• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نماز اسلام کا سب سے اوّل اور عظیم ترین رُکن اور حقوق اللہ میں اہم ترین عبادت ہے۔ اس کی ادائیگی کا جو طریقہ اسلام نے اپنے متبعین کو سکھایا، وہ یہ کہ نماز کو اجتماعیت کے ساتھ باجماعت ادا کیا جائے اور اس میں تفریق اور نسلی و طبقاتی امتیازات کے بندھن توڑ کر تمام امتیازات کو ختم کردیا جائے۔ روزے میں بھی یہی شان کار فرما نظر آتی ہے۔ روزے اجتماعی صورت میں فرض کیے گئے۔ 

ایک متعیّن اور مخصوص ماہِ مقدس ’’رمضان المبارک‘‘ میں تمام اسلامیانِ عالم دن میں صائم النّہار اور رات میں قائم الّلیل ہوتے ہیں۔ اسی طرح حج جو کہ اجتماعیتِ کبریٰ کا سب سے عظیم مظہر، اسلام کا ایک اہم رکن اور اسلامی عبادات کا ایک اہم جزو ہے، اس میں بھی اخوت واجتماعیت، اتحاد و یگانگت، انسانی مساوات اور وحدتِ اُمت کی وہ عظیم شان کار فرما نظر آتی ہے، جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب اور اقوامِ عالم کے کسی قومی و ملّی اجتماع میں نظر نہیں آتی۔

’’حج‘‘ اسلام کا بنیادی فریضہ اور وہ مقدس اسلامی عبادت ہے، جو مالی اور بدنی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ اسلام کے نظامِ عبادت میں اسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو حکم دیا کہ: ’’آپ لوگوں میں اعلانِ حج کردیں، لوگ آپ کے پاس حج کے لیے پیدل چل کر بھی آئیں گے اور دُبلی اونٹنیوں پر بھی، جو دُور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی، تاکہ لوگ اپنے منافع حاصل کرنے کے لیے آموجود ہوں۔‘‘ (سُورۃ الحج،28,27 )

حج وہ مقدس فریضہ ہے کہ جس کی بدولت خالقِ کائنات نے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کو اخوت و اجتماعیت کا درس دیا، ارشادِ ربّانی ہے: ’’اور ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کے لیے اجتماع کی جگہ بنادیا اور جائے امن قرار دیا۔‘‘ (سُورۃ البقرہ۔ 125)

احکاماتِ ربّانی اور فرامینِ نبویؐ میں اس حقیقت کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تمام مسلمان رشتۂ اخوت میں منسلک ہیں۔ اسلام تمام مسلمانوں کو متحد و متفق رہنے کی تلقین کرتا اور افتراق و اختلاف کی ممانعت کرتا ہے۔ارشادِ ربّانی ہے:’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ (سُورۂ آلِ عمران۔ 103)

حجِ بیت اللہ، ملتِ اسلامیہ کے درمیان اخوت و اجتماعیت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حج کی بدولت عالمِ اسلام کے مسلمانوں کی اخوت و اجتماعیت کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ پروردگار کے فرمانِ عالی شان کے بموجب ہر سال لاکھوں فرزندانِ اسلام دنیا کے کونے کونے اور خطۂ ارض کے گوشے گوشے سے اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے حرمِ مقدس پہنچتے ہیں۔ 

اس موقع پر اخوت و اجتماعیت اور انسانی مساوات کا وہ عملی نمونہ سامنے آتا ہے کہ جس کی مثال تاریخِ مذاہبِ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔اس موقع پر تمام امتیازات کے بندھن اور زنجیریں توڑ دی جاتی ہیں۔ 

چناںچہ بادشاہ و فقیر، وزیر و امیر، دولت مند و حاجت مند، غنی و گدا، شہریار و شہسوار، تاجدار و چوبدار، فرماں روا و بے نوا، ملک ملک کے لوگ، سجدہ ایک اور جبینیں بہت سی، یہاں صاحب و بندہ و محتاج و غنی کا کوئی امتیاز نہیں، یہاں کوئی جہاں پناہ نہیں، سب پناہ خواہ ہیں ؎

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہُوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہُوئے

مسلمان، خواہ اُس کا تعلّق کسی قوم، قبیلے، خاندان، رنگ و نسل، یا خطۂ ارض سے ہو، ایک لباس زیب تن کیے تمام اُمتِ مسلمہ کے ساتھ شریکِ عبادت نظر آتا ہے۔ اس مقدس موقع پر نہ امیر وغریب کا امتیاز ہوتا ہے، نہ حاکم و محکوم کا، تمام اُمتِ مسلمہ ایک ہی ہیئت، ایک ہی حلیے میں ایک ہی مطاف کے گرد طواف کرتی نظر آتی ہے۔ 

پوری فضا مسلمانوں کی اخوت و اجتماعیت کا اظہار ان مقدس الفاظ میں کرتی ہے: ’’لَبّیک اللّٰھُمَّ لَبّیک‘‘ کعبۃ اللہ کے گرد طواف میں کالے اورگورے، عربی اور عجمی، ایشیائی اور افریقی، مشرقی اور مغربی غرض ہر نسل، ہر زبان اور ہر قومیت کے لاکھوں فرزندانِ اسلام ایک ہی لباس (احرام) میں ملبوس، ایک معبود کی عظمت کے اظہار اور اُس کی بندگی کے اعتراف میں ایک ہی جذبہ لیے تجلّیاتِ ربّانی کے عظیم مرکز اورکرۂ ارض پر اللہ کے پہلے گھر،کعبۃ اللہ کے گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں۔

اس طرح اخوّت و مساوات اور وحدتِ اُمت کا یہ عالم گیر مظہر اس امر کا اعتراف کرتا نظر آتا ہے کہ اللہ کے دین پر ایمان رکھنے والے رنگ و نسل، قوم قبیلے، علاقہ وطن کے امتیازات اور دیگر اختلافات کے باوجود ایک آدمؑ کی اولاد اور ایک اُمت ہیں، ان کا محور و مرکز بھی ایک ہے اور ان کی وفا داریاں، قربانیاں اور جاں نثاریاں ایک معبودِ برحق اور ایک خالقِ حقیقی اللہ عزّ و جل کے لیے ہیں۔ 

جس کا کوئی شریک نہیں، جو بے نیاز ہے،اُس کا کوئی ہمسر نہیں۔ ہر فرد یہ پکارتا نظر آتا ہے کہ:’’میں حاضر ہُوں، اے اللہ، میں حاضر ہُوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تمام خُوبیاں اور تمام نعمتیں تیرے ہی لیے ہیں اور بادشاہی تیرے ہی لیے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘

یورپ کا مشہور مورّخ فلپ کے حطّی (Philip K. Hitti) "History of the Arabs" میں لکھتا ہے:’’صدیوں سے یہ دستور (حج) اسلام میں مسلسل اتحاد کی مؤثر ترین قوّت کے طو پر کام کررہا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ مؤثر ترین مشترک رشتہ ہے۔ 

دنیا کے چار اطراف کی اسلامی برادری کے اس اجتماع کے معاشرتی اثرات کے بارے میں مشکل ہی سے مبالغہ آرائی کی ضرورت پڑے گی۔ یہ حبشیوں، چینیوں، شامیوں اور عربوں کو، امیر اور غریب کو، کم تر اور برتر کو مذہب کی اَساس پر اخوت و اتحاد اور باہمی روابط کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں صرف اسلام کو رنگ و نسل اور قومیت کی دیواریں گرانے میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘‘

ڈاکٹر سی، آر، ریڈی جو یورپی دنیا میں سیاست اور فلسفے میں ممتاز مقام رکھتے تھے، موصوف نے 1943ء میں ’’ٹوینتھ سینچری میگزین‘‘ کے مئی کے شمارے میں لکھا، ’’نسلی مساوات کا مسئلہ اسلام کے سِوا کسی مذہبی یا اخلاقی نظام سے حل نہیں ہوا۔ ہم صرف اسلام ہی میں یہ حقیقت پاتے ہیں کہ تمام مومن خواہ وہ کسی نسل یا رنگ کے ہوں،کامل مساوات سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔‘‘

