مصنّف: راجا انور
صفحات: 316، قیمت: 1500 روپے
ناشر: بُک کارنر، جہلم۔
فون نمبر: 4440882 - 0314
راجا انور اپنے دورِ طالبِ علمی ہی سے سیاست میں فعال ہوگئے تھے۔ 1968ء میں ایّوب حکومت کے خلاف طلبہ کا پہلا جلوس اُنہی کی قیادت میں گورڈن کالج، راول پنڈی سے نکلا۔ 1970ء میں یحییٰ مارشل لاء پر تنقید کے جرم میں ایک سال کی جیل کاٹی۔ جب جون 1966ء میں بھٹو صاحب، ایّوب کابینہ سے فارغ ہونے کے بعد بذریعہ ٹرین لاہور جا رہے تھے، اُس موقعے پر مصنّف کی اُن سے پہلی ملاقات ہوئی اور پھر اُنہی کے ہوکر رہ گئے۔ 1973ء میں وزیرِ اعظم، بھٹو کے مشیر مقرّر ہوئے۔1978ء میں راجا انور نے ذوالفقار علی بھٹّو کی رہائی کے لیے پیپلز پارٹی کی پہلی خفیہ تنظیم’’ پیپلز ایکشن کمیٹی‘‘ قائم کی، جس کے تحت کارکنان نے ایک منظّم منصوبے کے تحت گرفتاریاں پیش کیں۔
اِس مہم کے دوران بعض کارکنان نے خود سوزی بھی کی۔ بعدازاں وہ سیاسی پناہ کے لیے جرمنی چلے گئے اور پھر ذوالفقار بھٹّو کے عدالتی قتل کے بعد مرتضٰی بھٹّو کے بلاوے پر کابل جا پہنچے،جہاں مختلف منصوبوں میں اُن کے شریکِ کار رہے۔ راجا انور نصف درجن سے زاید کتب کے مصنّف ہیں، جن میں’’جھوٹے رُوپ کے درشن‘‘ جیسی اپنے دَور کی مشہور کتاب بھی شامل ہے، جب کہ اُنھوں نے 1996ء میں’’ The Terrorist Prince‘‘ کے عنوان سے بھی ایک کتاب تحریر کی، جس کا اُردو ترجمہ اِس وقت ہمارے سامنے ہے اور یہ ترجمہ بھی اُنہوں نے خُود ہی کیا ہے۔
اِس کتاب کے تین پہلو بہت نمایاں ہیں اور تینوں ہی اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ اِس کتاب میں بھٹّو خاندان، بالخصوص مرتضیٰ بھٹو کی داستانِ حیات ایک ایسے زاویے سے قلم بند کی گئی ہے، جس کی ایک خاص تاریخی حیثیت ہے۔کتاب میں مذکور حالات و واقعات اِس لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ مصنّف بیش تر معاملات میں خُود شریک رہے یا پھر اِن امور میں شامل افراد سے اُن کے براہِ راست تعلقات تھے۔
وہ کابل میں مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ ہی رہائش پذیر تھے، دہلی اور دمشق سمیت کئی مقامات کا اُن کے ساتھ سفر کیا، جس کے دوران اہم شخصیات سے خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ افغان انٹیلی جینس سربراہان کے ساتھ نشستیں رہیں، بھارت میں’’را‘‘ کے اور لیبیا کے ٹریننگ کیمپس تک بھی اُن کی رسائی تھی۔ اندرا گاندھی کے صاحب زادے کے انتقال پر راجا انور ہی مرتضیٰ بھٹو کی جانب سے تعزیّت کے لیے دہلی گئے تھے۔ بعدازاں وہ پُل چرخی جیل میں ڈھائی سال تک مقیّد بھی رہے۔( جس کے لیے وہ مرتضیٰ بھٹّو کو ذمّے دار قرار دیتے ہیں)۔
بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کو قریب سے دیکھا، اُن کے ساتھ کام کیا۔یوں اِس کتاب کے بیش تر مواد کے تو وہ عینی شاہد ہیں۔ پی ایل او سے اسلحہ کس طرح لیا گیا اور پھر اُسے افغانستان سے پاکستان کیسے منتقل کیا گیا۔ضیاء الحق کے جہاز پر میزائل کس نے اور کیسے داغے، اُنھیں بھارت میں قتل کرنے کا پلان کیا تھا، چوہدری ظہور الہٰی کا قتل کیسے ہوا، ہائی جیکنگ کا منصوبہ کب، کہاں اور کس نے بنایا، ایک اور جہاز کے اغوا کا منصوبہ کیوں کام یاب نہ ہوسکا، آپس کی لڑائیوں میں کون کون سے کارکنان مارے گئے،’’ را‘‘ اور دیگر ممالک کے خفیہ اداروں کا کیا کردار رہا، تربیتی کیمپس کہاں اور کس نے قائم کیے، مالی معاونت کون فراہم کرتا تھا، اندرا گاندھی نے کس نوعیت کی سرپرستی کی، اِس طرح کے بہت سے معاملات کی تفصیلات دی گئی ہیں۔
کتاب کا دوسرا اہم پہلو بھٹّو خاندان کی سیاسی جدوجہد اور سیاسی و سماجی رویّوں سے متعلق ہے۔چوں کہ مصنّف کا اِس خاندان سے گہرا تعلق رہا ہے، اِس لیے اُنھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج قارئین کے لیے پیش کیے ہیں۔اُن کے تجزئیے سے اتفاق تو ضروری نہیں، البتہ یہ پاکستان کے سیاسی نظام اور اشرافیہ کے طور طریقوں کی تفہیم میں معاون ضرور ثابت ہوگا۔
اُنھوں نے مختلف واقعات کی بنیاد پر بھٹّو خاندان کو خاصی تنقید کا بھی نشانہ بنایا ہے، جو یقیناً اِس خاندان کے چاہنے والوں، سپورٹرز کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ تیسری اور آخری بات کا تعلق اسلوبِ نگارش سے ہے۔ مصنّف نے اپنی بات بہت سلیقے سے کی ہے۔ غیر ضروری تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے اندازِ بیان سادہ و دِل کش رکھا ہے۔ حواشی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، البتہ چند ابتدائی ابواب میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں۔