سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود توہینِ عدالت نوٹس کی سماعت کے دوران فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔
فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کر رہا ہے۔
مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگی تھی، پریس کانفرنس میں بھی ندامت کا اظہار کر چکے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واؤڈا سے سوال کیا کہ آپ کے وکیل نہیں آئے؟ کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے؟
فیصل واؤڈا نے جواب دیا کہ جی! میں نے بھی معافی مانگی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال سے مخاطب ہو کر کہا کہ آئین کے آرٹیکل 66 میں آپ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات کر سکتے ہیں، آپ لوگوں کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہیں، آئندہ اس معاملے میں ذرا احتیاط کریں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مصطفیٰ کمال اور فیصل واؤڈا کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ آپ پارلیمان میں عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، امید ہے آپ بھی ہماری عزت کریں گے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے عوام کو نقصان ہو گا، پارلیمان میں آرٹیکل 66 سے آپ کو تحفظ ہے، باہر گفتگو کرنے سے آپ کو آرٹیکل 66 میسر نہیں ہو گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں از خود توہینِ عدالت نوٹس کی سماعت کے دوران ٹی وی چینلز کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کے کلائنٹس کہاں ہیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 26 چینلز کی جانب سے میں ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے کسی کلائنٹ نے ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کروایا، آپ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ تمام چینلز کے نمائندگان سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چینلز کی جانب سے جواب جمع نہیں کرایا گیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا چکا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جواب پر دستخط وکیل کے ہیں، چینلز کے نہیں، توہینِ عدالت کیس میں چینلز کے دستخط ہونا لازمی ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ شوکاز نوٹس ہوتا تو جواب چینلز کے دستخط سے جمع ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا آپ کو آئین پسند نہیں؟ میں سمجھا آپ آئین سے بات کا آغاز کریں گے، کوئی کسی کو چور ڈاکو کہے اور میڈیا کہے ہم نے صرف رپورٹنگ کی ہے، کیا یہ درست ہے؟ کیا ایسے آزاد میڈیا کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہارِ رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ صحافت میں آزادیٔ اظہارِ رائے کی وضاحت 200 سال سے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ 200 سال سے کیوں؟ 1400سال سے کیوں شروع نہیں کرتے؟ آپ کو 1400سال پسند نہیں؟ 200 سال کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ تب امریکا آزاد ہوا؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں 200 سال کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ آئین کا آغاز بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے ہو رہا ہے، آئین میں کہاں ماڈرن ایج کا ذکر ہے؟ آپ نے بطور ٹی وی چینلز ان کی گفتگو پھیلائی، آپ ان پر توہین کی تہمت لگا رہے ہیں، خود کہتے ہیں کہ کچھ نہیں کیا، بیرونِ ممالک میں تو پریس کانفرنس لائیو نہیں دکھائی جاتی، وہاں پریس کانفرنس سن لی جاتی ہے پھر کچھ مواد کاٹ لیتے ہیں، اب آپ امریکا کی مثال نہیں دیں گے، آپ نے خود مان لیا توہین ہوئی ہے پھر آپ کو نوٹس کر دیتے ہیں، یہ تو اب آپ کے اعتراف پر توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی۔
وکیل فیصل صدیقی نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو جواب دیا کہ مجھے آپ پر پورا اعتبار ہے، آپ جو بھی فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں سرٹیفکیٹ نہ دیں، کیا یہ آئینی دلیل ہے کہ آپ پر پورا اعتبار ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ چینلز کے دستخط سے جواب دیں تو دے دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کھیل کھیلیں گے تو آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہم بھی پھر آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔
اس کے ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ فیصل صدیقی! اس جواب پر آپ کے دستخط ہیں؟ ہم آپ کو بھی توہینِ عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اس جواب کی مکمل ذمے داری لیتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے خود کہا کہ کم از کم ایک پریس کانفرنس تو توہین آمیز تھی۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں نے بادی النظر میں توہین کہا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے بادی النظر کا ایسا کچھ نہیں کہا ایسا مت کریں۔
وکیل فیصل صدیقی نے چیف جسٹس پاکستان کو دوبارہ جواب دیا کہ میں نے کہا تھا کہ بادی النظر میں توہین ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے جواب میں لکھا ہے کہ آپ پریس کانفرنس میں کہی گئی باتوں سے متفق نہیں، پریس کانفرنس نشر کرتے وقت آپ نے ساتھ لکھا تھا؟ آپ وہ بات جواب میں کیوں لکھ رہے ہیں جو کی ہی نہیں، پریس کانفرنس کرنے والے دونوں نے آ کر کم از کم کہا کہ غلطی ہوئی، ہم بھی اپنی غلطی مانتے ہیں، آپ نہیں مانتے، آپ نے جواب میں کہا کہ آپ کی ڈیوٹی ہے پریس کانفرنس کور کرنا، پاگل خانے میں کوئی پاگل پریس کانفرنس کرے وہ کور کرنا آپ کی ذمے داری ہے؟پریس کانفرنس کرنے والے کہہ رہے ہیں ان سے غلطی ہو گئی، مگر آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا فرض ہے نشر کرنا۔
جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ کوئی بھی شخص آ کر کہہ دے کہ میں عوام کا نمائندہ ہوں تو آپ اسے نشر کریں گے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ کہاں سے کر رہے ہیں؟ پیمرا سے یا کسی بین الاقوامی کنونشن سے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ حقائق اور سچ میں فرق ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ میں آج آپ سے نئی بات سیکھوں گا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں کہاں آپ کو کچھ بھی سکھا سکتا ہوں، سچ کا تناظر وسیع ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ ہمارے سامنے کھڑے ہیں، یہ حقیقت ہے یا سچ؟ بال کی کھال اتارنے جیسی بات کر رہے ہیں، صدیقی صاحب! وکیل نے اپنے کلائنٹ کا مفاد دیکھنا ہوتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں چینلز کے دستخط والا جواب جمع کروا دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بڑے احسان والی بات ہو گی ناں، ہم آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہمیں نہ بتائیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے، کس قانون میں لکھا ہے کہ آپ نے پریس کانفرس براہِ راست ہی نشر کرنی تھی، سارا دھندا پیسے کا ہے، ایمان، نیت، اخلاق و تہذیب کا نہیں، ایسا بھی نہیں ہوا کہ ایک بار غلط بات کہنے پر پریس کانفرنس کو کاٹ دیا ہو، اب آزادیٔ اظہارِ رائے کے تحت بتائیں کہ اس پریس کانفرنس سے کتنے پیسے کمائے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں کلائنٹس سے ہدایات لے لیتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ایک ایک سے بلا کر پوچھ لیتے ہیں۔
اس موقع پر ڈائریکٹر نیوز ’جیونیوز‘ رانا جواد روسٹرم پر آ گئے، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے کتنی بار وہ پریس کانفرنس چلائی؟ کتنے پیسے بنائے؟
ڈائریکٹر نیوز ’جیو‘ رانا جواد نے جواب دیا کہ 11، 12 بلیٹن میں وہ پریس کانفرنس چلی، پیسوں کا نہیں پتہ، میں صرف ایڈیٹوریل دیکھتا ہوں، فنانس نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں تو خود توہینِ عدالت کی کارروائی پر یقین نہیں رکھتا، ساتھی جج نے کمرۂ عدالت میں بات کر دی تھی جس کے بعد کارروائی شروع کرنا پڑی، ٹی وی چینلز کی جانب سے آپ کا جواب جارحانہ ہے، آپ جواب میں پریس کانفرنس کو توہین کہہ کر اسے نشر کرنا اپنا حق بھی کہہ رہے ہیں، یہ فساد فی الارض کی بات ہے اور اب ہمارا فرض ہے کہ کچھ کریں۔
جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ ٹی وی چینلز آج بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ آئندہ ذمے داری کا مظاہرہ کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سچ پر تو پیسے نہیں ملتے، بچپن میں جو باتیں گلی محلوں میں سنتے تھے، اب ٹی وی چینلز پر سنتے ہیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر ان لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے جنہیں قانون کا کچھ علم نہیں ہوتا، تبصرے لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے 16 سو فیصلے لکھ چکے ہیں، کوئی میکنزم نہیں ہے تو بنا لیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پریس کانفرنس کچھ دیر بعد نشر کرنے سے معاملات بہتر ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آج تک چینلز کو ایسا خیال کیوں نہیں آیا، اب کیوں آ رہا ہے؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ عام لوگوں کے ذہن پر میڈیا کا بہت اثر ہوتا ہے، آپ نے پریس کانفرنس چلائی، پھر بار بار ٹکرز چلے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تو چاہتے ہیں کہ تماشہ بنے، ورنہ آپ کا کام کیسے چلے گا؟
اس موقع پر عدالتی معاون حافظ عرفات کی جانب سے غیبت، بدگمانی، فاسق کی خبر کی ممانعت میں قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں کوئی شوق نہیں کہ کسی کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کریں، کیا کریں مگر معاشرہ تباہ ہو رہا ہے، میڈیا کی آزادی سے متعلق ہم بہت محتاط ہیں، کورٹ رپورٹنگ کرنے والے معاشرے میں ایک کام کر رہے ہیں، جا کر بتاتے ہیں یہ ہو رہا ہے، اب وہ فیصلے سے پہلے تنقید شروع کر دیں تو کیا کریں؟ کچھ ایسے ہیں جنہیں لگتا ہے کہ انہیں جج کی کرسی پر ہونا چاہیے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا وکیل ٹی وی چینلز کی جانب سے جواب پر دستخط کر سکتا ہے؟
جسٹس عقیل عباسی نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ چینلز کے کنڈکٹ پر آپ کی کیا رائے ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اپنی رائے دینے میں محتاط رہوں گا کیونکہ کارروائی آگے بڑھی تو مجھے پراسیکیوٹر بننا ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر ایسی بات نہ کریں جس سے کیس متاثر ہو، جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے اس کی ذمے داری بھی اتنی ہی ہوتی ہے، چینلز کا مؤقف ہے کہ پریس کانفرنس نشر کرنا بد نیتی پر مبنی نہیں تھا۔
اٹارنی جنرل نے رؤف حسن کی پریس کانفرنس کا حوالہ بھی دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں وہ الفاظ دہرا نہیں سکتا، وہ آپ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے متعلق کہے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ رؤف حسن کے بھائی فواد حسن کو ہم نے ریلیف دیا تھا، کیا انہیں اس بات سے تکلیف ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رؤف حسن کی پریس کانفرنس پر توہینِ عدالت کی درخواست بھی آئی ہوئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اپنے بارے میں کی گئی بات پر کارروائی نہیں کرتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کمشنر راولپنڈی کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بڑا واقعہ بھی تھا جو خوب نشر ہوا، وہ جن صاحب نے کہا تھا کہ مجھے لٹکا دیں، گولی مار دیں، فیصل صدیقی! اپنے کلائنٹس سے مشورہ کر لیں، ہم وقفہ لیتے ہیں۔
اس موقع پر عدالتِ عظمیٰ نے فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا اور دونوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آئین کے آرٹیکل 66 میں آپ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بات کر سکتے ہیں، آپ لوگوں کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہیں، آئندہ اس معاملے میں ذرا احتیاط کریں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مصطفیٰ کمال اور فیصل واؤڈا کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ آپ پارلیمان میں عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، امید ہے آپ بھی ہماری عزت کریں گے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے عوام کو نقصان ہو گا، پارلیمان میں آرٹیکل 66 سے آپ کو تحفظ ہے، باہر گفتگو کرنے سے آپ کو آرٹیکل 66 میسر نہیں ہو گا۔
جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ کیا ٹی وی چینلز غیر مشروط معافی مانگیں گے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہیں رہنے دیں، اس سے لگے گا کہ ہم انہیں معافی کا کہہ رہے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں نیا بیان دینا چاہ رہا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہیں اب ہمیں آرڈر لکھوانے دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ کا مؤقف درست ہے تو ڈٹ کر کھڑے رہیں، آپ خود کو پارلیمان سے بھی بڑا سمجھتے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ میڈیا مالکان اپنے دستخط شدہ جواب جمع کروائیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی کارروائی کا حکم نامہ لکھوا دیا جس میں کہا ہے کہ فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کو جاری شوکاز واپس لیا جاتا ہے، توقع ہے کہ دونوں رہنما اپنے جمع کرائے گئے جواب پر قائم رہیں گے، اگر دوبارہ کچھ ایسا ہوا تو صرف معافی قابلِ قبول نہیں ہو گی۔
سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹسز جاری کر دیے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ شوکاز نوٹس کا جواب چینلز مالکان اور چیف ایگزیکٹیو کے مشترکہ دستخط سے جمع کروائے جائیں، شوکاز نوٹس کے جواب میں پریس کانفرنس سے کمائی کی تفصیل بھی دی جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فصل صدیقی کو ہدایت کی کہ کیس کی تاریخ نہیں دیتے، 2 ہفتوں میں جواب جمع کروا دیں، سماعت کی تاریخ بعد میں رکھ لیں گے۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہینِ عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 26 جون کو سینیٹر فیصل واؤڈا نے توہینِ عدالت کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
فیصل واؤڈا نے سپریم کورٹ میں شوکاز کا نیا جواب جمع کروا دیا جس میں کہا تھا کہ خود کو سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔
انہوں نے عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی کہ میرے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔
جواب میں فیصل واؤڈا نے کہا کہ میری پریس کانفرنس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا تو غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، میری پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین نہیں تھا، عدلیہ کا مکمل احترام کرتا ہوں۔
فیصل واؤڈا نے مؤقف اختیار کیا کہ 5 جون کی عدالتی کارروائی کے بعد مذہبی اسکالرز سے ملاقات کی، مذہبی اسکالرز سے پوچھا کہ ایک سینیٹر کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ مجھے رائے دی گئی کہ انصاف کے ساتھ کھڑے رہیں چاہے یہ بات آپ کے اقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
فیصل واؤڈا کے جواب میں قرآن و احادیث کے حوالہ جات بھی دیے گئے۔
جمع کرائے گئے جواب میں فیصل واؤڈا نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صدقِ دل سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ توہینِ عدالت میں جاری کردہ شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔
انہوں نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت کے بعد انتہائی متاثر ہوا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی تجویز دی کہ معاملہ انا کا نہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واؤڈا اور مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان دینے پر توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔
سینیٹر فیصل واؤڈا نے توہینِ عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کر دیا تھا۔
ان کا جواب 16 صفحات پر مشتمل تھا جو انہوں نے سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔
فیصل واؤڈا نے جواب میں کہا تھا کہ پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین نہیں تھا، پریس کانفرنس کا مقصد ملک کی بہتری تھا، عدالت توہینِ عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے پر تحمل کا مظاہرہ کرے، توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے۔
دوسری جانب عدلیہ مخالف بیان پر ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی۔
اپنے بیانِ حلفی میں مصطفیٰ کمال کی جانب سے کہا گیا تھا کہ بالخصوص اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا دل سے احترام کرتا ہوں، عدلیہ اور ججز کے اختیارات اور ساکھ بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
مصطفیٰ کمال کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدلیہ سے متعلق اپنے بیان پر بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر غیر مشروط معافی چاہتا ہوں، معزز عدالت سے معافی کی درخواست کرتا اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