رابعہ فاطمہ
انسان اور نباتات کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے، کیوں کہ جب انسان نے اس دُنیا میں قدم رکھا، تو اپنے اطراف میں نباتات کو پایا۔ انسان نے نہ صرف ان نباتات کو اپنی غذا کے طور پر استعمال کیا بلکہ ان سے کئی بیماریوں کا علاج بھی دریافت کیا۔ یہی وجہ ہے ان کی حفاظت کا ذمّہ بھی انسان ہی پر عاید ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے اوراق میں، چاہے وہ اموی حکومت کے سلاطین ہوں یا مغلیہ دَور کے جاں نشین، مسلمان حُکم رانوں کی جانب سے نباتات کی حفاظت کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔
اگر اموی دَور کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ اموی شہزادے عبدالرحمٰن الدّاخل نے اُندلس میں نباتات کی حفاظت کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے ”حدیقہ نباتاتِ طیّبہ“ کے نام سے ایک ایگری کلچر فارم بنوایا، جہاں ماہرینِ نباتات کو پودوں پر تحقیق اور ان کی افزائش کی مکمل اجازت تھی۔ عبدالرحمٰن الدّاخل نے دیگر ممالک سے درختوں اور پودوں کے بیج اور قلمیں درآمد کروائیں۔ یہی نہیں، بلکہ انہوں نے ایشیائی ممالک کی جانب کئی وفود روانہ کیے تاکہ نایاب پودوں اور جڑی بُوٹیوں تک رسائی ممکن ہو۔
اُنہی کے دَور میں مسلمانوں نے زعفران متعارف کروایا اور اس کی پیداوار اس قدر ہوئی کہ برآمدات تک شروع ہو گئی، جب کہ دوسرے اُموی حکم ران، عبدالرحمٰن ثانی نے قرطبہ کو بہترین چراگاہوں اور باغات سے مزیّن کر کے اسے ’’بغدادِ ثانی‘‘ بنادیا۔ یہی وجہ ہے، عبدالرحمٰن ثانی کا دَور اس حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔ نباتات کی افزائش اور ان کے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے تیسرے اُموی حکم ران، عبدالرحمٰن ثالث نے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں، جن کو تاریخ میں ’’النّاصر‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اُن کی خاص بات ہی یہی تھی کہ وہ علمِ نباتات سے شغف تھے۔
انہوں نے ماہرینِ نباتات پر مشتمل ایک باقاعدہ ٹیم تشکیل دی، جس نے زراعت کے نِت نئے سائنسی طریقے متعارف کروائے۔ مؤرخین کے مطابق، اُس دَور میں زمین کا کوئی ایسا ٹکڑا نہ تھا کہ جو بنجر ہو۔ وادی الکبیر کے درمیان چالیس چالیس میل تک خُشک میوے دار اور پھلوں کے درختوں کی ایک قطار تھی کہ جن کی خوش بُو میلوں تک سفر کرتی تھی۔
اس ضمن میں ’’دُنیا میرے آگے میں‘‘ نامی تصنیف میں محترم مفتی تقی عثمانی رقم طراز ہیں:” عیسائی حُکم رانوں نے اگرچہ اسپین میں مسلمانوں کی نسل کُشی کی، لیکن وہ اس کی دل موہ لینی والی ہریالی کو برقرار رکھنے پر مجبور ہو گئے۔“ اندلس نے کئی ماہرینِ نباتات کو متعارف کروایا، جن میں ابو عبید البکری، ابن محمد الفافقی، ابن السیال، ابن الحجاج، ابن البیطار، ابن بکلارش، ابوالخیر اشبیلی، ابن العوام، ابن الرومیہ اور شریف ادریس جیسے ماہرین شامل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے، ان ماہرینِ نباتات کی تحقیق نے اُندلس کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
جس طرح اُموی حُکم رانوں نے شجرکاری اور نباتات کی حفاظت کے لیے متعدّد امور سر انجام دیے، اسی طرح اس ضمن میں ہمیں تاریخ کے صفحات میں عبّاسی حُکم رانوں کی خدمات بھی نظر آتی ہیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب ہارون الرّشید کے بعد امین الرّشید تخت نشین ہوئے، تو خزانوں کی چھان بین کے دوران عود ہندی کی ایک ہزار ٹوکریاں شمار کی گئیں۔