ہندو دانش ور، پروفیسر کے ایس راما کرشنا رائو (سابق ہیڈ ڈپارٹمنٹ آف فلاسفی، گورنمنٹ کالج میسور، انڈیا) "Muhammad The Prophet of Islam" میں لکھتے ہیں:’’عالمی اخوت اور انسانی مساوات کا اصول جس کی آپ ﷺ نے تبلیغ کی، وہ انسانیت کی سماجی ترقی میں بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے اس نظریے کو حقیقی عمل کی صورت دے دی اور اس کی اہمیت شاید کچھ دنوں بعد پوری طرح سمجھی جاسکے،جب کہ بین الاقوامی شعور جاگے گا، نسلی تعصبات ختم ہوجائیں گے اور انسانی اخوت و مساوات کا ایک طاقت ور نظریہ وجود میں آئے گا۔ 

ہر سال دنیا حج کے موسم میں اس حیرت انگیز بین الاقوامی مظاہرے کو دیکھتی ہے، جو کہ رنگ، نسل اور رتبے کے تمام فرق کو برابر کردیتا ہے۔ یورپی، افریقی، ایرانی، ہندوستانی، چینی سب کے سب ایک خاندان کے ممبر کی حیثیت سے مکّے میں ملتے ہیں، سب کے سب ایک قسم کے لباس پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں ایسی کوئی چیز باقی نہیں رہتی، جو چھوٹے اور بڑے کے درمیان فرق کرے اور ہر حاجی یہ احساس لے کر گھر آتا ہے کہ اسلام ایک بین الاقوامی اہمیت رکھنے والا دین ہے۔

’’لَبّیک اللّٰھُمَّ لَبّیک‘‘ حج کا نام ذہن میں آتے ہی پیغمبرِ آخرالزماں سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا وہ آخری خطبہ جسے خطبۂ حجۃ الوداع کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے (جو تمام اُمتِ مسلمہ کے لیے ایک مکمل قانون اور دستاویز کی حیثیت رکھتا اور اُمتِ مسلمہ کے لیے ایک مثالی اور ابدی پیغام ہے) اُس کا تصور ذہنوں میں گردش کرنے لگتا ہے کہ جب حضورِاکرم ﷺ نے اپنے پروانوں اور جاں نثاروں کو جو رضائے الٰہی اور حبِّ رسول ﷺ کے متلاشی تھے اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر بیٹھے تھے، اُنہیں خطاب کرکے آپﷺ نے یہ اعلانِ عام فرمایا:’’لوگو، بے شک تمہارا پروردگار ایک ہے اور تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا،کسی عربی کو کسی عجمی پر،کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو سیاہ پر،کسی سیاہ کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں اگر فضیلت یا بڑائی کا کوئی معیار ہے تو وہ محض تقویٰ ہے۔‘‘

آپ ﷺ کے اس مقدّس فرمان کی روشنی میں حج کے عالم گیر اجتماع میں تمام عالمِ اسلام کے مسلمانوںکی ملّی وحدت، اخوت و اجتماعیت اور مساوات کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں کو اخوت و اجتماعیت کا درس دیا اور مُسلم اُمّہ کو وحدت و اخوّت کی لڑی میں پِرو دیا، عصبیت و قومیت کے بُتوں کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا کہ یہی رُوح عبادت اور یہی عینِ اسلام ہے۔ بقول شاعرِ مشرق ؎

تمیزِ رنگ و بُو برما حرام است

کہ ماپروردۂ یک نوبہاریم

محسنِ انسانیت ﷺ کے اس عالمگیر انقلاب اور اس کے نتیجے میں انسانی مساوات پرمبنی معاشرے کے قیام اور اس کے نتائج و ثمرات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک یورپی دانشور لکھتا ہے:’’مذاہبِ عالم میں تنہا اسلام رنگ و نسل کی تمیز سے مبرّا رہا ہے۔ یہ فراخدلی سے، اسلام قبول کرنے والوں کا خیر مقدم کرتا ہے، کسی قسم کی رکاوٹ یا امتیاز کے بغیر جس طرح یہ اُنہیں داخلِ مذہب کرتا ہے، اُسی طرح اپنے معاشرتی حلقے میں انہیں قبول کرتا اور حقوق و مراعات دیتا ہے۔ رنگ و نسل کی ساری دیواریں گرا دیتا ہے اور کامل معاشرتی مساوات کی بنیاد پر انہیں مِلّت میں شریک کرتا ہے۔‘‘