مشہور فلسفی دیکارت ایک میخانے میں بیٹھا شراب پی رہا تھا ۔جب تھوڑی دیرگزری تو بار ٹینڈر نے پوچھا ’ کیا آپ مزید پینا چاہیں گے؟‘ دیکارت نے خلا میں گھورتے ہوئے جواب دیا ’میں سوچ رہا ہوں کہ …نہیں !‘ اور پھر غائب ہوجاتا ہے ۔
فرانسیسی فلسفی سارتر پیرس کے کیفے میں بیٹھا اپنی مشہور کتاب ’Being and Nothingness‘ کے مسودے پر نظر ثانی کر رہا تھا ۔اِس دوران اُس نے ویٹرس کو آرڈر دیا کہ ’میرے لیے ایک کافی ، بغیر کریم کے لے آؤ ۔‘ ویٹرس نے ایک نظر کتاب کے عنوان پر ڈالی اور پھر بولی ’معافی چاہتی ہوں موسیو، ہمارے پاس کریم نہیں ہے ، سو بغیر دودھ کے کافی چلےگی ؟‘
آپ میں سے جو لوگ فلسفے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ جان گئے ہوں گے کہ اِن لطیفے نما چٹکلوں میں فلسفیوں کے طرز استدلال پر پھبتیاں کسی گئی ہیں ۔دیکارت کے مشہور زمانہ قول ’میں سوچتا ہوں، اِس لیے وجود رکھتاہوں ‘ یا سارتر کے فلسفہ وجودیت کو اگر تین سطروں میں بیان کرنا ہوتواِن لطیفوں سے بہتر انداز نہیں ہوسکتا ۔فلسفے کی تاریخی عمارت جو بظاہر دلیل کی بنیاد پر کھڑی تھی ، جدید دور کے فلاسفہ کے آنے کے بعد پیسا کے مینار کی طرح کچھ ایسے رکوع میں چلی گئی کہ لگتا ہے جلد ہی سجدے میں گر جائے گی ۔بیسویں صدی کے فلاسفہ نےعلت و معلول کے روایتی مباحث سے ہٹ کر فلسفے کی ایسی نئی جہتیں متعارف کروائیں کہ جنہوں نے فلسفے کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ اِس ضمن میں فوری طور پر جو نام میرے ذہن میں آرہے ہیں اُن میں ژاک دریدہ، مائیکل فوکو اور لُڈوگ وِٹگنسٹائن(Ludwig Wittgenstein) شامل ہیں ۔
لُڈوگ وِٹگنسٹائن کی وجہ شہرت وہ کتاب ہے جو اُس نے زبان کی محدودیت پر لکھی ، کتاب کا نام ہےTractatus Logico - Philosophicus۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ زبان پر تنقید کرنے کے لیے بہرحال وِٹگنسٹائن کو زبان کا سہارا ہی لینا پڑا ،یہ کتاب جرمن زبان میں ہے اور خاصی دقیق اور پیچیدہ ہے ۔اِس کتاب میں وِٹگنسٹائن کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ روایتی فلسفیانہ سوالات اور اُن سے متعلقہ مباحث کو زبان کی محدودیت کی وجہ سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا ،فلسفے کی اِن بحثوں میں جو بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے اسے کبھی بھی درست معنی نہیں پہنائے جا سکتے کیونکہ اِس کام کے لیے ہمیں زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے جبکہ زبان ہمیں وہ معنی فراہم کرنے سے قاصر ہے جو اِن دقیق مسائل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں ۔یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ زبان ،زیادہ سے زیادہ ، سامنے نظر آنے والی دنیا کے بارے میں ٹھوس حقائق کی تصویر کشی کر سکتی ہے، اس سے آگے کی کوئی بھی چیز زبان کے دائرہ کار سے باہر اور بے معنی ہے،کیونکہ ٹھوس دنیا سے الگ جو مسائل ہیں وہ اس قدر پُر پیچ ہیں کہ زبان میں اُن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں جیسے کہ اخلاقیات، جمالیات، مابعدالطبیعات اور مذہب کے مسائل ،چونکہ یہ مباحث دنیاوی حقائق کی ذیل میں نہیں آتے اس لیے ہم ان پر معنی خیز گفتگو نہیں کر سکتے۔وِٹگنسٹائن کا کہنا ہے کہ زبان کی حدود وہاں ختم ہوجاتی ہیں جہاں سے دقیق اور ما بعد الطبیعاتی مسائل کی حدود شروع ہوتی ہیں ، وِٹگنسٹائن کےالفاظ میں کہوں تو :’’میری زبان کی حدود دراصل میری دنیا کی حدود ہیں۔‘‘ گویا الفاظ میں جو کچھ بیان کیا جا سکتا ہے اسی کو ہم حقیقت سمجھ لینے پر مجبور ہیں ، کیا یہ ممکن نہیں کہ حقیقت ایسی بھی ہو جو زبان کی محدودیت کی وجہ سے الفاظ میں بیان ہی نہ کی جا سکتی ہو؟ زبان چونکہ تصاویر کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے اور یہ تصاویر دنیا کے ظاہری حقائق کی نمائندگی کرتی ہیں اِس لیے زبان زیادہ سے زیادہ حقائق اور اُن کے باہمی منطقی ربط کی شرح کر سکتی ہے ، یہ لطیف تجربات ، ما بعد الطبیعات اور جمالیات سے متعلق علم کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔اِس کی وجہ وہی ہے کہ زبان چونکہ حقائق کی مرہون منت ہے لہٰذا جو کچھ بھی زبان کی دسترس سے باہر ہے یا جس کو زبان کے الفاظ بیان نہیں کرسکتے وہ ہماری تجرباتی دنیا کی حدود سے باہر ہی ہوگا،یعنی زبان نے اب تک انہی الفاظ کو معنی پہنائے ہیں جو الفاظ اِس ظاہری دنیا کے حقائق سے متعلق ہیں اور جن کی ہم تصویر کشی کرسکتے ہیں، جس لطیف تجربے کی تصویر کشی ہی نہیں کی جا سکتی اُس کی تفہیم زبان کی مدد سے کرنا ممکن نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وِٹگنسٹائن کہتا ہے کہ گہرے صوفیانہ تجربات کی اہمیت سے محض اِس وجہ سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ انہیں زبان میں ڈھالنا ممکن نہیں ۔بقول وِٹگنسٹائن ’’جو دکھایا جا سکتا ہے وہ کہا نہیں جا سکتا‘‘۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ وِٹگنسٹائن کی کتاب خاصی پُر مغز اور انقلابی نوعیت کے افکار کی حامل ہے ، اِس فلسفی نے کچھ باتیں تو من و عن وہی کی ہیں جو ہمارے صوفیا کرتے آئے ہیں ۔اُن کا استدلال بھی یہی تھاکہ اُن کے لطیف تجربات ایسے ہیں کہ انہیں زبان سے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔اِس کی مثال ایسے ہی کہ اگر کوئی شخص کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر واقع کسی سیارے کی سیر کر آئے اور واپسی پر اُس سے پوچھا جائے کہ کیا وہاں پانی ہے تو شاید وہ جواب دے پائے گا کیونکہ اُس نے زمین پر پانی کا تجربہ کر رکھا ہے لیکن روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے جو تجربہ اُس شخص کو اُس سیارے پر ہوگا اسے درست بیان کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ تو کیا اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا کوئی سیارہ وجود نہیں رکھتا یا ایسا کوئی سفر کرنا ممکن نہیں ؟ ظاہر ہے کہ اِس بات کا جواب نفی میں ہے کیونکہ زبان کی محدودیت کا یہ مطلب نہیں کہ سرے سے اُس تجربے سے انکار کر دیا جائے جسے الفاظ میں قید کرنا ممکن نہ ہو۔میری رائے میں وِٹگنسٹائن کے طرز اِستدلال سے جدید دور کے علم الکلام کے ماہرین کو استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ مذہب ہمیں جن تجربات کے بارے میں بتاتا ہے انہیں بھی انسانی زبان میں ڈھالنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ الہامی کتب کی زبان کی شرح کرتے ہوئے ہم اُن تجربات کو دنیاوی اشکال کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ زیادہ تر اِن کتب کا پیرایہ تمثیلی ہوتا ہے اور اِس کی وجہ وہ زندگی بعد از موت کا موضوع ہے جس کا یہ کتب احاطہ کرتی ہیں ۔ اب چونکہ کسی شخص نے زندگی بعد از موت کا تجربہ ہی نہیں کیا تو اِس لیے انسان کی تخلیق کردہ زبان اُس تجربے کو بیان بھی نہیں کرسکتی ۔میں وِٹگنسٹائن کے فلسفے پر تنقید کرنے کی اہلیت تو نہیں رکھتا کیونکہ جس فلسفی نے کیمبرج میں برٹرینڈ رسل سے تعلیم حاصل کی ہو اُس فلسفی پر میری تنقید کی کیا اہمیت ، تاہم اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ اگر وِٹگنسٹائن کا طرز استدلال درست مان لیا جائے تو پھر ہم فلسفے کے پیچیدہ اور ما بعد الطبیعاتی مسائل کو کبھی حل نہیں کر پائیں گے اور اگر کسی بلا کے ذہین شخص نے کبھی یہ گتھیاں سلجھا لیں تو وہ انہیں ہماری زبان میں بیان نہیں کر پائے گا ۔یہی صوفیا کہتے ہیں !