• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب اعتزاز احسن ملک کے نامور قانون دان اور سکہ بند دانشور ہیں۔ انکی قانونی لیاقت سے کسی کو انکار ہے نہ ہی انکے صاحب علم ہونے پر کوئی شک ہے۔ وہ جدید اور قدیم تاریخ و تہذیب پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے تحریک انصاف کے بانی جناب عمران خان کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ایک مرتبہ آصف علی زرداری سے مل لیں وہ ان کیلئے کئی راستے نکال سکتے ہیں۔ یہ مشورہ انہوں نے 2022ء میں بھی عمران خان کو دیا تھا جس کا تذکرہ بانی تحریک انصاف نے ایک تقریب میں کیا تھا۔ معلوم پڑتا ہے جناب اعتزاز احسن کے ذہن میں اس حوالے سے کوئی ایسی گرہ موجود ہے جو انہیں انگیخت دلاتی ہے کہ وہ اپنے دوست اور ہمسائے کو مزاحمت کے راستے سے ہٹا کر مفاہمت کے راستے پر لانے کی کوشش کریں۔ مفاہمت’’فی نفسہ‘ ‘کوئی بری چیز نہیں۔ اس راہ کے مسافر آسانی سے اپنے اہداف حاصل کر لیتے ہیں، مشکلات ختم ہوجاتی ہیں، اقتدار کے دروازے کھل جاتے ہیں لیکن تاریخ کے صفحات پر اول تو انکا ذکر رہتا ہی نہیں اور اگر انکا تذکرہ ہو بھی تو محض کسی حوالے یا یادداشت کیلئے۔ وہ ایک گمشدہ داستان اور فراموش کردہ کردار سے زیادہ توجہ حاصل نہیں کر سکتے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جہاں پر جبر کا نظام قائم ہوتا ہے وہاں مزاحمتی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ یہ مزاحمتی آوازیں نہ صرف ملک میں امید کی لو جگائے رکھتی ہیں بلکہ اس لو کی روشنی خطے کے دیگر ممالک میں بھی نوجوانوں کے اندر جذبہ پیدا کرتی ہے۔ چے گویرا ہوں یا فیڈل کاسترو، بھگت سنگھ ہو یا راے احمد خان کھرل یہ سب مزاحمت اور جدوجہد کے استعارے ہیں، آج تاریخ میں انکے نام تو جگمگا رہے ہیں لیکن ان پر جبر کرنے والوں کو کوئی جانتا تک نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، امریکی صدر روزویلٹ، ٹرومین، روس کے اسٹالن، برطانیہ کے چرچل، فرانس کے ڈیگال،چین میں ماؤزے تنگ اور چو این لائی،برصغیر میں قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی،ملائشیا میں تنکو عبد الرحمن،انڈونیشا کے سویکارنو،مصر کے جمال عبد الناصر،چیکوسلواکیہ کے مارشل ٹیٹو،،شمالی کوریا کے کم ال سنگ،اور ویتنام کےہو چی من ایسے عالمی لیڈر تھے جنہوں نے اپنے ملک وقوم کی خاطر ایک سٹینڈ لیا۔اسوقت کی عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ مزاحمت کی،حالات سے مصالحت کے بجائے ان کا مقابلہ کیا آج نہ صرف وہ اقوام سر اٹھا کر جیتی ہیں بلکہ اپنے ہیروز کا نام آتے ہی لوگ احترام سے اپنا سر جھکا لیتے ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی ہندوستان اور پاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل بننے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اپنے موقف سے سرمو انحراف نہ کیا۔جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا نے استعمار کے ساتھ مفاہمت اور مصالحت کے بجاے جدوجہد کا مشکل راستہ اختیار اور استعمار کو مجبور کیا کہ وہ انکی قوم کو انکے جائز حقوق دے۔انہیں بھی مفاہمت کی پیشکش کی گئی لیکن اس مرد آہن نے مفاہمت کے بجائے پرامن مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ایرانی راہنما آیت اللہ خمینی کی جدو جہد،عزم و استقلال اور جرات و عزیمت سے عبارت ہے۔انہیں مفاہمت کی پیشکش کی گئی،لالچ بھی دیے گئے،قید و بند میں ڈالا گیا یہاں تک کہ انہیں جلاوطنی اختیارکرنا پڑی لیکن انہوں نے اپنے موقف پر سمجھوتہ نہ کیا یہاں تک کہ شاہ ایران کو بھاگنا پڑا۔قوم نے ہر اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھایا جو ان کی خاطر کھڑا ہوا۔میاں محمد نواز شریف کی مثال تو ابھی کل کی بات ہے جنہوں نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے پر احتجاج کرتے ہوئے ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کا نعرہ لگایا تو قوم نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا،پھولوں اور ووٹوں سے تول دیا لیکن جب وہ اس موقف سے پیچھے ہٹے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا تو وہ فارم 47 کی بیساکھیوں پر ایک لولی لنگڑی حکومت تو قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن عوام کے دلوں سے اتر گئے۔عمران خان کے ساتھ اس وقت ملک بھر کے کروڑوں لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں۔عمران خان نے قوم کو اپنے حق کیلئے بولنا سکھایا ہے لوگ انہیں ہی امیدوں کا مرکز سمجھتے ہیں،قوم یقین رکھتی ہے کہ وہ ان کے بہتے ہوئے آنسو پونچھے گا،اور ان کے زخم پر مرہم رکھے گا۔عمران خان نے بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران بہت کم اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کیا۔جو موقف انہیں درست لگا اس پر وہ ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور آج وہ پوری قوم کی آنکھوں کا تارا ہیں۔وہ جیل میں بیٹھ کر دلوں پر حکومت کر رہے ہیںاور اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ عمران خان،کرپشن اور چوری کے استعاروں کے ساتھ صلح اور مفاہمت کا راستہ اختیار کر لیں۔جناب آصف علی زرداری ایک چست چالاک اور شاطر سیاستدان تو ہو سکتے ہیں جوڑ توڑ کے ماہر بھی کہلائے جا سکتے ہیں لیکن لیڈر ہونے کا اعزاز انہیں حاصل نہیں۔ان کی شاطرانہ چالوں سے پیپلز پارٹی برسر اقتدار تو آگئی ہے لیکن قوم بلاول کی صورت میں ایک ابھرتے ہوئے لیڈر سے محروم ہو گئی ۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان واحد لیڈر ہیں جو ایک موقف پر قائم ہیں۔ان کا موقف مستقبل میں کیا رنگ اختیار کرتا ہے،عوامی محرومیاں ختم ہوتی ہیں یا نہیں،نوجوانوں کی آنکھوں میں جلتے ہوئے امید کے چراغ کب تک جلتے رہتے ہیں،یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن اگر عمران خان نے ایسے کرداروں کے ساتھ صلح کر لی تو یہ ملک کیلئے بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی۔عدیم ہاشمی کا یہ شعر عمران خان کے عزم عزم کو غذا بخشے گا

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے

میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے

تازہ ترین