• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سولر انرجی: سورج کی دھوپ میں شکوک و شبہات کے بادل

پنجاب کے ضلع بھکر کی ایک دُور افتادہ تحصیل، منکیرہ میں واقع، ایک نیم پختہ مکان کا منظر ذہن میں لائیے، جس کے ایک چھوٹے سے برآمدے میں رکھا درمیانے سائز کا ایک ایئر کولر مکان کو ٹھنڈا کر رہا ہے۔ اِس ریگستانی علاقے میں دُور دُور تک درختوں یا کسی دوسرے سبزے کا نام و نشان نہیں اور تحصیل کے ایک ریگ زار میں، جب درجۂ حرارت 48, 47 ڈگری تک پہنچتا ہے، تو تپتے ریت کے ٹیلوں کو چُھو کر آنے والی گرم ہوائیں فضا کو گویا تندور بنا دیتی ہیں۔ 

لگتا ہے، سورج واقعی سوا نیزے پر آگیا ہے۔ لیکن ایسے گرم ماحول میں، جہاں بجلی، گیس کا نام و نشان نہیں اور پنکھوں یا بلب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہاں صحرا کے قلب میں واقع اِس مکان میں اِتنی ٹھنڈک ضرور ہے کہ یہاں کے مکین ہاتھ کے پنکھوں کی محتاجی کے بغیر چارپائی پر لیٹے، کولر کی ٹھنڈی ہوا کے خُوش گوار جھونکوں سے لُطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ 

بجلی، گیس اور کسی بھی قسم کی توانائی سے محروم اِس چھوٹے سے گھر کے مکین، جن میں بچّے اور عورتیں بھی شامل ہیں، اگر قیامت خیز گرمی سے محفوظ ہیں، تو یہ سب سورج سے پیدا ہونے والی شمسی توانائی کا کمال ہے، جو سولر پینل سے چلنے والے ایک ایئرکولر کے ذریعے مکینوں کو گرمی کی حدّت سے محفوظ رکھتی ہے۔ شمسی توانائی سے چلنے والے اِس کولر کا مشورہ اسے ایک دوست نے دیا تھا، جس کی بازار میں الیکٹریشن کے کام کی دُکان ہے۔

شمسی توانائی کا کرشمہ

شمسی توانائی کی یہ کارفرمائیاں صرف لق و دق صحرا کے اِسی مکان تک محدود نہیں، بلکہ اس کا دائرۂ کار پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر کسی بڑے شہر میں ایک کنال کے گھر کا مکین 10کلو واٹ سولر پاور سے تین، چار اے سی، پنکھے، فریج، لائٹس، ٹی وی، اوون اور دیگر الیکٹرانک مصنوعات چلا رہا ہے، تو کسی چھوٹے شہر میں5 یا3 مرلے کے مالکِ مکان نے بھی اپنی استطاعت کے مطابق پنکھوں، لائٹس اور ایئرکولر کو شمسی توانائی پر منتقل کر رکھا ہے۔ 

کروڑ پتی تاجر ہو یا کسی دفتر میں کام کرنے والا کلرک، ہر شخص ہی بجلی کے بھاری بَھر کم بلز سے جان چُھڑانے کے لیے سولر انرجی پر منتقل ہونے کا سوچ رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ پانچ، چھے برسوں میں شمسی توانائی پر منتقل ہونے والوں کی تعداد میں تین گُنا اضافہ ہوا ہے اور یہ رجحان روز بروز تقویّت پکڑ رہا ہے۔

صرف دو سال میں سولر انرجی کے صارفین کی تعداد 50ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ سے زاید ہوگئی ہے۔ پاکستان میں اِس وقت سرکاری اور غیر سرکاری سیکٹر میں مجموعی طور پر دو ہزار میگاواٹ سے زائد شمسی توانائی سے استفادہ کیا جا رہا ہے اور اندازہ ہے کہ 2030ء میں یہ 10 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔

توانائی کا نہ ختم ہونے والا خزانہ

زمین سے تقریباً9 کروڑ میل دُور موجود سورج، توانائی کا ایک ایسا خزانہ ہے، جو اعداد و شمار کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ اگر کوئی الیکٹرک پاور پلانٹ ایک ارب واٹ بجلی پیدا کرتا ہے، تو سورج سے جتنی توانائی حاصل ہوسکتی ہے، وہ یوں سمجھیے کہ آپ ایسے 5 کروڑ پاور پلانٹس لگائیں، تب بھی سورج سے پیدا ہونے والی توانائی اُس سے کہیں زیادہ ہے۔ سورج کی اس توانائی سے فائدہ اُٹھانا کوئی نئی بات نہیں۔ 

بعض مؤرخین اِس کی ابتدا کو ساتویں صدی قبلِ مسیح سے جوڑتے ہیں، جب عدسے کے ذریعے سورج کی شعاؤں کو ایک جگہ مرتکز کر کے لکڑیوں کو آگ لگائی جاتی تھی۔ قدیم رومن اور یونانی اپنے مذہبی تہواروں میں سورج کی توانائی سے شمعیں روشن کیا کرتے تھے۔ سورج کی روشنی سے فائدہ اُٹھانے کا یہ سلسلہ بدلتے زمانوں کے ساتھ ساتھ جاری رہا، یہاں تک کہ جدید ذرائع اور آلات وجود میں آگئے۔ 

