• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شدت پسند دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں لیکن ہمیشہ انکی تعداد قلیل اور اثر پذیری محدود ہوتی ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق ایک مخصوص دائرے میں زندگی بسر کرتے ہیں لیکن انکے افکار سے عمومی معاشرے کو خطرات لاحق نہیں ہوتے۔ تشویشناک صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ اس پر اثر انداز ہو کر معاشرے میں اپنے وجود کے متعلق ایک دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کچھ اسی طرح کی شدت پسندی سے دوچار ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے شدت پسندی کے عفریت کا سامنا کر رہا ہے۔ اس نے ریاست کے جسم پر گہرے گھاؤ لگائے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے اسی شدت پسندی کو ریاستی چھتری تلے فروغ بھی دیا گیا تھا۔ قانون کی کمزوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شدت پسند گروہ کسی پر بھی مذہب کی توہین کا الزام عائد کرتے ہیں اور اسکی آڑ میں بے گناہ لوگ جلا کر راکھ کر دیے جاتے ہیں۔ سیالکوٹ کا واقعہ ہو یا مشال خان کا واقعہ، سرگودھا مجاہد کالونی کا سانحہ ہو یا پھر حالیہ سانحہ سوات، یہ سارے واقعات ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ بلا شبہ توہین مذہب ایک سنگین جرم ہے اور کسی طور پر بھی اسکی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی لیکن اس جرم کی سزا کیلئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں اور عدالتوں کو ہی ان فیصلوں کا اختیار ہے۔ کسی مشتعل ہجوم کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ توہین مذہب کی آڑ میں قانون اپنے ہاتھ میں لے۔ ایک طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہمارے عوام چاہے مذہب کی تعلیمات پر عمل کریں یا نہ کریں، وہ جھوٹ بولیں، دھوکہ دہی کریں، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں، ماؤں بہنوں کا حق غصب کریں، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کریں، جعلی ادویات فروخت کریں، ایک دوسرے کی زندگی عذاب کردیں، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جونہی وہ یہ سنتے ہیں کہ فلاں جگہ پر توہین مذہب ہوئی ہے تو وہ لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مسلح ہو کر خود ’’انصاف‘‘ کرنے نکل پڑتے ہیں۔ دوسری طرف ریاست نے بھی اس سنگین مسئلے پر گویا آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ عدالتیں بھی انصاف فراہم کرتے وقت مشتعل ہجوم کے جذبات کا خیال رکھتی ہیں۔ ریاست پاکستان روز بروز اپنا وقار کھو رہی ہے۔ جنہوں نے اس ریاست کو رہنے کے قابل بنانا تھا وہ’’دیگر امور‘‘میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ سیاستدان آپس میں دست و گریباں ہیں اور جب ریاست کی رٹ اور اسکی ساکھ آخری دموں پر ہے، غداری، حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ سر عام جاری کرنے اور مخصوص بیانیہ عوام کے دل و دماغ میں راسخ کرنے کا کام جاری ہو تو اسکے نتائج وہی سامنے آتے ہیں،جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں شدت پسندی کا جن یک دم بے قابو نہیں ہوا۔ ہمارا یہ خطہ تو مذہبی رواداری کی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے اور یہ سماج صدیوں سے کسی مذہبی و مسلکی تفریق کے بغیر ایک ساتھ رہتا چلا آیا ہے۔ آج بھی عمومی مزاج شدت پسند رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔لیکن 1980 ء کی دہائی میں جب دوسروں کی جنگ میں ہم نے اپنے ملک کو جھونک دیا تو پوری پاکستانی سوسائٹی شدت پسندی کے اندھے کنویں میں جاگری۔ دونوں عالمی طاقتوں نے اپنی جنگ لڑنے کیلئے اس خطے کا انتخاب کیا اور دو ہاتھیوں کی لڑائی میں اس خطے کی برداشت اور رواداری کی روایت کچل دی گئی۔ آج مٹھی بھر لوگ، معاشرتی سوچ پر غالب آتے جا رہے ہیں۔ صرف مذہبی شدت پسندی ہی تشویش ناک نہیں بلکہ عمومی طور پر بھی معاشرتی رجحان اسی طرف مائل ہے۔اگر ہم سوشل میڈیا کو دیکھیں تو سیاسی کارکنان ایک دوسرے کیخلاف ایسی پوسٹیں کرتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ عام لوگ نفرت کرتے ہیں تو انتہا کی طرف چلے جاتے ہیں۔معاشرے میں عمومی طور پر بھی برداشت کا عنصر دن بدن کم ہو رہا ہے۔معمولی تلخ کلامی پر جان لینا یا جان دینا معمول بن گیا ہے۔رواداری، محبت،صبر،برداشت، تحمل، یہ عناصر تو معاشرے سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔شدت پسندی کی اس فضا کو پروان چڑھانے اور پاکستانی معاشرے کو انتہا پسندی کے کنویں میں دھکیلنے میں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ان عناصر کیخلاف کارروائی کرنے میں ہماری جمہوری حکومتیں ہمیشہ تذبذب کا شکار رہیں اچھے طالبان اور برے طالبان کی اصطلاح بھی سنی گئی بعد از خرابی بسیار، کہا گیا کہ اب کوئی اچھا یا برا نہیں بلکہ سب کو ایک ہی پیمانے میں ناپا اور تولا جائیگا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔شدت پسندی نے ہماری سیاحت کی انڈسٹری تباہ کر دی ہے،بیرونی انویسٹمنٹ کے راستے روک دیے ہیں، صحتمند بحث مباحثہ دم توڑ چکا ہے،علمی مباحث ختم ہو چکے ہیں،جو بھی بولتا ہے مناظرے اور مجادلے کی زبان میں بات کرتا ہے،کوئی لکھتا ہے تو انگارے ہی بکھیرتا ہے، کوئی بولتا ہے تو اس کی زبان شعلے اگل رہی ہوتی ہے اور سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ معاشرے کا کوئی طبقہ اس آگ پر پانی ڈالنے کیلئے سنجیدہ کوشش کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس عفریت پر قابو پانے کیلئے معاشرے کے تمام طبقات کو یکجا کریں، اپنے نصاب تعلیم کو بہتر بنائیں،ایک قومی بیانیہ تشکیل دیں،خارجہ پالیسی کو ملکی اور قومی مفاد کے تحت تشکیل دیں،شدت پسندی کیخلاف جنگ محض ہتھیاروں اور انتظامی اقدامات سے نہیں جیتی جا سکتی بلکہ جب تک سماج کی گہرائیوں میں موجود منفی ذہنیت کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاتا تب تک شدت پسند گروہ جنم لیتے رہیں گے اور ہمارا یہ معاشرہ جہنم بنتا رہے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین