اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنی ذات میں ایسا کامل اور مکمل بنایا کہ آپ ﷺ کی صحبت و تربیت میں رہنے والے بھی دنیا کے تمام انسانوں میں ممتاز مقام کے حامل بن گئے۔ اس عظیم لا زوال شاہ کار کی حسین ایمانی فکراور جلوہ تابانیاں صدیاں گزرنے کے بعد بھی ماند نہیں پڑیں۔
گویا ہر گل میں، ہر شجر میں محمدﷺ کا نور ہے۔ مفسر قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی نے سورۂ فتح کی آخری آ یت کے اس حصے ’’اور آپس میں نرم دل‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ’’تمام صحابہؓ ایک دوسرے پر ایسے مہربان ہیں، جیسے باپ بیٹے پر یا مہربان بھائی اپنے سگے بھائی پر مہربان ہوتا ہے، خصوصاً حضرت عثمان غنی ؓتما م صحابہ میں ایثار کے پیکر اورحد درجہ مہربان تھے۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو بیر رومہ کو خرید کر عام مسلمانوں کے لیے وقف کردے، اس کے لئے جنت کی بشارت ہے، اس موقع پر حضرت عثمان ؓ نے جو د و سخا کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے زرکثیر سے خرید کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے وقف کردیا۔
حضرت عثمان غنی ؓ کی ذات والاجامع القر آن ہونے کے ساتھ کامل الحیاء والا یمان بھی ہے، جیسا کہ معروف تاریخی خطبات میں سناجاتا ہے۔ آپ کی ذاتِ والا کی ایک اور ممتازو منفرد صفت حیا ہے، خاتم النبیینﷺ کی ایک نہیں دو بیٹیاں سیدہ رقیہؓ اور سیدہ امّ کلثوم ؓیکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں، اس لئے آپ کو ذوالنّورین بھی کہا جاتا ہے۔ فرمان نبویؐ ہے، ہر دین کا ایک امتیاز ہو تا ہے، میرے دین کا امتیاز شرم و حیاء ہے۔ ایک مقام پر فرما یا، ایمان کا دارو مدار حیا پر ہے۔
حضوراکرم ﷺ نے حضرت عثمان غنی ؓ کے حوالے سے ارشاد فرمایا ’’ کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں، جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔(مسلم شریف) حضرت عثمان غنیؓ کا مقام کیا ہی بلند و بالا اور عظمت والا ہے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے، یہاں تک کہ سیدالانبیاء حضور اکرم ﷺبھی آپ سے حیا فرماتے۔
ارشاد ربانی ہے:’’بھلا جو شخص عبادت میں بسر کرتا ہےرات کی گھڑیاں، کبھی سجدہ کرتے ہوئے کبھی کھڑے ہوئے،ڈرتا ہے آخرت سے اور امید رکھتا ہے اپنے رب کی رحمت کی۔‘‘ (سورۂ زمر)بقول حضرت ابن عمرؓ یہ آیت حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے حق میں نازل ہوئی۔ آپ نمازِ تہجد کے بہت پابند تھے، اس وقت آپ اپنے کسی خادم کو بیدار نہ فرماتے اور تمام کام اپنے دستِ مبارک سے انجام دیتے تھے۔
امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ جب کسی قبرکے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے تھے کہ آپ کی ریشِ مبارک آنسوؤں سے تر ہوجاتی۔ کسی نے پوچھا کہ آپ جنت اور دوزخ کے تذکرے سے اتنا نہیں روتے اور قبرکو دیکھ کر اس قدر روتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا، ’’رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’بلاشبہ ،قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔
سو اگر قبر کی مصیبت سے کسی نے نجات پالی تو اس کے بعد کی سب منزلیں (حشر و حساب اور پل صراط وغیرہ) آسان ہیں اور اگر اس کی مصیبت سے نجات نہیں پائی تو اس کے بعد کی سب منزلیں اس سے بھی زیادہ سخت ہیں اور رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ قبر سے زیادہ بُرا اور مصیبت والامنظر میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔‘‘(جامع ترمذی،سُنن ابنِ ماجہ)
آپ نے اپنے عہد خلافت میں قر آن پاک کو عربی زبان کی معروف دبستان قریشی رسم الخط میں جمع کرکے تمام بلادِ اسلامیہ میں بھیجا اور اسی لہجے اور رسم الخط پر آج بھی قرآن کریم امت میں محفوظ ہے جو آپ کے دینی و مذہبی کارناموں میں ایک لازوال کارنا مہ ہے۔ دین اسلام کی سربلندی کے لیے آپ کی سر گرمیاں دشمنانِ اسلام کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔
وہ سمجھتے تھے کہ رسول مقبول ﷺ کے نائب و خلیفہ کی زندگی کا چراغ گُل کیے بغیر مسلمانوں کی صفوں میں افترا ق و انتشار پیداکر نا اور اسلام و مسلمانوں کی سرگرمیوں کو روکنا ناممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے پہلے مسجد نبویؐ میں آپ پر حملہ کیا گیا، لیکن حملہ ناکام رہا،پھر باغیوں نے قصرِ خلافت کو گھیر لیا، حتیٰ کہ خوراک پانی وغیرہ کی فراہمی بھی روک دی۔ گھر کا محاصرہ کر لیا۔باہر سے حضرت عثمانؓ کا کوئی رابطہ نہ رہا۔بعض روایات میں اس محاصرے کی میعاد سات روز اور بعض میں چالیس روز بتائی گئی ہے۔
آپ چاہتے تو اپنے دفاع کے لیے لشکر اسلام کو کا م میں لاسکتے تھے ۔اتنی بڑی اسلامی مملکت اور اتنی بڑی مسلح فوج، مگر آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کا خون بہایا جائے۔ دشمنوں نے جب دیکھا کہ دروازے پر ایسا سخت پہرہ ہے کہ اند ر پہنچنا بہت مشکل ہے، تو انہوں نے حضرت عثمان غنیؓ پر تیر چلانا شروع کیا جس میں سے ایک تیر حضرت امام حسن ؓ کو لگ گیا اور آپ زخمی ہوگئے۔
ایک تیر مروان کو بھی لگا، محمد بن طلحہ بھی زخمی ہوگئے، ایک تیر حضرت علیؓ کے غلام قنبر کولگا جس سے وہ بھی زخمی ہوگئے ،دشمن نے جب ان لوگوں کو زخمی دیکھا تو انہیں خوف لاحق ہو اکہ بنی ہاشم اگر حضرت حسنؓ اور دوسرے لوگوں کو زخمی دیکھ لیں گے تو وہ بگڑ جائیں گے، اس طرح ایک نئی مصیبت پیدا ہوجائے گی، لہٰذا انہوں نے دوآدمیوں کے ہاتھ پکڑکر ان سے کہا کہ اگر بنی ہاشم ا س وقت آگئے اور انہوں نے حضرت حسنؓ کو زخمی حالت میں دیکھ لیا تو وہ ہم سے الجھ پڑیں گے اور ہمارا سارا منصوبہ خاک میں مل جائے گا، لہٰذا ہمارے ساتھ چلو ہم پڑوس کے مکان میں پہنچ کر (حضرت)عثمانؓ کے گھر میں کود پڑیں گے اور انہیں قتل کر دیں گے۔
اس گفتگو کے بعد وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمرا ہ ایک انصاری کے مکان میں گُھس گئے اور وہاں سے چھت پھاند کر حضرت عثمانؓ کے مکان میں پہنچے،ان کے پہنچنے کی دوسرے لوگوں کو خبر نہ ہو ئی، اس لیے کہ جو لوگ گھر پر موجو د تھے، وہ چھت پر تھے، نیچے امیر المؤمنینؓ کے پاس صرف ان کی اہلیہ نائلہؓ بیٹھی ہوئی تھیں، سب سے پہلے محمد بن ابوبکر نے حضرت عثمان غنیؓ کے پاس پہنچ کر ان کی داڑھی پکڑلی تو امیر المومنین نے ان سے فرمایا۔ اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ تجھے میرے ساتھ ایسی گستاخی کرتے ہوئے دیکھتے تو وہ کیا کہتے؟ اس بات کو سُن کر محمد بن ابو بکر نے ان کی داڑھی چھوڑ دی، لیکن اسی درمیان میں اس کے دونوں ساتھی آگئے جو امیر المؤمنین پر جھپٹ پڑے اور انہیں نہایت بےدردی کے ساتھ شہید کردیا۔ آپ کی مظلومانہ شہادت اسلامی تاریخ کا ایک درد انگیز باب ہے۔