آخر کار، ایک وقت ایسا بھی آیا، جب سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والی سولر ڈیوائس 1883ء میں عملاً پہلی مرتبہ نیویارک میں ایک بلڈنگ کی چھت پر لگائی گئی۔تاہم، اِس سے قبل فرانس میں سولر انرجی پر کام شروع ہو چکا تھا، جہاںEdmond Becquerel نامی ایک نوجوان ماہرِ طبیعات، سورج کی روشنی کو پہلی بار بجلی کے کرنٹ میں تبدیل کر کے’’ سولر انرجی کا باوائے آدم‘‘ کہلایا۔

گزشتہ 8,7 دہائیوں میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے حیرت انگیز کمالات دیکھنے میں آئے، جب خلائی اسٹیشن اور ہوائی جہازوں سے لے کر ہمارے کچن تک میں الیکٹرانک آلات کی ہر حرکت کے پسِ پردہ یہ توانائی کارفرما نظر آنے لگی۔ چین میں ابھی چند روز قبل دنیا کے سب سے بڑے سولر پلانٹ کا افتتاح ہوا ہے، جو نیویارک جتنے بڑے شہر کو شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی فراہم کر سکتا ہے۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے…؟؟

پاکستان بھی سولر انرجی کی ان نعمتوں سے محروم نہ رہ سکا اور اس ضمن میں خاموشی سے کام ہوتا رہا۔ ماہرین کے مطابق، پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا مُلک ہے، جس نے سولر انرجی کو صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ 1959ء میں پنجاب کے شہر، مظفّر گڑھ کے نزدیک پاکستان کا پہلا کمرشل سولر پلانٹ نصب کیا گیا۔ چند میگاواٹ استعداد کا حامل یہ پلانٹ، دو ٹربائنز کو اسٹیم فراہم کرتا تھا۔ 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں جرمنی کے تعاون سے کئی دوسرے انڈسٹریل یونٹس نصب کیے گئے۔

یہ سب کام کسی تشہیر کے بغیر ہوتے رہے اور عام لوگ سولر انرجی کے فوائد سے بے خبر صرف دھوپ ہی سینکتے رہے۔ 2013ء میں عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کام بجلی سے منہگے داموں ہوتا ہے، وہی کام سورج سے پیدا ہونے والی توانائی سے نسبتاً سستے داموں ہوسکتا ہے۔یوں گھروں میں سولر پینلز لگانے کا رواج چل پڑا۔ چناں چہ 2013ء میں شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی530کلو واٹ بجلی، مُلکی بجلی کی مجموعی پیداوار کا حصّہ بن گئی۔ 

اِس وقت سولر پاور کے سات سرکاری پراجیکٹس چاروں صوبوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ دَور تھا جب جاپان، جرمنی اور چین کی کمپنیز اور پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر نے بھی شمسی توانائی کے شعبے میں قدم رکھا۔ حکومت بھی اِس میدان میں زیادہ سرگرم نظر آنے لگی۔ 

چنانچہ 2 جولائی 2009ء کو اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے توانائی، راجا پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ 2014ء تک 7 ہزار دیہات کو شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کی جائے گی، لیکن یہ دعویٰ محض اعلان ہی رہا، جو عام طور پر حکومتیں عوام کو سنہرے خواب دِکھانے کے لیے کیا ہی کرتی ہیں۔

البتہ، اِس سلسلے میں قابلِ ذکر پیش رفت مئی 2015ء میں دیکھنے میں آئی، جب وزیرِ اعظم، میاں نوازشریف نے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاول پور میں واقع 500 ایکڑ پر محیط قائدِ اعظم سولر پارک کے پہلے یونٹ کا افتتاح کیا۔ اِس منصوبے کو نہ صرف پاکستان میں شمسی توانائی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا گیا، بلکہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا فوٹو والٹیک آزمائشی منصوبہ ہے۔ 

گیارہ ارب روپے لاگت کے اِس پراجیکٹ نے4 لاکھ شمسی پینلز کے ذریعے ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنا تھی، لیکن بعدازاں یہ منصوبہ عدم توجّہی کا شکار ہوگیا، خاص طور پر اُس وقت جب محکمہ اینٹی کرپشن نے اِس منصوبے میں بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کا انکشاف کیا اور کہا گیا کہ ’’مَن پسند ٹھیکے داروں کو ٹھیکا دیا گیا، جنہوں نے ناقص میٹریل استعمال کیا، جس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔‘‘ 

اِس طرح اربوں روپے کی لاگت کا یہ منصوبہ ہماری روایتی بدعنوانیوں اور ناقص منصوبہ بندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔تاہم، سرکاری منصوبوں کی روایتی ناکامیوں سے قطع نظر، اِس دَوران بجلی کے بھاری بھر کم بِلز سے تنگ صارفین اپنا رُخ شمسی توانائی کی طرف موڑ چُکے تھے۔ ابتدا میں حکومت نے بھی دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح قابلِ تجدید توانائی کے وسائل (سورج اور ہوا) کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیا۔ 

مئی 2022ء کو وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے سولر پینلز پر عاید17 فی صد سیلز ٹیکس ختم کردیا۔ اِسی دَوران عالمی بینک کی یہ حوصلہ افزا رپورٹ بھی منظرِ عام پر آئی کہ پاکستان میں 44 گیگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے، جس میں پاکستان کی جغرافیائی لوکیشن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جہاں سورج سال کے اوسطاً 315 دن چمکتا ہے۔اِس وقت پاکستان کا شمسی توانائی پیدا کرنے والے ممالک میں44 واں نمبر ہے، جب کہ جغرافیائی لوکیشن کے اعتبار سے اسے پہلے 10 ممالک میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ 

یکم اگست 2022ء کو حکومت نے نئی سولر انرجی پالیسی کا اعلان کیا، جس کا بنیادی مقصد بجلی کی کُل پیداوار میں شمسی توانائی کا حصّہ بڑھانا تھا، جو کہ اِس وقت صرف ایک فی صد کے قریب ہے، جب کہ فرنس آئل کا حصّہ 14 فی صد، قدرتی گیس 32 فی صد، کوئلہ 12 فی صد، ایٹمی توانائی 7 فی صد اور ہوا کا 2 فی صد ہے۔ 

اِس اعتبار سے سورج سے حاصل کردہ توانائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سورج کی بے پاپاں عنایات کے حوالے سے یہ شرح ہمارے ماہرین اور حکومت کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔اگرچہ مستقبل کے کاغذی منصوبے بہت سہانے اور دِل کَش ہیں، جیسے سورج اور ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی کا حصّہ بڑھا کر 2030ء تک بجلی کی پیداواری صلاحیت کا 60 فی صد کر دیا جائے گا۔

بجلی کے ہوش رُبا بِلز سے تنگ عوام

شمسی توانائی کے ضمن میں ایک اہم موڑ اُس وقت آیا، جب بجلی کے بھاری بھر کم بلز نے عوام کی زندگی اجیرن کردی اور وہ اس سے جان چُھڑوانے کے لیے متبادل ذرایع کی طرف دیکھنے لگے۔ ایسے میں یوٹیوب چینلز پر ویڈیوز کی بھرمار اور اشتہارات نے اُنھیں مزید اُبھارا، جن میں لکھا تھا۔’’سولر پینلز لگوائیں، بجلی کے بھاری بِلز سے جان چُھڑوائیں‘‘، ’’شمسی توانائی سے بجلی کے دُکھ درد دُور کریں‘‘ اور ’’سولر پینلز لگوائیں، چَین کی نیند کے مزے اُڑائیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ 

شمسی توانائی کی طرف راغب ہونے کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ گھروں میں کام کرنے والے ملازمین اور دہاڑی دار مزدور بھی، جو صرف ایک پنکھا اور ایک بلب استعمال کرتے ہیں،10,10 ہزار روپے کے بِلز پکڑے واپڈا دفاتر میں دہائی دیتے پِھر رہے تھے۔ چند ماہ قبل یہ مسئلہ اِتنی شدت اختیار کرگیا کہ لوگوں نے واپڈا کے دفاتر جلانے شروع کردئیے اور اب بھی حالت یہ ہے کہ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا، جب بجلی یونٹ کی قیمت میں پانچ، سات روپے کا اضافہ نہیں کردیا جاتا۔ 

اشتیاق احمد
اشتیاق احمد

اس ضمن میں لاہور کینٹ میں سولر انرجی پینلز لگانے والے ایک الیکٹریشن، اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ’’مَیں نے 10 سال قبل الیکٹریشن کا کام شروع کیا تھا، پھر ایک سولر کمپنی کے ساتھ مل کر پینلز لگانے کی تربیت حاصل کی۔ اب میرا اپنا کام ہے اور کئی ہیلپرز بھی رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ 10,8 برس میں جس طرح عام لوگوں اور صاحبِ ثروت افراد میں سولر پینلز لگانے کا رجحان بڑھا ہے، اِس پر مجھے حیرت ہوتی ہے۔ متوسّط آمدنی کے حامل لوگ گھروں میں اے- سی تو نہیں لگوا سکتے، البتہ کولر، پنکھے، لائٹس، پانی والی موٹر کو شمسی توانائی پر منتقل کروانا چاہتے ہیں۔ 

اِس عمل پر ڈھائی سے تین لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور انہیں نیٹ میٹرنگ، گراس میٹرنگ یا واپڈا دفاتر کے چکر بھی نہیں لگانے پڑتے۔ مَیں تو ایک معمولی ٹیکنیشن ہوں، پوش علاقوں میں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز دو، دو کنال کی کوٹھیوں پر چار چار اے سی، فریج، پنکھے، لائٹس، فانوس، ٹی۔ وی، انٹر نیٹ وغیرہ سولر پر منتقل کر رہے ہیں اور لگوانے والوں کی تعداد اِتنی زیادہ ہے کہ کئی کئی ہفتے بعد باری آتی ہے۔ آپ دس مرلے کے ایک گھر پر 10 کلوواٹ کا ایک سولر سسٹم لگا کر دو، تین اے۔ سی، فریج، ٹی۔ وی، پنکھے،لائٹس وغیرہ استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘ 

اشتیاق احمد نے مزید کہا کہ’’میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہر شخص امیر ہو یا غریب، اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بجلی کے بِلز سے جان چُھڑوانا چاہتا ہے۔ آپ پاکستان کی کسی الیکٹرانک مارکیٹ میں چلے جائیں، یوں لگے گا، جیسے مارکیٹ میں سولر پینل، انورٹرز، بیٹریز اور شمسی توانائی کے آلات کے علاوہ کوئی کاروبار ہی نہیں ہورہا۔

وہ وقت دُور نہیں، جب لوگ سڑکوں کے کنارے سولر پینلز بنانا شروع کردیں گے اور آپ کو ریڑھیوں پر بھی سولر پینلز بِکتے نظر آئیں گے۔ جُوں جُوں بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوگا، لوگوں کا رجحان اِس طرف مزید بڑھے گا۔‘‘

حکومت کو تشویش کیوں…؟؟

بجلی کے بِلز کے ستائے عوام جب اپنی جمع پونجی، موٹر سائیکلز، کاریں اور دیگر اشیاء بیچ کر یا کمیٹیاں ڈال کر سولر انرجی کی طرف آئے، تو اِس توانائی کے حق میں مسلسل بیان دینے والی حکومت کے کان کھڑے ہو گئے اور حکومت کو یہ فکر دامن گیر ہو گئی کہ اگر لوگوں نے اپنی بجلی خود بنانا شروع کر دی اور ان کے بِل صفر آنا شروع ہو گئے، تو حکومت کا کیا بنے گا۔آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کے تحت اُنہیں بجلی نہ لینے کے باوجود Capacity Charges کی مد میں جو رقم ادا کرنی پڑتی ہے، وہ کہاں سے پوری ہو گی اور گردشی قرضہ کیسے کم ہوگا۔

عوام کے سولر انرجی پر منتقل ہونے سے نقصان کی مثال ماہرین نے یوں بیان کی ہے، جیسے حکومت نے 20افراد کے لیے ایک بس بُک کرائی ہو اور اُس میں سے پانچ، چھے افراد اپنی کاریں خرید کر بس سے اُتر جائیں، لیکن حکومت کو تمام20سواریوں کا کرایہ دینا پڑے۔ حکومت اِس مسئلے پر نہ صرف خود کنفیوژ ہو گئی، بلکہ سولر صارفین کو بھی آئے روز بدلتی پالیسیز سے کنفیوژ کر دیاہے۔ ان بدلتی پالیسیز کا اظہار گزشتہ چند ماہ کے دَوران سامنے آنے والی خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ 

چند سرخیوں پر ایک نظر ڈالیے۔ ’’پورا مُلک سولر سسٹم پر‘‘،’’ حکومتی پالیسی تبدیل، سولر سسٹم والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے‘‘، ’’سولر پینلز کی قیمتیں، کم تر ین سطح پر‘‘، ’’سولر پینل لگوانے والے صارفین پھنس گئے، گراس میٹرنگ شروع کرنے کا حکومت کا نیا منصوبہ‘‘،’’ گھر میں سولر سسٹم لگوانے پر اب ٹیکس بھی دینا پڑے گا۔‘‘ یہ صرف چند سرخیاں ہیں، ورنہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب سولر سسٹم سے متعلق افواہوں کا بازار گرم نہ ہوتا ہو۔

ایک خبر یہ بھی سُننے کو ملتی ہے کہ حکومت، سولر صارفین پر ٹیکس عائد کر رہی ہے اور یہ کہ ہر سولر سسٹم کے ساتھ نیٹ میٹرنگ کے علاوہ گراس میٹر بھی نصب کیا جائے گا، جو سولر صارف کی پیدا کردہ بجلی، ارزاں نرخوں پر خرید کر اسے دوبارہ ضرورت کے وقت (جب رات کو سولر کام نہیں کرے گا ) اُسے انتہائی منہگے داموں بیچے گا۔ ایک تاثر یہ بھی دیا جارہا ہے کہ سولر سسٹم کی تنصیب سے ان کروڑوں صارفین کو منہگی بجلی ملے گی، جو سولر نہیں لگوا سکتے۔ 

یعنی سولر صارفین جب خود بجلی پیدا کرکے حکومت کی آمدنی میں کمی کا باعث بنیں گے، تو حکومت یہ خسارہ، غریب صارفین پر مزید بوجھ ڈال کر پورا کرے گی یا اسے سبسڈی دینا پڑے گی۔اگرچہ حکومت نے ان تمام باتوں کی تردید کی ہے، تاہم زمینی حقائق یہی کہتے ہیں کہ حکومت گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرے گی اور شمسی توانائی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے باوجود، ایسے پیچیدہ اور پُراسرار طریقے ضرور وضع کرے گی، جس سے بجلی کی آمدنی میں خسارے کو پورا کیا جاسکے۔

ویسے حکومت کی پریشانی سمجھ میں بھی آتی ہے۔نیپرا کو بجلی کمپنیز کی طرف سے پیش کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، لاہور میں بجلی کی صنعتی طلب 15فی صد اور گھریلو ڈیمانڈ میں 3فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔گوجرانوالہ میں 13فی صد گھریلو اور5 فی صد صنعتی صارفین نے کمپنی سے بجلی لینا بند کردی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

نیٹ اور گراس میٹرنگ کا چکر

کسی بھی صنعتی ادارے یا گھروں میں سولر سسٹم کی تنصیب میں نیٹ میٹرنگ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ سولر پالیسی سب سے پہلے 2008ء میں متعارف کروائی گئی، لیکن صحیح معنوں میں 2013ء میں اِس پر عمل درآمد ہوا۔ 2018ء میں وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی کے دَور میں نیٹ میٹرنگ کا نظام متعارف کروایا گیا، جب سولر صارفین کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوچُکا تھا۔ 

