ٹی ایم چوہدری
آج دُنیا بَھر میںپاکستان اور افغانستان ہی وہ دو ممالک شامل ہیں، جہاں پولیو کا مرض بہ دستور موجود ہے۔ گرچہ پاکستان میں انسدادِ پولیو کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن تاحال یہ مرض صحتِ عامّہ کے لیے ایک خطرے کے طور پر موجود ہے بلکہ حالیہ برسوں کے دوران پولیو کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جو اس بیماری کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت اُجاگر کرتا ہے۔
پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ نہ ہونے کی متعدّد وجوہ ہیں، جن میں پُر خطر علاقوں تک پولیو ورکرز کی عدم رسائی اور ویکسین سے متعلق غلط معلومات اور بے بنیاد اطلاعات کا عام ہونا ہے۔ علاوہ ازیں، پولیو سے متاثرہ پڑوسی مُلک، افغانستان سے ملحقہ غیر محفوظ سرحدیں بھی پولیو کے پھیلائو کی ایک اہم وجہ ہیں۔
ایسی صُورتِ حال میں مُلک بَھر سے پولیو کے خاتمے کے لیے ایک کثیر الجہتی طرزِ عمل اپنانا نہایت ضروری ہے۔ اس ضمن میں حکومت اور محکمۂ صحت کے حُکّام کو چاہیے کہ عوام کو پولیو کے خطرات اور ویکسی نیشن کی اہمیت سے متعلق شعورو آگہی فراہم کرنے کے لیےفوری طور پر مُہم شروع کریں اوراس مُہم کے ذریعے اُن غلط فہمیوں اور گُم راہ کُن معلومات کاسدِ باب کیا جائے کہ جن کے سبب والدین اپنے بچّوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین پلانے سے ہچکچاتے ہیں۔
دوسری جانب حکومت کوہیلتھ کیئر کا بنیادی ڈھانچا مضبوط کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں دیہی اور دُور دراز علاقوں میں علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی، ہیلتھ ورکرز کی تربیت اور ویکسین سمیت دیگر طبّی آلات کی دست یابی یقینی بنانی ہوگی۔ علاوہ ازیں، حکومت کو تیکنیکی مہارتوں، فنڈنگ اور وسائل تک رسائی کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں اور تنظیموں ،بشمول ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور یونیسیف کا مکمل اعتماد حاصل کرنے کے لیے بھی کوششیں کرنا ہوں گی۔
یاد رہے کہ مذکورہ تنظیموں نے عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی کوششوں کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ ادارے پاکستان کی جانب سے انسدادِ پولیو کے لیے کی جانے والی کوششوں کو تقویّت فراہم کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب حکومت کو تنازعات کی وجہ سے بعض علاقوں میں پولیو ورکرز کی عدم رسائی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں ہیلتھ ورکرز، ویکسی نیشن ٹیمز، مقامی رہنماؤں اور کمیونیٹیز کو اعتماد میں لینا ہوگا۔
پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے حکومت، محکمۂ صحت، بین الاقوامی شراکت داروں اور عوام کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی اشدضرورت ہے۔ نیز، ہم سب کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ پاکستان میں ہر بچّے کی پولیو سے بچائو کی ویکسین تک رسائی ہو، تبھی ہم مُلک سے پولیو کے مکمل خاتمے اور اپنے بچّوں کے صحت مند مستقبل کو یقینی بنانے کی اُمید کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان 1988ء میں گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو (جی پی ای آئی) کے آغاز کے بعد سے پولیو کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہا ہے، لیکن تاحال ہمیں اس بیماری کے خاتمے کے حوالے سے متعدّد چیلنجز کا سامنا ہے۔
زیادہ خطرناک علاقوں میں پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے 2011ء میں حکومتِ پاکستان نے نیشنل ایمرجینسی ایکشن پلان (NEAP) کا آغاز کیا۔ پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹیو 1994ء میں شروع کیا گیا، جو ویکسی نیشن مُہم، نگرانی اور کمیونٹی کی شمولیت کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں، مُلک بَھر میں ویکسی نیشن کی باقاعدہ مہمات چلائی گئیں اور پولیو کیسز کا پتا لگانے اور متاثرہ بچّوں کی نگرانی کا ایک مضبوط نظام بھی قائم کیا گیا۔
اس دوران انسدادِ پولیو مُہم کے لیے پاکستان کو عالمی ادارۂ صحت (WHO)، یونیسیف اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن سمیت دیگر بین الاقوامی شراکت داروں سے نمایاں مدد ملی۔ گرچہ ان کاوشوں کے خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہوئے، تاہم افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ ان لامتناہی کوششوں کے باوجود پاکستان پولیو کے مرض سے مکمل چھٹکارا پانے میں ہنوز کام یاب نہیں ہوسکا۔ مِن حیث القوم ہمیں اپنی نئی نسل کو عُمر بَھر کی معذوری سے بچانے اور انہیں معاشرے پر بوجھ بنانے سے روکنے کے لیے باہم مل کر ٹھوس اقدامات یقینی بنانا ہوں گے اور ایسے تمام راستے روکنا ہوں گے کہ جن کی وجہ سے پولیو کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ’’ متفرق‘‘
رمضان المبارک، امتِ مسلمہ کے لیے تحفہ(مستقیم نبی راجپوت، نواب شاہ)، کچھ توجہ ادھر بھی (عیشان علی ٹائی فون، کراچی)، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، علم و ادب کا ایک روشن ستارہ (ارشد مبین احمد ایڈووکیٹ، کراچی)، قرآنِ حکیم، فرقانِ حمید کے بارے میں(سید ارشاد عظیم، کراچی)، حضرت بی بی فاطمہؓ(سید جعفر شاہ کاظمی)، نماز کے معاشرتی فوائد (قاضی جمشید عالم صدیقی، لاہور)، دو کریموں کی ملاقات (رابعہ فاطمہ)، مقصد (عائشہ شیخ)، وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر (شیراز عالم مزاری)، واقعہ ٔ معراج، ایمان کی کسوٹی (اشفاق نیاز، سیال کوٹ)، جھیل سیف الملوک کی سیر، کوئٹہ کی سیر (مبشرہ خالد، کراچی)، حضرت مصعب بن عمیرؓ (محمد ریحان، اسلام آباد)، ساکشی صدف (ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی)، مقبول بٹ، ہم تیرے مجرم ہیں (آصف اشرف، راولا کوٹ)، 23مارچ، ایک یادگار دن (اریبہ گل، ملتان)، شبِ قدر اور نزولِ قرآن (دانیال حسن چغتائی، لودھراں)، اے بیت المقدس (ریطہ فرحت)، ذوالفقار علی بھٹو (انور خان،ملتان)، خلاصۂ سورۃ الجرات، حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ (ارسلان اللہ خان، کراچی)، سرصادق محمّدخان عبّاسی (خامس)(نعیم احمد ناز، اوچ شریف)۔