ڈاکٹر نعمان نعیم
دامادِ سرورِ کونین ﷺ،خلیفۂ سوم، شہید مظلوم حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ جلیل القدر صحابہؓ میں سے ہیں۔ جامع القرآن سیدنا عثمان بن عفان ؓ کی سیرتِ طیبہ فضائل و مناقب کا ایک روشن باب ہے۔آپ کی پیدائش مکہ معظمہ میں ہوئی۔ آپ کا نسب اس طرح ہے، عثمانؓ بن عفان بن ابی العاص بن امیہّ بن عبد شمس اموی قریشی۔(ابن عساکر) آپ کا ایک لقب ذوالنور ین ہے۔ ذو النور ین کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے نکاح میں نبی علیہ السلام کی یکے بعد دیگرے دو صاحبزادیاں آئیں۔
پہلے آپ کے نکاح میں حضرت رقیہؓ تھیں، جب ان کا انتقال ہوگیا تو آپﷺ نے حضرت ام کلثومؓ کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا۔ حضرت ام کلثومؓ بھی چھ سال بعد وفات پاگئیں۔ آپ اس شرف کی وجہ سے ذو النورین کہلاتے ہیں۔ ایک لقب آپ کا غنی بھی ہے، وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ عرب میں سب سے زیادہ دولت مند تھے، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے فیاض طبع بھی بنایا تھا، چناں چہ آپ نے اپنی فیاضی اور اپنے مال و دولت سے اس وقت اسلام کو فائدہ پہنچایا جب امت میں کوئی دوسرا ان کا ہمسر موجود نہ تھا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ترجمہ: ’’بالحقیق اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہوا جب کہ وہ آپﷺ سے درخت کے نیچے (حضرت عثمان ؓ کا بدلہ لینے تک جہاد کرنے کی) بیعت کررہے تھے، سو اُن کے دلوں میں جو کچھ تھا ،اللہ کو معلوم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر اطمینان نازل فرمادیا اور انہیں لگے ہاتھ ایک فتح دے دی‘‘۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی۔ جب یہ افواہ اڑی کہ قاصد رسولﷺ حضرت عثمانؓ کو کفار مکہ نے شہید کردیا ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے بیعت لی کہ جب تک حضرت عثمانؓ کا بدلہ نہیں لیں گے، واپس نہیں جائیں گے اور آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو عثمان ؓ کا ہاتھ قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیعت پر تمام صحابہؓ کواپنی رضا کا پروانہ عطا فرمایا۔
سورۃ الفتح میں ہے: ’’بلاشبہ جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں ،وہ اللہ سے ہی بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے‘‘۔ اس کے علاوہ خلفائے راشدینؓ، سابقون الاوّلونؓ، کاتبین وحیؓ، مہاجرین صحابہؓ، اہل بدر صحابہؓ اور عام صحابہؓ کے حوالے سے جتنی آیات ہیں، حضرت عثمان ؓ ان سب کا بھی مصداق ہیں، کیوں کہ آپؓ خلیفہ راشد اور سابقون الاولون صحابہ کرامؓ میں سے تھے۔ دوبار دین کی خاطر ہجرت فرمائی اور ہر جہاد میں بھی پیش پیش رہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’عثمانؓ میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار اور سخی ہیں‘‘۔ (ابو نعیم) اس کے علاوہ بھی متعدد مواقع پر حضور اکرمﷺ نے حضرت عثمانؓ کی حیا اور سخاوت کی تعریف فرمائی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: عثمان بن عفانؓ دنیا و آخرت میں میرے رفیق ہیں۔(ابویعلیٰ)
حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور میرا رفیق جنت میں عثمانؓ ہے۔ (ترمذی شریف) حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اول شب سے طلوع فجر تک حضرت عثمانؓ کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہے اور فرماتے تھے۔اے اللہ! میں عثمانؓ سے راضی ہوں تو بھی عثمانؓ سے راضی رہ۔(البدایہ والنہایہ)
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں، امت میں سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے سیدنا حضرت عثمانؓ ہیں۔حضرت علی ؓ نے فرمایا، حضرت عثمانؓ کو ملائے اعلیٰ (یعنی فرشتوں کے مجمع) میں ذوالنورین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ حضرت علیؓ نے ایک موقع پر فرمایا، حضرت عثمانؓ ہم سب سے افضل تھے۔ آپؓ نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر سن کر بڑے افسوس سے فرمایا: اے لوگو! اب تم پر ہمیشہ تباہی رہے گی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان ؓ کو خوب مال عطا فرمایا تھا اور وہ اس مال میں سے بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے، اس لئے اللہ کے رسولﷺ نے آپ کو غنی کا لقب عطا فرمایا۔ ان کی سخاوت کے بے شمار واقعات ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ آئے تو وہاں کا پانی انہیں موافق نہیں آیا، لوگوں کو پیٹ کی تکلیف رہنے لگی۔ شہر کے باہر میٹھے پانی کا صرف ایک کنواں تھا، جسے بیر رومہ کہتے تھے، اس کا مالک ایک یہودی تھا۔ رسول اللہﷺ چاہتے تھے کہ کنواں خرید لیا جائے، تاکہ سب مسلمان اس کا پانی استعمال کریں، لیکن سوال یہ تھا اس کی قیمت کہاں سے آئے؟
رسول اللہﷺ نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ جو شخص بیر رومہ کو خریدے گا، اس کے لیے جنت ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ کنواں خریدنے کے لئے یہودی سے بات چیت کرنے گئے۔ یہودی نے کہا میں کنواں الگ نہیں کرسکتا، کیوں کہ میری کھیتی باڑی اور کھانے پینے کا سب دارو مدار اس پر ہے۔ تمہاری خاطر اس کا آدھا پانی قیمت سے دے سکتا ہوں۔ حضرت عثمان غنیؓ نے بارہ ہزار درہم میں آدھا پانی خرید کر وقف عام کردیا۔
ایک دن یہودی پانی لیتا اور ایک دن مسلمان لیتے۔ مسجد نبویؐ کی توسیع کے لیے نبی اکرمﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: وہ کون ہے جو فلاں زمین کو خریدے اور ہماری مسجد کے لیے وقف کردے، تاکہ اللہ اسے بخش دے، تو حضرت عثمانؓ نے بیس یا پچیس ہزار درہم میں یہ زمین کا ٹکڑا خرید کر مسجد نبویؐ کے لیے وقف کردیا۔
شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے اپنی کتاب ازالۃ الخفاء میں سالم بن عبداللہ بن عمر کی ایک روایت نقل کی ہے کہ تبوک کے سفر میں جتنی بھوک پیاس اور سواری کی تکلیف درپیش آئی اتنی کسی دوسرے غزوے میں نہیں آئی۔ درانِ سفر ایک مرتبہ کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا۔ حضرت عثمانؓ کو معلوم ہوا تو آپؓ نے مناسب سامان اونٹوں پر حضورﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔
اونٹوں کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ ان کی وجہ سے دور سے تاریکی نظر آرہی تھی، جسے دیکھ کر رسول اکرمﷺ نے فرمایا: لوگو! تمہارے واسطے بہتری آگئی ہے، اونٹ بٹھائے گئے اور جو کچھ ان پر لدا تھا اتارا گیا۔ رسول اللہﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا ’’میں عثمانؓ سے را ضی ہوں، اے اللہ! تو بھی عثمانؓ سے راضی ہوجا‘‘ یہ فقرہ حضور ﷺنے تین مرتبہ فرمایا ،پھر صحابہ کرامؓ سےفرمایا، تم بھی عثمانؓ کے حق میں دعا کرو۔(ازالۃ الخفاء)
حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے عہد خلافت میں دو بار مسجد نبویؐ کی توسیع کی، اسی طرح آپؓ نے مسجد الحرام کی بھی توسیع و مرمت کروائی۔حضرت عثمانؓ ہر جمعہ کو ایک اونٹ ذبح کرا کر اس کا گوشت راہ خدا میں غربا کو تقسیم کرتے تھے۔آپ حج کے موقع پر منیٰ میں اپنی طرف سے تمام حجاج کے کھانے کی دعوت فرماتے تھے۔آپ رمضان شریف میں متعدد مقامات مثلاً حرم کعبہ، مدینہ منورہ، کوفہ، بغداد وغیرہ میں کھانے کا انتظام فرماتے تھے۔(بحوالہ حضرت عثمان ذو النور ین صفحہ 24)
لوگوں نے حضرت عمر ؓ کی شہادت سے پہلے آپ سے درخواست کی کہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کردیں۔ پہلے تو آپ تیار نہ ہوئے، مگر لوگوں کے اصرار پر آپ نے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی بنادی۔ وہ یہ تھے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ (نبی اکرمﷺ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت دی ہے)۔ فرمایا کہ ان میں سے کسی ایک شخص کو منتخب کرکے امیر بنالو۔مقدادؓ بن اسود کو حکم دیا کہ جب مجھے دفن کرکے فارغ ہوجائیں تو ان چھ آدمیوں کو ایک مکان میں جمع کرنا، تاکہ یہ اپنے آپ میں سے کسی کو امیر منتخب کرلیں۔
عبداللہ بن عمرؓ کو رائے دینے کے لیے بلا لینا، لیکن امارت سے انہیں کوئی سروکارنہ ہوگا۔ فیصلہ کثرت رائے سے ہوا۔ چناں چہ ان حضرات نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو یہ اختیار دیا کہ وہ جسے چاہیں خلیفہ مقرر کردیں، انہوں نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس طرح حضرت عثمانؓ خلیفہ مقرر ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت کی ابتدا یکم محرم 24ھ سے ہوئی۔
بروز جمعہ بوقتِ عصر روزے کی حالت میں تلاوت قرآن کے دوران18 ذی الحجہ 35ھ کو انتہائی مظلومانہ طریقے سے حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو مدینے میں شہید کردیا گیا۔ شہادت کے وقت قرآن مجید کھلا ہوا تھا اور آپ قرآن کی تلاوت فرمارہے تھے، آپؓ کے جسم اطہر سے نکلنے والے خون کے پہلے قطرے کو قرآن مجید نے اپنے اندر جذب کیا اور اس آیت پر آپ کا لہو مبارک گرا ’’فسیکفیکہمُ اللہ‘‘ (اور اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لیے کافی ہوجائے گا) شہادت سے پہلے آپؓ کی زبان سے یہ آخری کلمہ نکلا۔ ’’بسم اللہ توکلتُ علیٰ اللہ‘‘۔ حضرت زبیرؓ یا حضرت جبیرؓ بن مطعم نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