عمران احمد سلفی
ارشادِ ربانی ہے! اور جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اورانصار میں سے بھی اور جن لوگوں نے (یعنی بعد میں آنے والوں نے) نیکو کاری (اخلاص) کے ساتھ ان کی پیروی کی۔ ﷲ ان سے راضی ہے اور وہ ﷲ سے راضی ہیں اور اس نے (یعنی ﷲ نے ) ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ( اور وہ) ہمیشہ ان میں رہیں گے۔
یہ بہت بڑی کامیابی ہے ( سورۃ التوبہ) مندرجہ بالاآیت کریمہ میں خالق کائنات نے محبوب کائنات محمد ﷺکے تمام جاں نثار ساتھیوں کی عظمت و شوکت کی شہادت دیتے ہوئے جہاں ان کے ایمانوں کی تصدیق فرمائی، وہیں ان پاک باز ہستیوں سے اپنی رضا مندی و خوشنودی کا بھی اظہار فرما دیا ،تاکہ کسی ذہن میں صحابہ کرام رضوان ﷲ اجمعین کے متعلق کوئی شک شبہ باقی نہ رہے۔
یوں تو تمام صحابہ کرامؓ ہی آسمان نبوت کے چمکتے ستارے ہیں، البتہ بدری صحابہ ؓ جنہوں نے پہلے معرکہ حق و باطل یعنی غزوۂ بدر میں حصہ لیا ،ان کا مقام نہایت افضل و اعلیٰ ہے۔ ان نفوس قدسیہ میں سابقون الاولون کو انتہائی قدر و منزلت حاصل ہے، جیسا کہ مندرجہ آیت کریمہ میں وضاحت کی گئی ہے۔
سیدنا عثمان بن عفان ؓ تیسرے خلیفہ راشد سابقون الا ولون میں چوتھے فرد جنہوں نے اسلام کے دامن سے وابستگی اختیار کی۔ قریش مکہ کی ممتاز شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ واقعہ فیل کے چھٹے سال مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اعلان نبوت کے وقت اہل مکہ میں صرف ۷۰ افرد پڑھنا لکھنا جانتے تھے جن میں آپ کا بھی شمار ہو تا تھا۔
آپ کاپیشہ کپڑے کی تجارت تھا۔ صداقت دیانت راست بازی اور غرباء و مساکین وغیرہ کی امداد کی وجہ سے آپ کا لقب غنی ہو گیا۔ آپ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی تبلیغی کاوشوں سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ شرم و حیا سخاوت و فیاضی میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ قبول اسلام کے بعد اپنا تمام مال و متاع ﷲ کے دین کی سر بلندی اور اطاعت رسول ﷺ کے لیے وقف کر دیا۔
آپ کے ذاتی اوصاف حمیدہ کی بناء پر امام کائنات علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے اپنی دوسری لخت جگر سیدہ رقیہ ؓ کا عقد سیدنا عثمان غنی ؓ سے فرما دیا جن سے ایک صاحبزادہ عبد ﷲ تولد ہوئے جو صغر سنی میں ہی داربقا کو روانہ ہو گئے، اس لئے آپ کی کنیت ابو عبد ﷲ ہوئی۔
نیز آپ نے حکم مصطفویﷺ کے مطابق اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ دو مرتبہ ہجرت کی۔ پہلی حبشہ اور دوسری مدینہ منورہ کی جانب جو محبوب رب العالمین ﷺ کی مصاحبت میں آپ کا دائمی مسکن ٹہرا کہ آپ نے ساری زندگی اور بعد از شہادت جنت البقیع میں آسودۂ خاک ہو کر تا قیامت دامن مصطفیٰ ﷺ سے وابستگی کو امر کر دیا۔ سیدنا عثمان ؓ نے غزوۂ بدر کے سوا تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔
اہل ایمان مہاجرین و انصار مدینہ منورہ کی نوزائیدہ نظریاتی مملکت میں ابھی صحیح طور بسنے نہیں پائے تھے کہ میٹھے پانی کی قلت کا سامنا در پیش ہوا۔ مضافات مدینہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو اپنی عداوت کے سبب اہل اسلام کو پانی فروخت کرنے میں طرح طرح کی تکالیف پہنچایا کر تا، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی مومن اہل اسلام کے لیے اس کنویں کو خرید کر وقف کر دے تو میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔
سیدنا عثمان غنی ؓ نے ۱۲ ہزار درہم میں پہلے نصف بعد ازاں بقیہ آدھا کنواں یہودی سے ۸ ہزار درہم میں لے کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ اسی طرح زبان وحی ترجمان سے غزوۂ تبوک کے موقع پر جب سیدنا عثمان ؓ نے ستر ہزار درہم ایک ہزار اونٹ ستر ہزار گھوڑے، سات سو اوقیہ چاندی اور بعض روایات کے مطابق ایک ہزار درہم نقد پیش کئے تو ایک مرتبہ پھر جنت کی بشارت ملی۔
سیدنا عثمان ؓ کو ﷲ تعالیٰ نے اوصاف حمیدہ سے متصف کیا تھا۔ خشیت الٰہی اور قیامت کا خوف بہت زیادہ تھا۔ حب رسول ﷲﷺاور ادب و احترام نبویﷺ بھی حد درجہ کمال پر تھا۔ اتباع سنت کا التزام رکھتے اور فیاضی تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ شرم و حیا میں بے مثل تھے۔
تواضع اور صبر و تحمل کا عالم یہ تھا کہ غلاموں اور لونڈیوں کی موجودگی کے باوجود تہجد کے وقت انہیں نہ جگاتے، بلکہ خود ہی پانی لے کر وضو کر لیتے اور فرماتے یہ ان کے آرام کا وقت ہے ،کیوں زحمت دی جائے ۔ سادگی، خود داری، تقویٰ، طہارت، انفاق فی سبیل ﷲ میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔
آپ ؓ کے دور خلافت میں اسکندر یہ کی بغاوت کچلی گئی اور اسے دوبارہ فتح کیا گیا۔ لیبیا اور تیونس ، طرابلس کے بعد مراکش اور الجزائر فتح کئے گئے۔ اسی طرح قبرص، اوڈوس اور جزیرہ صقلیہ کو رومیوں سے فتح کیا۔ ایران میں یزد گرد کی بغاوتیں کچلی گئیں۔ عبد ﷲ بن عامر ؓ گورنر بصرہ نے سخت جنگ کے بعد دوبارہ فارس پر قبضہ کر لیا۔
اسی طرح انہوں نے ۳۰ ھ میں طبر ستان ، خراسان، ہرات، سیستان اور کابل فتح کر لیا اور نیشا پور تک جا پہنچے۔ آپ ؓ نے اپنے دور میں مدینہ منورہ کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک رکھنے کی کوشش کی ۔ ۲۹ ھ میں مسجد نبوی سے ملحقہ زمین خرید کر مسجد میں توسیع کی۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ امت کو ایک قرأت قرآن پر جمع کرنا تھا جس کی وجہ سے سیدنا عثمان ؓ کو جامع القرآن بھی کہا جا تا ہے ۔امن و خوشحالی کا دور دورہ تھا اور ایک مکمل فلاحی و رفاہی ریاست قائم تھی۔آپ کی مدت خلافت ۱۲ سال ہے۔ ۶ سال امن سے گزرے تاہم اگلے چھ برس سخت انتشار فتنہ و فساد بر پا رہا۔
سیدنا عثمان غنیؓ سخی تھے اور ذاتی دولت سے عزیز و اقارب کی مدد کرتے جس پر شر پسندوں نے واویلا مچایا اور اقرباپروری کا الزام لگایا۔ مجوسی ایسی حکومت چاہتے تھے جو انہیں زیادہ مراعات دے یہودیوں نے اہل اسلام میں خوب انتشار پھیلایا، ابن سبا کی تحریک نے اس میں بڑا کام کیا۔ مصر، کوفہ اور بصرہ کے لوگ بغاوت کر گئے اور انہوں نے مدینہ منورہ میں شورش برپا کی اور قصر خلافت کو گھیرے میں لے لیا اور آپ کو محصور کر دیا گیا۔ صحابہ کرام ؓنے قلع قمع کرنے کی اجازت چاہی ،تاہم آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں مدینۃ الرسول ﷺمیں خون بہانے والا پہلا شخص نہیں بننا چاہتا۔
باغی ۴۰ دن تک محاصرہ کئے رہے ،یہاں تک کہ وہ بئر رومہ جسے آپ کو جنت کی بشارت ملی اس کا پانی آپ پر بند کر دیا گیا۔ باغیوں کا اصرار تھا کہ آپ خلافت سے دستبر دار ہوجائیں، تاہم آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ اے عثمان، ﷲ تمہیں ایک کُرتا عطا فرمائے گا۔ لوگ تم سے اتروانا چاہیں گے، لیکن تم اسے مت اتارنا، وہ کُرتا یہی بارخلافت ہے جو کسی صورت نہیں اتاروں گا۔
سیدنا علی ؓ نے حسنین ؓ کو پہرے پر مامور کیا تھا، تاہم باغی پچھلی دیوار کو دکراندر داخل ہوئے۔ آپ تلاوت قرآن میں مشغول تھے۔ ظالموں نے آپ کو بے رحمی سے شہید کر دیا جبکہ آپ کی اہلیہ سیدہ نائلہ بھی زخمی ہوئیں۔ ۱۸ ذی الحج ۳۵ ھ کو آپ شہید ہو گئے۔ ظالموں نے اس شخص کی حیانہ کی جس سے فرشتے بھی حیا کرتے تھے۔