نیٹ میٹرنگ کے تحت ایسے صارفین، جو سولر سسٹم سے اپنی بجلی خود بناتے ہیں، اپنی ضرورت سے زائد بجلی سپلائی کرنے والی متعلقہ کمپنی کو واپس بھیج کر یونٹس کی صُورت میں اُس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ تاہم، اِس مقصد کے لیے صارفین کے پاس دو طرفہ میٹر کا ہونا ضروری ہے۔ اِس ضمن میں نیپرا ایک خاص مدّت کے لیے لائسنس بھی جاری کرتا ہے۔ 

اِس طرح صارف کا اپنا بجلی کا بِل زیرو یا پھر بہت کم آتا ہے۔ لیکن آج کل جس گراس میٹرنگ کی باتیں ہو رہی ہیں، اس کے تحت صارفین اپنی بنائی ہوئی بجلی خود استعمال نہیں کر سکیں گے، بلکہ ساری بجلی گرڈ کو چلی جائے گی اور صارف کو وہی بجلی گرڈ سے واپس درآمد کرنا پڑے گی۔ اِس کے تحت بھی دو الیکٹرک میٹر استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ایک میٹر برآمد شدہ بجلی اور دوسرا درآمد کا ریکارڈ رکھتا ہے۔

گراس میٹرنگ میں حکومت، صارفین سے سستے داموں بجلی خرید کر منہگے داموں واپس صارفین کو دیتی ہے۔ نیٹ میٹرنگ میں صارفین اضافی بجلی واپڈا کو بیچ کر اضافی یونٹ پر پیسا کماتے ہیں، لیکن گراس میٹرنگ میں ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ اگرچہ ٹیرف میں فرق کی وجہ سے بِل میں کمی ضرور ہوتی ہے، لیکن نیٹ میٹرنگ کی طرح مفت بجلی کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔اگر صارف فالتو بجلی واپڈا کو بھیج کر واپس لینے کے جھنجٹ میں نہیں پڑنا چاہتا، تو اُسے طاقت ور بیٹریز پر مشتمل ایک ہائیبرڈ بیک اَپ سسٹم لگانا پڑے گا، جو بہت منہگا ہوتا ہے۔ 

اِس ضمن میں سولر انرجی سسٹم نصب کرنے والی ایک کمپنی کے ایگزیکٹیو، عبدالرحمان خان کا کہنا ہے کہ’’ اگرچہ حکومت نے گراس میٹرنگ کی خبروں کی تردید کی ہے، لیکن حکومت سے کچھ بھی بعید نہیں، خاص طور پر حکومت جب یہ کہتی ہے کہ اگر سولر صارفین کی تعداد اِسی طرح بڑھتی رہی، تو آگے چل کر یونٹس کے لین دین کے اِس نظام پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔ حکومت کے دل میں چور ہے اور سولر صارفین کا فائدہ اور بجلی کی آمدنی میں کمی اس سے ہضم نہیں ہو رہی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سرکار کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔‘‘

پالیسیز میں عدم تسلسل

سولر سسٹم نصب کرنے والی ایک معروف کمپنی کے سینئر انجینئر، نعمان رشید نے اِس سسٹم کے کئی مثبت اور منفی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ سورج کی روشنی اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے، جس کا ہم جتنا بھی شُکر ادا کریں، کم ہے۔ 

نعمان رشید
نعمان رشید

سورج نسبتاً سستی انرجی کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے اور پوری دنیا میں اس سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہے۔ ہمارے ہم سایہ مُلک بھارت میں سستی توانائی کو متوسّط طبقے میں فروغ دینے کے لیے صارفین کو سبسڈی دینے کا پروگرام بنایا گیا ہے اور دو کلو واٹ کے سولر پینل لگانے پر 30ہزار روپے فی کلو واٹ کی سبسڈی دی جاتی ہے، جب کہ اضافی 3کلو واٹ سے زائد سسٹم کی تنصیب پر زیادہ سے زیادہ 78ہزار روپے کی سبسڈی مقرّر ہے۔‘‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ’’ہمارے یہاں سولر انرجی سے متعلق آج تک کوئی واضح پالیسی تشکیل نہیں دی جاسکی۔ ہر حکومت، صارفین کی بجائے اپنے مفاد ہی کو سامنے رکھتی ہے۔ 2016-17ء میں جب نیٹ مانیٹرنگ پالیسی بنائی گئی، تو یہ 10سال کے لیے تھی۔ 

یہ پالیسی ملائیشیا کی طرز پر بغیر سوچے سمجھے نافذ کی گئی، تاہم پھر بھی مناسب تھی۔ 2022ء میں یہ پالیسی تبدیل کر دی گئی، جس کے نتیجے میں سولر کمپنیز کو ڈاؤن سائزنگ کرنی پڑی۔ کمپنی کے طور پر ہم ابھی تک یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ بزنس کرنا کیسے ہے۔18 فی صد سیلز ٹیکس کی طرح مختلف قسم کے چارجز لگ گئے ہیں۔ اگرچہ سولر پینلز کی قیمتیں گر گئیں، لیکن انورٹرز، بیٹریز اور دیگر سازو سامان منہگا ہوا ہے۔

البتہ، سولر سسٹم کی تنصیب پر لاگت پہلے سے کم ہو گئی ہے، لیکن یہ آج بھی عام آدمی یا مِڈل کلاس کی پہنچ سے باہر ہی ہے۔ 10مرلے کے مکان پر 10کلو واٹ کا سسٹم لگایا جائے، تو تقریباً گیارہ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، لیکن بجلی کے بِلز سے تنگ لوگ پھر بھی اپنی قیمتی چیزیں بیچ کر چار و ناچار سولر پینلز لگوا رہے ہیں۔‘‘ 

اُنہوں نے کہا کہ’’ اگر مُلک میں سولر پینلز سَستے ہوئے ہیں، تو اس میں حکومت کا کوئی کمال نہیں، بلکہ یورپ میں جب چین کا مال نہیں بِک سکا اور بھارت یا دیگر بہت سے ممالک نے خُود سولر پینلز بنانے شروع کر دئیے، تو چین نے اپنا مال پاکستانی مارکیٹ میں پھینک دیا، جس سے قیمتوں میں کمی آگئی۔ 

اس سے ہمارے کاروبار پر بہرحال مثبت اثر پڑا۔ پہلے ہم مہینے میں 8 سے 10 سولر کنیکشن لگاتے تھے، اب یہ تعداد 25تک پہنچ گئی ہے۔اگر حکومت شمسی توانائی کو خلوصِ نیّت سے فروغ دینا چاہتی ہے، تو اسے ایک واضح اور لانگ ٹرم پالیسی بنانی چاہیے تاکہ سولر کمپنیز اور صارفین کو یقین ہو کہ کل کچھ نیا نہیں ہوگا۔ دوسرا، نیٹ میٹرنگ پالیسی آسان اور عوام دوست بنائی جائے اور اس میں حکومت سے زیادہ صارفین کا مفاد مدّ ِنظر رکھا جائے۔ 

گراس میٹرنگ سے متعلق خبروں کی وضاحت کی جائے، جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ حکومت صارفین سے کم ریٹ پر بجلی خرید کر کئی گُنا منہگے داموں فروخت کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ نیپرا سے اجازت نامہ لینے اور واپڈا سے نیٹ میٹرنگ کے حصول کا پراسیس آسان اور رشوت سے پاک بنایا جائے۔ اب فائل کو پہیّا نہ لگایا جائے، تو یہ غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح سولر پینلز درآمد کرنے کے لیے ایل سی کھولنے کے طریقے بھی آسان اور شفّاف ہونے چاہئیں۔

اگر حکومت سولر پالیسی میں کوئی تبدیلی کرنا چاہے، تو اُسے صارفین کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے، یک طرفہ فیصلوں سے گریز کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ سولر انرجی کے صارفین تو خود بجلی بناکر حکومت پر بوجھ کم کر رہے ہیں، لیکن اگر حکومت، آصف علی زرداری، بے نظیر بھٹّو، پرویز مشرّف اور نواز شریف ادوار کے آئی پی پیز سے کیے گئے انتہائی نامعقول معاہدوں کے نقصانات، سولر صارفین کی جیب کاٹ کر پورے کرنا چاہے، تو یہ ہرگز پسندیدہ فعل نہیں ہوگا۔‘‘

سولر صارفین کے حقوق

ایک سولر کمپنی کے انجینئر، جاوید اقبال نے اس حوالے سے کہا کہ’’ اصل میں بیوروکریٹس، حکومت کو نت نئی پالیسیز میں اُلجھا دیتے ہیں۔ 2015ء کی پالیسی کسی قدر صارفین دوست تھی۔ پھر جب 2018ء میں نیٹ مانیٹرنگ کی نئی پالیسی بنی، تو اس کے تحت دو میٹر لگا کر دو ٹیرف بنا دئیے گئے۔

یعنی حکومت آپ سے تو سستے داموں بجلی خریدے گی، لیکن جب آپ، بوقتِ ضرورت واپڈا کے گرڈ سے بجلی لیں گے، تو اس کا ٹیرف دُگنا ہوگا، حالاں کہ ایک سولر صارف جتنے یونٹ بجلی بناتا ہے، اُس پر اُسی کا حق ہے اور وہ چاہے تو اپنے پڑوسی کو بھی دے سکتا ہے، لیکن یہاں واپڈا نے اپنے لیے گھاٹے کا سودا نہیں کیا، بلکہ آئی پی پیز کو پیسوں کی ادائی کا بوجھ صارفین پر ڈال دیا۔ 

اِس وقت پرائیویٹ سیکٹر میں تین ہزار سے زائد میگا واٹ بجلی بن رہی ہے، جس میں گھریلو سولر صارفین کا حصّہ 80میگا واٹ ہے۔ ان80 میگا واٹس میں وہ20 میگا واٹ اضافی بناتے ہیں، جو واپڈا کو واپس گرڈ میں بھیج دیتے ہیں اور وہ انہیں منہگے داموں واپس بیچتا ہے۔ ماہرین نے اِس پیچیدہ طریقۂ کار کو بلیک میلنگ کی طرز پر ’’نیٹ میلنگ‘‘ قرار دیا ہے۔‘‘

