برطانیہ کی امیر ترین بھارتی نژاد فیملی ’’ہندوجا‘‘ کا نام پہلی بار میڈیا میں اُس وقت منظر عام پر آیا جب ماضی میں عالمی میڈیا پر بھارت اور سوئیڈش آرