجا مَن کُجا‘‘ بھی کریڈٹ پرہے، جسے سوشل میڈیا پر122ملین بار دیکھا اورسُنا گیا۔ عاطف اسلم کے مشہور گانے ’’پہلی دفعہ‘‘ کی کمپوزنگ بھی میری ہے۔ اسی طرح ڈراماسیریل ’’یہ دل میرا‘‘ کا ٹائٹل سانگ، سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ رہا۔ بالی ووڈ کی ایک اور فلم دھوکا(2007ء) کا گانے ’’رویا رے‘‘ کی موسیقی بھی میرے حصّے میں آئی۔ 2010ء میں ایک بھارتی فلم کے گانے ’’ربّا‘‘۔ کی کمپوزنگ پر بیسٹ اَپ کمننگ میوزک ڈائریکٹر کا مرچی میوزک ایوارڈ ملا۔
غرض، اللہ کے کرم سے کام یابیوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ مَیں آج بھی اے۔ آر۔ رحمان کے ساتھ کام کررہا ہوں، وہ مجھے کسی گانے کا ٹریک بھیج دیتے ہیں اور مَیں آن لائن ریکارڈ کر کے اُنھیں بھیج دیتا ہوں۔ مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ اُنہیں بھی میرا کام پسند آتا ہے۔
س: آپ کا ایک بیٹا ہے اور وہ بھی گلوکار ہے۔ کیا اُسے یہ شوق وَرثےمیں ملا۔ یہ فیلڈ اُس کا اپنا انتخاب ہے یا آپ کی خواہش؟
ج: جی، میرا ایک ہی بیٹا ہادی اپل ہے۔ وہ 2000ء میں پیدا ہوا، جب ہم امریکا میں تھے۔ اور اُسے بھی میری طرح بچپن ہی سے موسیقی کا شوق تھا۔ اب ماحول کا اثر سمجھ لیں یا جینز کا۔ بہرحال، وہ اِسی فیلڈ میں نام پیدا کر رہا ہے۔ اُس کے سات آٹھ گانے ریکارڈ ہوچُکے ہیں۔ مَیں تو چاہتا ہوں، وہ پروڈکشن کی طرف آئے، لیکن اُسے گانے کا شوق ہے۔
س: گھر والوں کو کتنا ٹائم دیتے ہیں، آپ کی صبح کب ہوتی ہے؟
ج: میرا اسٹوڈیو گھر کے بیسمنٹ میں ہے، تو سارا دن ہی فیملی کے ساتھ گزرتا ہے۔ گھر میں بیگم، بہو اور والدہ رہتی ہیں۔ بیٹےکی کچھ عرصہ قبل شادی ہوئی، تو ہمارا بیش تر وقت اکٹھے ہی گزرتاہے۔ جہاں تک صُبح ہونےکا تعلق ہے، مَیں پچھلے 15سال سے ایک عجب روٹین پر چل رہا تھا۔ صبح سات آٹھ بجے سوتا اور رات 8 بجے جاگتا۔
میوزک کا تمام کام رات کی تنہائی، سُکون اور خاموشی میں انجام دیتا، لیکن پھر اللہ کے فضل سےیہ روٹین تبدیل کرلی۔ اب پچھلے کئی ماہ سے رات کو وقت پر سو جاتا ہوں اور دن کو کام کرتا ہوں۔ فیملی کے ساتھ وقت بھی گزرتا ہے۔ ویسے میرے روحانی اور فنی استاد اے۔ آر۔ رحمان تو رات بھر بھی کام کرتے ہیں اور دن بھر بھی۔ اُن کی نیند بمشکل دو تین گھنٹے ہے اور وہ عموماً اپنے اسٹوڈیو ہی میں سوجاتے ہیں۔
س: کوئی ایسا واقعہ، جسے آج تک بُھلا نہ سکے ہوں؟
ج: جیسا کہ بتا چُکا ہوں، والد صاحب بطور پائلٹ آرمی سے وابستہ تھے۔ وہ وزیرِاعلیٰ کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ تھے اور 26سال پہلے لاہور میں بھٹہ چوک کے قریب ایک ہیلی کاپٹرحادثے میں شہید ہوگئے تھے، تووہ حادثہ کبھی نہیں بھولتا۔
اب بھی والد صاحب گاہے گاہے خواب میں آتےہیں اور مجھے بالکل ایسالگتا ہے، جیسے وہ واقعی جسمانی و روحانی طور پر میرے ساتھ موجود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ مجھ سے بچھڑ کر بھی جدا نہیں ہوئے۔
س: مستقبل کے کیا عزائم ہیں؟
ج: مَیں صرف ’’حال‘‘ پر توجّہ دیتا ہوں۔ مستقبل سے متعلق کبھی نہیں سوچا کہ انسان کو خبر ہی نہیں کہ اُس کی اگلی سانس ہے بھی یا نہیں۔ اِسی طرح مَیں ماضی کوبھی اپنے ساتھ چمٹائے نہیں رکھتا۔ میری نظر میں ’’آج‘‘ ہی سب کچھ ہے۔
س: ہرسال جون کے تیسرے اتوار کو دنیا بھر میں ’’انٹرنیشنل فادرز ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، اِس حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
ج: ہمارا تو ہردن، فادرز ڈے ہے۔ بھلا والدین سے تعلق کو چند ایّام سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ تو وہ الوہی رشتہ، بندھن ہے، جسے دِنوں میں تو نہیں، البتہ دِلوں میں ضرور قید کیا جا سکتا ہے۔
س: آپ دونوں باپ، بیٹے میں کتنی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ کیسا لگتا ہے کہ جسے آپ نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، وہ آج آپ کے قد برابر آگیا ہے، قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے؟
ج: کسی باپ کے لیے اِس سے زیادہ خوشی اور اطمینان کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ہم دونوں باپ، بیٹا بہت بھرپور وقت ایک ساتھ انجوائے کر رہے ہیں۔ میری شادی 23 سال کی عُمر میں ہوئی۔ 24سال کی عُمر میں، مَیں باپ بن گیا اور اب ہم دونوں گویا ایک ساتھ اپنا شباب جی رہے ہیں۔
یوں سمجھیں، ہمارا تعلق باپ، بیٹے کا تو ہے ہی نہیں، ہم ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ میرے والد آرمی میں تھے، گھر کے ماحول میں بہت سخت گیری، ڈسپلن تھا، جیسے روایتی طور پر فوجی گھرانوں میں ہوتا ہے، لیکن مَیں نے اپنے بیٹے کو اپنا دوست بنالیا۔
ہم بالکل دوستوں کی طرح فِری ہوکرگپ شپ کرتے ہیں۔ مطلب میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان جو روایتی فاصلے تھے، وہ مَیں نے اپنے اور ہادی کے بیچ پیدا نہیں ہونے دئیے۔ رعب اور سختی کی بجائے، دوستی اور نرمی کو فوقیت دی۔ ہادی نے ابھی حال ہی میں گریجویشن کی ہے اور ہم باپ، بیٹا اپنی ہر بات ایک دوسرے سے بآسانی شیئر کرلیتے ہیں۔
س: آپ دونوں کا ایک پروفیشن، دوستی، ذہنی ہم آہنگی گھر کے ماحول کے لیے کس قدر سُود مند ثابت ہوتی ہے؟
ج: الحمدللہ، ہمارے گھر کا ماحول بہت زیادہ خوش گوار ہے۔ مَیں اگر بیسمنٹ میں ہوں تو بالائی منزل سے ہادی کے گنگنانے، گھر والوں کے قہقہوں ہی کی آوازیں آتی ہیں۔ اورجہاں تک ایک پروفیشن کی بات ہے، تو اِس سے اچھی بات بھی کیا ہوسکتی ہے کہ باپ، بیٹا ایک ہی ڈگر پرچل رہے ہیں۔
س: اب تو ماشاءاللہ آپ سُسر بھی بن چُکے ہیں، گھر کی سربراہی بیگم کے ہاتھ میں ہے یا آپ کے؟ اور خیر سے ساس، سُسر، خصوصاً ساس کےبہوسےتعلقات روایتی ہیں یا غیرروایتی؟
ج: میرے نزدیک گھر کی سربراہی مرد ہی کے پاس ہونی چاہیے، البتہ بعض گھریلو ذمّے داریاں ایسی ہوتی ہیں، جنہیں صرف خواتین ہی نبھاسکتی ہیں۔ ویسے ہمارے گھر کا ماحول انتہائی خوش گوارہے۔ سب مِل جُل کرکام کرتے ہیں اور اپنی بہو (تحریم) کو تو مَیں بہو نہیں، بیٹی کہہ کر بُلاتا ہوں۔
چوں کہ ہماری بیٹی نہیں ہے، تو ہم دونوں میاں بیوی نے تو بہو ہی کو دل و جان سے بیٹی مانا ہے۔ ہم گھر میں ہرموضوع پر ڈسکشن کر لیتے ہیں اور اگر کبھی کسی بات پر چھوٹا موٹا اختلاف ہوبھی جائے، تو بیگم (عائشہ) فوراً کہہ دیتی ہے۔ ’’رہنے دیجیے، ہمارا ایک ہی تو بیٹا، بہو ہیں‘‘۔
س: بیٹا اکلوتا ہونے کا ایڈوانٹیج تو نہیں لیتا؟
ج: بالکل لیتا ہے۔ وہ ماں کا بہت لاڈلا ہے اور مَیں نے دیکھا ہے، مائیں بہت جلدی بچّوں کی باتوں میں آجاتی ہیں۔
س: گھر ہی میں اسٹوڈیو ہے، تو کیا بیگم بھی آپ کے کام میں کچھ ہاتھ بٹاتی ہیں؟
ج: ہمارا زیادہ وقت ایک ساتھ ہی گزرتا ہے۔ میری بیگم کو موسیقی سے شغف تو ہے ہی، مگر اُس کا میوزک سینس بھی بہت اچھا ہے۔ اگر کبھی اُسے میری کمپوز کی ہوئی کوئی دُھن اچھی نہ لگے تو برملا اظہار کردیتی ہے اور مجھے اُس کی مثبت تنقید کا ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے۔
س: عیدالاضحیٰ کیسےمناتےہیں، کیا جانورخُود خرید کے لاتے ہیں؟
ج: پہلے مَیں خُود جانور خریدنے جایا کرتا تھا۔ اب مصروفیات بڑھ گئی ہیں اور مَیں نے یہ کام اپنےچچا جان کےسپرد کردیا ہے۔ قربانی ہم گھر ہی پر کرتے ہیں اور برسوں سے ایک ہی قصاب آتا ہے۔ دراصل ہمارے کُل 10-8 جانور ہوجاتے ہیں، کیوں کہ بہنوں کی قربانی بھی ہمارے یہاں ہی ہوتی ہے۔
س: عید پر کون کون سے خصوصی پکوان تیار ہوتے ہیں؟
ج: قربانی کے بعد کلیجی کا تیار ہونا تو ہر گھر کی روایت بن چُکی ہے اور اُس کا سب کو انتظار بھی رہتا ہے، پھرخاص طور پر مختلف طرح کے کباب، کڑاہی، قورما، بریانی وغیرہ تیار کیےجاتے ہیں اور میری بیگم، بہو اور امّی مل جل کر یہ سب پکوان تیار کرتی ہیں۔ ویسے یخنی پلاؤ میری سب سے پسندیدہ ڈش ہے۔
س: بچپن کی عیدالاضحیٰ کی کوئی یاد آج بھی تازہ ہے؟
ج: مجھے اچھی یاد ہے۔ ہماری لاہور، گلبرگ میں18کنال پر محیط آبائی، خاندانی کوٹھی تھی، جس میں ہمارے پَردادا، دادا، نانا، والد، سب ساتھ رہتے تھے۔ میرا پورا بچپن وہیں گزرا۔ وہاں کی باربی کیو دعوتیں آج بھی اچھی طرح یاد ہیں، جب پورا خاندان اکٹھا ہوتا تھا، تو ایک میلےکا سا سماں ہوتا۔ کیا ہی اچھے دن تھےوہ، ہماراجوائنٹ فیملی سسٹم تھا اوراب توبس صرف سہانی یادیں ہی رہ گئی ہیں۔
س: کوئی دُعا، جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہو؟
ج: اپنی فیملی اور ہر ملنے جُلنے والے کے لیے خیر وبرکت کی دُعا کرتا رہتا ہوں۔ اور یہ کہ اللہ ہرایک کو آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