حکومت کے دِلاسے

گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں شمسی توانائی کے ضمن میں افواہوں کا بازار اتنا گرم رہا (اور اب بھی ہے) کہ وفاقی وزیرِ توانائی، اویس احمد لغاری کو قومی اسمبلی اور پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کے شکوک و شبہات دَور کرنے پڑے۔ اویس لغاری نے تمام افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ’’ہم مکمل طور پر ان کہانیوں کو رد کرتے ہیں، جن صارفین نے ہماری کمپنیز کے ساتھ معاہدے کیے ہیں،خواہ یہ کتنے ہی سال کے ہوں، ان میں تبدیلی لا کر حکومت اپنی ساکھ خراب نہیں کرنا چاہتی۔

ہم انویسٹرز کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دیں گے۔ البتہ، یہ بات ضرور ہے کہ چند سال پہلے جو انویسٹر گھر میں سولر لگاتا تھا، اپنی قیمت ساڑھے تین سال میں پوری کرلیتا تھا۔ آج سولر پینلز کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے وہ ڈیڑھ، دو سال میں اپنی قیمت پوری کرلیتا ہے، لیکن اس پراسیس میں حکومت، عام صارفین پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ نہیں پڑنے دے گی۔ 

اگر اِس انویسٹمینٹ کے ریٹ آف ریٹرن کا جائزہ ضروری ہوا، تو وہ لیا جاسکتا ہے۔ دنیا بَھر میں جہاں کہیں سولر صارفین کی تعداد بڑھتی ہے، تو ری بیلنسنگ کے لیے ایسا ہی لائحۂ عمل اختیار کیا جاتا ہے، جیسا کہ اب آسٹریلیا میں ہوا ہے۔ ہم نیٹ مانیٹرنگ پالیسی جاری رکھنے کے حق میں ہیں، لیکن اگر اس پر نظرِثانی کی ضرورت ہوئی، تو دوسرے فریق کو سُنے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جائے گا۔‘‘ 

اُنہوں نے مزید کہا کہ’’اِس وقت نیٹ میٹرنگ پر 13ہزار سے زائد کنیکشنز موجود ہیں اور پاکستان میں بجلی کی جتنی کھپت ہے، اُس کا 0.3فی صد مختلف گھرانے سولر پینلز سے پیدا کر رہے ہیں۔‘‘

200ارب کی سرمایہ کاری کو خطرہ

سولر کمپنیز کے بیش تر ماہرین کے نزدیک پاکستان میں سولر انرجی کا فروغ، حکومت کے ناکام منصوبوں میں ایک اور منصوبے کا اضافہ ہے۔اِس کا حشر وہی ہونے جا رہا ہے، جو قدرتی گیس کے سلسلے میں ہوا تھا کہ غلط پالیسی سے اب گیس ہی دست یاب نہیں۔ 2011ء اور 2016ء تک حکومت کا نعرہ تھا کہ’’سولر سے اپنی بجلی بنائو، حکومت کو بیچو اور اپنا بِل بھی بچاؤ۔‘‘ 

اِس حوصلہ افزا پالیسی سے جب سولر پاور کا جن بوتل سے نکل آیا، تو اب حکومت پریشان ہے کہ یہ کیا ہوگیا۔ ایک سولر پاور کمپنی کے مالک نے، جنہیں حکومت کے اندرونی حلقوں تک رسائی حاصل ہے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’حکومت خواہ کتنا ہی انکار کرے، لیکن اب بھی درونِ خانہ نیٹ میٹرنگ اور گراس میٹرنگ کے ذریعے گھریلو سولر صارفین سے کم قیمت پر بجلی خرید کر منہگے داموں بیچنے کی تدابیر پر غور کیا جارہا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر فیصلے ایسے بیوروکریٹس کرتے ہیں، جن کا سولر انرجی سے دُور دُور تک واسطہ نہیں۔ وہ تو صرف صارفین کی جیب سے پیسے نکلوانے کا سوچتے ہیں۔

اُن کا سارا زور اِس بات پر ہے کہ آئی پی پیز کی کیپیسٹی چارجز کے پیسے سولر صارفین سے وصول کیے جائیں‘‘۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’اگر حکومت نے کوئی واضح عوام دوست پالیسی نہ بنائی، تو سولر انرجی سیکٹر میں اِس وقت تک جو 2سو ارب روپے کی سرمایہ کاری ہو چُکی ہے، وہ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد گھرانوں نے سولر سسٹم لگوا رکھے ہیں۔ سولر پاور سے بنائی جانے والی 3ہزار سے زائد میگا واٹ بجلی میں اُن کا خاطر خواہ حصّہ ہے، جب کہ اِس وقت 8ہزار میگا واٹ کے پینلز درآمد ہو چُکے ہیں۔ 

حکومت اور عوام سولر پینلز کے سَستے ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں،حالاں کہ مارکیٹ میں غیر معیاری اور غیر معروف کمپنیز ہی کے سولر پینلز سَستے داموں بِک رہے ہیں۔ برانڈڈ پینلز کی گارنٹی 20-20سال ہوتی ہے، جب کہ یہ سَستے پینلز سال، چھے مہینے بھی نہیں نکالتے۔ اِس لیے صارفین کو اِس سلسلے میں محتاط رویّہ اپنانا چاہیے۔

میرے نزدیک، نیٹ میٹرنگ کے جو معاہدے صارفین سے اب تک ہو چُکے ہیں، حکومت اُن میں کوئی ردّ و بدل نہیں کر سکتی، کیوں کہ لوگ عدالتوں میں چلے جائیں گے، البتہ آئندہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا اور مقروض حکومت سے کچھ بھی متوقّع ہے۔‘‘

