پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد حسین چوہدری اور معروف وکیل رہنما جناب حامد خان کے مابین لفظی گولہ باری نے پاکستان تحریک انصاف میں جاری سرد جنگ کو مزید واضح کر دیا ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جب کسی جماعت کا لیڈر پابند سلاسل ہو، اسکا کارکنان اور قائدین کیساتھ براہ راست رابطہ نہ ہو، تو کنفیوژن کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں پر دور ابتلا آئے اور اس میں کئی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، نئی جماعتیں وجود میں آئیں، کئی رہنما پس منظر میں چلے گئے، نئی قیادت ابھر کر سامنے آئی۔ پاکستان پیپلزپارٹی پر ابتلا کا دور زیادہ طویل تھا کئی نامی گرامی رہنما پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہوئے، پیپلز پارٹی کے بطن سے نئی جماعتیں وجود میں لائی گئیں۔ لیکن جونہی محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی جلاوطنی ختم کر کے واپس پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو تمام سیاسی رہنما پس منظر میں چلے گئے اور بھٹو کی بیٹی نے راج کیا۔ یہی کچھ مسلم لیگ نون کیساتھ بھی ہوا جب مشرف کے دور حکومت میں مسلم لیگ نون کی قیادت پس دیوار زندان چلی گئی تو کئی نامی گرامی رہنما اور اسکے ٹکٹ پر ایوانوں کی زینت بننے والے کئی معززین نہ صرف پارٹی چھوڑ گئے بلکہ ق لیگ یا فارورڈ بلاک میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ الگ بات ہے کہ جونہی میاں نواز شریف واپس آئے تو آدھی سے زیادہ ق لیگ اور ’’فارورڈ بلاکیے‘‘ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آئے۔ آج جب پاکستان تحریک انصاف پر مشکل وقت آیا تو اسکی نوعیت ماضی سے بہت زیادہ مختلف تھی۔ماضی میں کسی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے خاندانوں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا، ان کے کاروبار بند نہیں کئے گئے، رہنماؤں کے بچوں کو اغوا نہیں کیا گیا، کسی رہنما سے زبردستی بیان نہیں دلوائے گئے۔ لیکن 9مئی کےافسوسناک واقعہ کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ سب کچھ ہوا جو قبل ازیں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس دور ابتلا میں جہاں کئی مخلص اور عمران خان کے جانثار سپاہیوں کی آواز خاموش کر دی گئی،وہاں پر مصنوعی قیادت سامنے لائی گئی، ایسی قیادت جس کا نہ عوام سے رابطہ تھا اور نہ ہی سیاسی کارکنان سے واقفیت تھی ایسے لوگوں کو ٹکٹوں کا حقدار ٹھہرایا گیا جو مشکل دور میں دور دور تک نظر نہیں آئے تھے لیکن اچانک ’’قدرت‘‘ ان پر مہربان ہوگئی، آج اسی مصنوعی قیادت کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے کہ عمران خان کو قید ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو ہے، شاہ محمود قریشی ناکردہ جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں، ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ پابند سلاسل ہیں، صنم جاوید پنجاب کی مختلف جیلوں میں پیشیاں بھگت رہی ہیں، عمر چیمہ اور اعجاز چوہدری بیماریوں کے باوجود جیلوں میں بند ہیں، لیکن پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت، عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان مصنوعی قائدین نے دور دراز دیہاتی علاقوں میں اپنے اپنے ڈیروں پر چند سو لوگوں کو اکٹھا کر کے فوٹو سیشن اور سوشل میڈیا کے ذریعے احتجاج کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے لیکن انکی کال پر نہ تو تحریک انصاف کا ووٹر باہر نکلا ہے اور نہ ہی عوام نے انکی آواز پر لبیک کہا ہے۔ جناب فواد حسین چوہدری اور چوہدری پرویز الٰہی ان لوگوں کے نمائندہ ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ جنہوں نے سختیوں اور دھمکیوں کے باوجود کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی، فواد چوہدری نے 8 ماہ تشدد برداشت کیا ہے پرویز الٰہی نے پیرانہ سالی کے باوجود جواں مردی سے جیل بھگتی ہے۔ وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی خلا پر کرنے کیلئے تحریک انصاف کی قیادت کر سکیں اور سیاسی لوگوں کو تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے متحرک کر سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے مصنوعی قیادت، حقیقی قائدین کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے انکی عمران خان تک رسائی مشکل بنا رہی ہے۔ عوام میں انکی ذات پر رکیک حملے کیے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں انکی ذات مشکوک بنائی جا رہی ہے اس سارے عمل کا نقصان صرف ایک شخص کو ہوگا اور اسکا نام عمران خان ہے۔ مصنوعی قیادت اور حقیقی قیادت کے مابین جاری سرد جنگ کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف سے محبت رکھنے والے لوگوں کے مورال پر برا اثر پڑ رہا ہے تو دوسری طرف عمران خان بھی اس صورتحال سے خوش نہیں ہوں گے۔موجودہ قیادت کی نااہلی کا تو یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ علی الاعلان کہہ رہی ہے کہ ہم نے تو بلا واپس لینے کا حکم ہی نہیں کیا تھا لیکن یہ قانونی بزرجمہر اس باریک قانونی نقطے کو سمجھ ہی نہ سکے اور نہ ہی اس فیصلے کو مناسب جگہ پر چیلنج کر سکے اور انکی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے تحریک انصاف کو ایک سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ ’’سیاسی وکلاء‘‘ کی صلاحیتوں کا بھانڈا پھوٹتا ہے۔ آج بھی سینکڑوں کارکنان اور قائدین کا،بوگس مقدمات میں مختلف جیلوں میں مقید ہونا ان لوگوں کی اہلیت پر سوال اٹھا رہا ہے۔ اگر فواد چوہدری، پرویز الٰہی جیسے بالغ نظر اور سیاسی سوچ رکھنے والے لوگوں کو موقع دیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں عمران خان سے محبت رکھنے والے لاکھوں لوگ باہر نہ نکلیں۔ لیکن اگر ’’فارمی قیادت‘‘ اور سیاسی قیادت کے مابین سرد جنگ جاری رہی تو تحریک انصاف کیلئے اچھا شگون نہیں ہوگا۔عدالتی جنگیں ہارنے والے قائدین کو عمران خان کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔وہ جسے چاہیں گے وہ تحریک انصاف کا حصہ ہوگا اور جسے نہیں چاہیں گے وہ پویلین میں جائیگا۔ کیونکہ تحریک انصاف عمران خان ہی ہے۔