اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا پیمرا کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ غلط پیغام جا رہا ہے کہ پیمرا عدالتی آبزرویشن رپورٹ کرنے پر پابندی لگا رہا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا کوئی چیز غلط رپورٹ ہوئی جس پر پیمرا نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا؟ میرا نہیں خیال کہ ہماری ہائی کورٹ سے ایسا کچھ ہوا ہے یا رجسٹرار نے کوئی شکایت بھیجی ہو، میں نے کوئی بات نہ کہی ہو اور رپورٹ ہوجائے تو کمپلینٹ پر پیمرا اُس میڈیا ہاؤس کے خلاف کارروائی بھی کر سکتا ہے، اوپن دنیا کا زمانہ ہے، جو کچھ ہو رہا ہے عوام کو جاننے دیں، پچھلے ایک سال میں پیمرا نے غلط رپورٹنگ پر کتنی کارروائیاں کی ہیں؟ رپورٹرز تو بالکل درست رپورٹنگ کرتے ہیں، شام کو جو پروگرامز میں بیٹھ کر فیصلے سناتے ہیں وہ مسئلہ ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے رپورٹرز تو بہت ذمے دارانہ رپورٹنگ کرتے ہیں، 99.99 فیصد رپورٹنگ درست ہوتی ہے، پوائنٹ ون فیصد انسانی غلطی ہو سکتی ہے، سپریم کورٹ میں بھی مجھے یقین ہے کہ ایسے ہی ہوتا ہو گا، اگر کوئی غلط کرتا ہے تو پیمرا اس کے خلاف کارروائی کرے، عدالت جب دستخط شدہ فیصلہ جاری کر دیتی ہے تو وہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے، جج پر نہیں بلکہ اُس کے فیصلے پر تنقید کی جانی چاہیے، ہمیں عدالتی فیصلوں پر مباحثوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، عدالتی فیصلوں پر روشنی ڈالی جانی چاہیے کہ قانون ایسے تھا لیکن فیصلے میں یہ غلطی ہے۔
پیمرا کے وکیل سعد ہاشمی نے درخواست قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا اور کہا کہ میڈیا ہاؤسز کو ڈائریکٹیوجاری کیا گیا، چینلز نے تو چیلنج ہی نہیں کیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پیمرا نے تو عدالتی رپورٹنگ پر مکمل پابندی ہی لگا دی ہے، ایک وقت تھا جب عدالت میں بیٹھے بیس پچیس لوگ ہی عدالتی کارروائی سن سکتے تھے، اب میڈیا کا زمانہ ہے، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے میری یہاں دی گئی آبزرویشن امریکا میں بندہ سن سکتا ہے، مجھے پتہ ہے کہ میں نے کوئی ایک غلط بات کر دی تو پوری دنیا میں تماشہ ہو گا، اب تو ہم اس طرف جا رہے ہیں کہ سب ہمیں دیکھیں دنیا کو پتہ چلے، اب شفافیت کا زمانہ ہے، بینچ کی غلطی ہے یا بار کی، وہ بھی رپورٹ ہونی چاہیے، ہم لوگوں کے حقوق کے لیے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ناں؟ پیمرا کے پاس ایسی کیا ڈس انفارمیشن آ گئی تھی جس کی بنیاد پر یہ ہوا؟
پیمرا کے وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ پیمرا نے ڈائریکشن دی ہے کہ تحریری آرڈر چلایا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت میں دیے گئے ریمارکس عدالتی کارروائی کا حصہ ہیں، عدالتی کارروائی کو اِن کیمرہ کرنا یا نہ کرنا عدالت کا کام ہے، یہ غلط پیغام جا رہا ہے کہ پیمرا عدالتی آبزرویشن رپورٹ کرنے پر پابندی لگا رہا ہے، عدالتی کارروائی ہمیشہ آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، جواب بھی جمع کرایا جاتا ہے، پچھلے 45 منٹ سے اس کیس کی جو کارروائی چل رہی ہے یہ عدالتی کارروائی ہے، عدالت میں موجود لوگوں کو کارروائی سننے دیکھنے کا حق ہے تو موجود نہ ہونے والوں کو کیوں نہیں؟ امریکا میں 1975ء میں پہلا کرمنل ٹرائل ٹی وی پر دکھایا گیا تھا، کوئی نیوکلیئر فارمولا یا دہشت گردوں سے متعلق کارروائی ہو تو عدالت کہے گی کہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، میں عوام کے حقوق کا محافظ ہوں، پوری دنیا کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔
اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا پیمرا کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