’’سورج‘‘ تلے اندھیرا

پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے سورج کی روشنی سے مالا مال ہے اور عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان شمسی توانائی کے ذریعے ڈیمز سے زیادہ بجلی بنا سکتا ہے، لیکن سورج سے بجلی پیدا کرنے کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کافی پیچھے ہے۔ 

ماہرین کی نظر میں اس کی چند وجوہ ہیں۔

(1) بنیادی انفرا اسٹرکچر کا فقدان: یعنی ٹرانسمیشن لائنز، سب اسٹیشنز اور گرڈ کنیکشنز کا نہ ہونا، جس کے نتیجے میں سولر انرجی کی گرڈ منتقلی میں فنی مشکلات پیش آتی ہیں۔ 

(2) زیادہ لاگت: پاکستان میں سولر پینلز اگرچہ سَستے ہیں، لیکن سولر سٹم تنصیب کرنے کا دوسرا سامان منہگا ہے، جس کی وجہ سے متوسّط طبقے کا کوئی فرد یہ سسٹم لگوانے کی استطاعت نہیں رکھتا، کیوں کہ اِس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، جو صرف صاحبِ ثروت افراد ہی افورڈ کرسکتے ہیں اور پاکستان میں کروڑوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یاد رہے، بھارت سمیت کئی ممالک اِس سلسلے میں عوام کو سبسڈی دے رہے ہیں۔

(3) آگہی کا فقدان: پاکستان میں شرحِ خواندگی کم ہونے کے باعث اکثر لوگوں کو شمسی توانائی سے متعلق علم ہی نہیں ہے اور اگر کوئی یہ سسٹم لگوانا بھی چاہیں، تو اُن کی درست رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

 (4) بدلتی پالیسیز: حکومتی عدم استحکام اور افراتفری کی وجہ سے سولر کمپنیز اور یہ سسٹم لگوانے کے خواہش مند افراد بداعتمادی اور کنفیوژن کا شکار ہیں۔

( 5) فنی مہارت کی کمی: سولر انرجی سیکٹر میں پیشہ ورانہ ماہرین، انجینئرز اور ٹیکینکل ورکرز کی کمی ہے، جس سے سولر سسٹم کی تنصیب اور اسے کام یابی سے برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ سولر انرجی کے بڑھتے رجحان کے باعث سیکڑوں غیر ہنر مند اور اناڑی بھی عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سرگرم ہیں۔

( 6) سرخ فیتہ: اگر کوئی شخص گھر میں سولر سسٹم کی تنصیب کا فیصلہ کرلے، تو نیپرا اور متعلقہ بجلی کمپنی سے نیٹ میٹرنگ سے متعلق معاملات طے کرنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اِس عمل کو سرخ فیتے، طویل دفتری کارروائیوں اور رشوت وغیرہ سے پاک ہونا چاہیے تاکہ صارفین دل برداشتہ نہ ہوں۔

ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے…!!

سولر پاور کی تنصیب اگرچہ خالصتاً ایک کاروباری اور مالیاتی معاملہ ہے، لیکن ماہرینِ سماجیات اسے ایک مختلف زاویے سے بھی دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کے بڑھتے رجحان نے معاشرے میں طبقاتی تفریق کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ کسی ہائوسنگ سوسائٹی، محلّے یا علاقے میں رہنے والا ایک متوسّط درجے کا سفید پوش شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی ہم سایہ یا جاننے والا سولر توانائی کی سہولت سے فائدہ اُٹھا رہا ہے، جو اس کے لیے افورڈ کرنا مشکل ہے، تو اُس کے ذہن میں محرومی کا احساس مزید اجاگر ہو جاتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں’’دنیا بَھر میں حکومتیں عوام کی سہولت اور آسانی کے لیے اُنہیں سَستی بجلی فراہم کرتی ہے یا ایسے منصوبے بناتی ہے، جن سے غریب اور امیر کسی تفریق کے بغیر فائدہ اُٹھا سکیں، وہ مستحق افراد کو سبسڈی بھی دیتی ہیں، لیکن ہمارے مُلک کے طور طریقے ہی نرالے ہیں، جہاں سولر صارفین سَستے داموں بجلی بنا کر حکومت کو دے رہے ہیں اور حکومت آگے منہگے داموں بیچتی ہے۔‘‘

بعض ماہرین کے نزدیک’’ سولر پاور کی تنصیب عوام کی خود غرضی اور انفرادی سوچ کی عکّاسی کرتی ہے کہ دوسروں پر جو کچھ گزرے، اس کی اُنہیں پروا نہیں، کم از کم اُنہیں تو فائدہ ہو رہا ہے۔ دوسروں کو کچل کر آگے بڑھنے کا جنون، اب ہماری معاشرتی اور قومی سوچ کا حصّہ بنتا جارہا ہے۔‘‘ 

ماہرین کے خیال میں یہ سوچ ہر دَور سے موجود چلی آرہی ہے، لیکن سولر انرجی پر منتقل ہونے کی دوڑ نے اُسے مزید اجاگر کر دیا ہے۔اے کاش! حکومت ایسے منصوبے بنائے، جن سے معاشرے کے ہر فرد کو بلا تفریق آسانیاں فراہم کی جاسکیں اور ہمارے اندر دوسروں سے متعلق سوچنے کا شعور بھی پیدا ہو سکے۔