قارئین کرام ! بقر عید کی چھٹیوں میں پاکستان میں حالات حاضرہ کا تلاطم معمول کی رفتار سے بھی بڑھ گیا۔عید قرباں خودتو قربانی کے جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں سے متاثر ہو گئی۔ منڈیوں میں پہلے جیسی رونق اور خریدوفروخت میں روایتی سرگرمی نظر نہ آئی، تاہم مندی منڈیوں میں کچھ نہ کچھ چلتا رہا لیکن ملکی سیاست کی گرمی ملک میں آئی غیر معمولی ہیٹ ویو سے مقابلہ کرتی نظر آئی۔
بقرعید کی آخری سرکاری چھٹی پر ن لیگی حکومت کے سرخیل وزیر نے اپنے منصب سے ماورا بڑی دھماکہ خیز پریس کانفرنس کر ڈالی یہ اس لحاظ سے بہت منفی الذہن اور غیر ذمے دارانہ تھی کہ اس میں موصوف خارجہ امور کے حوالے سے پاکستانی قوم کی شہرہ آفاق متفقہ اور اٹل میراث پاک چین دوستی کو داخلی سیاست کے دائرے میں لاکر اس پر گولہ باری کرتے نظر آئے ۔یہ ان کی اس مسلسل جاری غیر ذمے دارانہ سیاسی بیان بازی کا تسلسل ہے جو الیکشن 24میں عوام کی مسترد پارٹی کے وزیرِ ترقیات جاری رکھے ہوئے ہیں۔یوں وہ مسلسل پاک چین دوستی، سی پیک اور اس کے ترقیاتی پراجیکٹس پر ن لیگی حکومت کی اجارہ داری قائم کرنے میں بڑے انہماک سے کوشاں رہے۔ احسن اقبال دونوں جانب کی اتنی ہی حکومتوں کی مشترکہ سفارتی کاوشوں کے موجود اور امکانی حاصل کو اپنی فارم 47پربنی متنازع حکومت کی جھولی میں ڈال رہے ہیں اور تو اور وزیر ترقیات کا یہ رویہ فقط روایتی سیاسی انداز میں کریڈٹ سمیٹنے تک محدود نہیں رہا، اب تو انہوں نے اسی حوالے سے ملکی سب سے بڑی اور حقیقی قوت پی ٹی آئی پر بھی گولہ باری شروع کر دی ہے کہ پاک چین تعلقات اور سی پیک میں آئی کچھ سرد مہری سستی اور کمی کی ذمے دار فقط پی ٹی آئی ہے وہ ساڑھے تین سالہ عمران حکومت میں دو سالہ عالمی وبا خود اپنی 16ماہی اور نگران حکومت میں سی پیک کے پراجیکٹس پر کام کرنے والے چینی ماہرین، انجینئرز اور سٹاف کے سیکورٹی ایشو میں شدت آنے سے ہر دو ممالک کچھ مشترکہ ترقیاتی سرگرمیوں میں پیدا مسائل سے وزیر موصوف اپنے الزامات اور بیان بازی میں نظریں چراتے ہیں ۔پریس کانفرنس میں یہ کہنا کہ یہ دشمن کا پروپیگنڈا ہے کہ چین نے تعلقات کی سطح نیچے کر دی۔مفادات کے ساتھ کھیلیں گے تو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔واضح طور پر پی ٹی آئی کو مطعون کرتے بولے مفادات کے ساتھ کھیلیںگے تو آہنی ہاتھوںسے نمٹا جائےگا(بھلا پلاسٹک کی حکومت کے ہاتھ آہنی کیسے ہو سکتے ہیں ؟) اگر یہ چاہیں کہ اسمبلیوں سے ٹی اے ڈی اے بھی وصول کریں اور سڑکوں پر بھی انتشار پیدا کریں ملک کی ترقی کوسبوتاژ کریں تو اس کی اجازت قوم دے گی نہ ہم دیں گے ۔(حقیقت تو یہ ہے کہ قوم نے آپ کو حکومت کی اجازت نہیں دی )ہاں!احسن اقبال کی یہ بات قابل غور ہے کہ ٹی اے ڈی اے لینے والے سنی کونسل کی پارلیمانی چادر اوڑھے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو پلاسٹک گورنمنٹ مسلط کرنے پر کسی طور بمطابق آئین حقِ احتجاج کی بھی اجازت نہیں مل رہی اور فسطائیت کے دور میں احتجاج، انتشار قرار پایا ہےتو پھر یہ ایوان میں یہ نشاندہی تو کریں کہ ’’بجٹ‘‘ کے موثر ہتھیار سے لیس عوام کے درپے شہباز حکومت کی اس ابلاغی مہم کا تو پردہ چاک کریں کہ وہ عشروں کی پاک چین قومی کاوشوں سے تشکیل پائے شہرہ آفاق مثالی پاک چین دوطرفہ تعلقات و دوستی اسی کی حکومتوں کا کارنامہ ہے ، نیز واضح کریں کہ وہ پاکستان کے حقیقی منتخب نمائندے کی حیثیت سے پاک چین دوستی کے مطلوب درجے پر استقلال اور اسے جاری و ساری رکھنے کے ذمے دار ہیں اور اقتدار میں آکر سی پیک کو اس کی سپرٹ سے آگے بڑھائیں گے ۔