مامون الرّشید کے دَور میں بھی علمِ نباتات میں ترقی ہوئی۔ ان کے دربار میں بڑے بڑے درختوں کو اس طرح اُگایا جاتا کہ وہ پودوں کی شکل ہی میں پھل دیتے تھے۔ بیرونی وفود جب مامون کے دربار میں حاضر ہوتے، تو انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ عبّاسی دَور میں معتصم باللہ نے بھی نباتات کے حوالے سےگراں قدر خدمات سر انجام دیں۔
انہوں نے جب سامرہ کا شہر آباد کرنے کا حُکم دیا، تو ساتھ ہی ماہرینِ نباتات اور باغ بانی کا تجربہ رکھنے والوں کو تعیّنات کیا تاکہ سامرہ کی بنجر زمین سرسبز و شاداب ہو جائے۔ تاریخ گواہ ہے، اس شہر میں نہریں جاری کی گئیں اور اس بنجر زمین کو سرسبز و شاداب کر دیا گیا۔ مؤرخین کے مطابق عبّاسی دَور میں سائنسی طور پر نباتات کے میں اس قدر ترقّی ہوئی کہ مقتدر باللہ نے مصنوعی درخت بنوایا، جس کو مختلف رنگوں کے ہیرے جواہرات سے مزیّن کیا گیا۔
اُموی اور عبّاسی حُکم رانوں کی طرح مغلیہ حکمران بھی نباتات کے تحفّظ میں پیش پیش رہے۔ مغل بادشاہ، ظہیر الدّین بابر جہاں فتوحات کا شیدائی تھا، وہیں اسے نباتات سے بھی گہری دِل چسپی تھی۔ اس نے اپنی تصنیف، ’’تُزکِ بابری‘‘ میں جا بہ جا مختلف باغات اور پُھولوں کا ذکر کیا ہے۔ تُزکِ بابری میں انگور، سیب اور آلوچے کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ اسی طرح مغل شہنشاہ، جہاں گیر اپنی تصنیف، ’’تُزکِ جہانگیر‘‘ میں اپنے والد، اکبر کے دَور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”میرے والد کے زمانے میں ہندوستان میں ولایتی پھل دست یاب نہیں ہوتا تھا، چناں چہ اس کے پودے منگوا کر لگوائے گئے اور وہ پھل یہاں بھی ملنے لگے۔
انگور کی مختلف اقسام کی پیداوار ہوئی، انناس اور آگرہ میں گل افشاں کی پیداوار کثرت سے ہونے لگی۔ یہی نہیں، بلکہ سہرو، چنار، بید مولا بھی کثرت سے پائے جانے لگے۔ صندل کا درخت بھی، جو جزائر میں پایا جاتا تھا، ہندوستان میں اس کی پیداوار کو یقینی بنایا۔“
مغل بادشاہوں کی یادگاریں اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ انہوں نے باغ بانی کو عروج بخشا۔ انہوں نے اپنے عہد میں طرح طرح کے باغات متعارف کروائے۔ ہندوستان اور افغانستان میں موجود عمدہ قسم کے باغات مثلاً باغِ وفا، چار باغ، باغِ گُل افشاں، آرام باغ اور نیلوفر باغ ان کے نباتات سے گہرے لگاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ابو الفضل مغل حُکم رانوں کے اس کمال کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”ہندوستانی پھولوں کے علاوہ ایرانی اور تورانی پُھول بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں، جن میں بنفشہ، کبود، یاسمین، ریحان، سوسن، رعنا، زیبا، شقائق، تاجِ خروس اور خطمی وغیرہ شامل ہیں۔“
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حُکم رانوں نے جس علاقے کو بھی فتح کیا، وہاں باغات کی حفاظت اور اُن کی افزائش کو اپنا فرض سمجھا۔ نیز، بنجر زمینوں کو آباد کرکے انہیں مثلِ جنّت بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی مؤرخین بھی مسلمان حُکم رانوں کی ان کاوشوں کے گُن گاتے ہیں۔