(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ کالم میں،میں نے’’سندھ پیار کی دھرتی‘‘ کے حوالے سے سندھ میں پیار کے ایک ممتاز رشتے،نوری جام تماچی کے بارے میں ذکر کیا تھا کہ جام تماچی اس علاقے کا بادشاہ تھا جبکہ نوری کا کینجھر جھیل کے ماہی گیروں کے خاندان سے تعلق تھا‘ جام تماچی اور نوری کے درمیان پیار کا رشتہ جڑگیا‘ ان کے اس رشتے پر بھی سندھ کے کچھ شاعروں نے شاعری کی ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کے ممتاز ترین شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے کئی شعر کہے ہیں‘ ان میں سے ایک شعر کی چند سطریں میں یہاں سندھی میں پیش کررہا ہوں جو اس طرح ہیں: ’’نہ تڑ تے تماچی‘ نہ نوری نظارا‘ کینجھر کنارا اسارا اسارا‘۔ اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے:’’ اب نہ کینجھر کے کناروں پر جام تماچی نظر آرہا ہے اور نہ نوری نظر آرہی ہے لہٰذا کینجھر کے کنارے اب ویران ہوگئے ہیں۔‘‘ سسی پُنوں کے قصے بھی لوگوں نے سنے ہوں گے‘ پُنوں بلوچستان کے بلوچ تھے اور سسی ضلع ٹھٹھہ کے بھنبھور گائوں کے ہاری خاندان کی فرد تھی‘ پُنوں کچھ عرصے کیلئے بھنبھور میں آکر بسے جہاں پُنوں کا سسی سے تعلق ہوا اور دونوں میں پیار کا رشتہ جڑ گیا‘ جب یہ اطلاع بلوچستان میں پُنوںکے خاندان کو ملی تو وہ غصے میں آگئےپُنوں کے بھائی بھنبھور پہنچے اور پُنوں کو اونٹ پر لاد کر بلوچستان کے اپنے علاقے میں لےگئے‘ جب یہ اطلاع سسی کو ملی تو وہ ننگے پائوں وہاں سے پیدل بلوچستان روانہ ہوگئی‘ سسی نے پیدل سفر جاری رکھا یہاں تک کہ وہ راستے میں ہی انتقال کرگئی۔ اس پیار کے بارے میں بھی شاہ عبدالطیف بھٹائی کا ایک مشہور شعر ہے‘ میں اس شعر کی بھی دو سطریں سندھی میں یہاں پیش کررہا ہوں جو اس طرح ہیں : ’’پیریں پوندی سانئہ‘ کین چوندی سانئہ‘ تہ رھی ونج رات بھنبھور میں‘‘ اس کا اردو ترجمہ اس طرح ہے: ’’ میں پائوں پڑتی ہوں کوئی شکایت نہیں کروں گی‘ بس ایک رات بھنبھور میں رک جائو‘‘۔ یہ شعر بھی عوام میں بہت مقبول ہوا‘ اس حد تک جب ایک بار اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تھا اور شیخ مجیب الرحمان ابھی پاکستان میں قید تھا‘ جلسہ عام میں بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان کو رہا کرنے کا اعلان کیا تاکہ وہ بنگلہ دیش جاسکے‘ یہ اعلان کرتے وقت بھٹو نے جلسہ عام میں شیخ مجیب الرحمان کو مخاطب ہوکر یہ شعر پڑھا کہ ایک رات ان کے مہمان ہوکر ان کے پاس ٹھہر جائیں۔ بہرحال بھٹو کے اس اعلان کے دوسرے دن شیخ مجیب الرحمان رہا ہوکر بنگلہ دیش روانہ ہوگئے۔ میں نےگزشتہ کالموں میں اسلام کے حوالے سے سندھ کے کردار کا ذکر کیا تھا۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ قرآن پاک کا سب سے پہلے جس غیر عربی زبان میں ترجمہ ہوا ہے وہ سندھی زبان ہے‘ یہ ترجمہ میرے گائوں مٹیاری کے ایک بڑے عالم نے کیا تھا۔ ہندوستان بھر میں اسلام کے حوالے سے جو تحریکیں چلیں ان میں سندھ کا بڑا کردار ہوتا تھا‘ ایک بار ایسی جو تحریک چلی جس سے ہندوستان کے دیگر علاقوں کے مسلمان ذرا دور دور رہے مگر اس کا بھی سندھ میں بہت زور تھا‘ اسی وجہ سے ایک بار ہندوستان کی ایک ممتاز خاتون مسلمان رہنما اپنے ساتھیوں کو لیکر آئیں اور یہاں شہر تو شہر گائوں گائوں میں جاکر نکالے گئے جلوسوں کی قیادت کی‘ اس تحریک میں جن مسلمان علماء نے اہم کردار ادا کیا ان کو انگریز سرکار کے حکم پر گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمہ چلائے گئے‘ ان میں میرے گائوں مٹیاری کے ایک عالم پیر سرہندی بھی شامل تھے‘ ان کوجعلی مقدمے چلاکر پھانسی کی سزا سنائی گئی‘ علماء کو ایسی سزائیں دلواکر جیلوں میں تو ڈالا گیا مگر انگریز سرکاری چاہتی تھی کہ ان لوگوں کو پھانسی نہ دی جائے‘ ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ معافی مانگ لیں تو ان کو رہا کر دیا جائے‘ یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے ان کو جیلوں میں دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں‘ ان میں سے پیر سرہندی کو ایک دو بار ہوائی جہاز میں بٹھاکر اوپر لے جایا جاتا اور پھر ان کو دھمکی دی جاتی کہ اپنے ’’جرم‘‘ کی معافی مانگ لو ورنہ جہاز سے گرادیا جائے گا مگر پیر سرہندی نہیں گھبرائے اور ہر بار کھڑے ہوکر کہتے تھے کہ جہاز کا دروازہ کھولو میں خود نیچے کود جائوں گا مگر یہ فقط دھمکی ہوتی تھی۔ آخر کار انگریز سرکار بشمول پیر سرہندی دیگر ایسے علماء کو رہا کرنے پر مجبور ہو گئی۔