اس تاریخی قومی پالیسی کو آئرن برادر زیادہ سے زیادہ دوطرفہ فوائد کے لئے ہر دم ایک پیج پر ہیں ۔بلاشبہ زیادہ تر پاکستان کے داخلی سیاسی اور حکومتوں کی گورننس کے مسائل کی وجہ سے ہمارے اٹل تعلقات کی عملیات کے حوالے سے اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے داخلی سیاسی انداز اور رنگ سے اور بڑھاوا دیا جائے ہاں!ن لیگ کی یہ شکایت بھی یکسر غلط نہیں کہ 2014ء کے دھرنے میں چینی صدر کا دورہ نہ ہونے سے سی پیک کی رفتار متاثر ہوئی دھرنے سے پی ٹی آئی نے حکومت پر بلند درجے کا جو دبائو ڈالا تھا وہ اسے سیاسی طور کیش کرانا ہی نہیں آیا اس کی نیت میں تو چینی صدر کے دورے کو سبوتاژ کرنا نہ تھا ایسے ڈیزاسٹر ہماری کئی حکومتوں نے کیے، کیا پی ڈی ایم اور ن لیگ ملک میں سیاسی و آئینی ارتقائی عمل کو بری طرح ہارس ٹریڈنگ اور شدید منفی ساز باز سےسبوتاژ کرنے کی مکمل ذمے دار نہیں؟
رہا یہ الزام کہ ’’چین نے تعلقات کی سطح نیچے کردی‘‘دشمن کا پروپیگنڈا ہے اور پی ٹی آئی اسے پھیلا رہی ہے ۔ایسا کوئی پروپیگنڈا پاکستان کے بیرونی دشمنوں کی وجہ سے ہو رہا ہے نہ ایسی کوئی واقعی ابلاغی مہم پاکستان میں چل رہی ہے یہ تو عالمی میڈیا کے ایک سیکشن نے وزیر اعظم کے حالیہ دورہ چین کے تناظر میں اپنی نیٹ کوریج میں دی ہے ۔ایک آدھ نچلی سطح کے سیاسی رہنما نے اسے پک کرکے حکومت خصوصاًاحسن صاحب کی پاک چین دوستی کے جواب میں اسے خارجہ پالیسی پر تنقید سمجھ کر، کربھی دی تو حساس ملکی دوستیوں کے حوالوں سے ایسا نہیں کرنا چاہئے ،کر دیا تو اس پر اتنا غضبناک ہو کر اتنی غیر ذمے دارانہ پریس کانفرنس کا بھی کوئی جواز نہیں۔سینیٹر سید مشاہد حسین کو چاہئے کہ وہ ہر دونوں ایوان کے دونوں جانب کے اراکین کو پاک چین دوستی کے حوالے سے ساتھ نہ بیٹھنے پر بھی ایک پیج پر رہنے کا اہتمام کریں خود خارجہ امور کی کمیٹیوں کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تھا نہیں کیا تو فوراً کریں۔
بھارتی دارالحکومت سے خبر آئی ہے کہ نئی دہلی کے نائب گورنر نے عالمی سطح پر مشہور بنیادی انسانی حقوق کی بھارتی علمبردار آزادی کشمیر کی پرزور حامی ممتاز ناولسٹ ارون دھتی رائے اور سنٹرل یونیورسٹی کشمیر کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف 14سالہ درج مقدمہ چلانے کی منظوری دیدی۔ دو ملزم سید علی گیلانی اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالرحمن گیلانی انتقال کر چکے ہیں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ’’آزادی صرف ایک ہی راستہ‘‘ کے موضوع پر نئی دہلی کی ایک کانفرنس میں آزادی کشمیر کی حمایت اور مطالبہ کیا تھا، مودی حکومت اور ہمارے ملکی بحران نے جس طرح مسئلہ کشمیر کو سبوتاژ کیا ہے اس کا پاکستان پر اتنا تو قرض ہے کہ محترمہ دھتی رائے اور پروفیسر شوکت حسین کے خلاف مقدمے کی حقیقت سے دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کے حلقوں کو آگاہ کریں۔ پاکستانی وزارت خارجہ اور سوشل میڈیا کو بھی سرگرمی سے دھتی رائے صاحبہ کے دفاع میں آگے آنا چاہئے۔
ٹی وی ٹاک شو ز میں ماہرین نے اور عمر ایوب اور سینٹ میں سینیٹر زرقا شاہین نے عوام دشمنی کا جو نقشہ قوم کے سامنے کھینچا ہے اس سے اتنا مکمل واضح ہو گیا کہ اس کھیل میں ہمیشہ کی طرح متوسط اور غریب عوام کو ہدف بنایا گیا اور اشرافیہ کو جگہ جگہ بچایا گیا ہے، اس پر فالو اپ بہت رونا دھونا اور طویل ہو گا۔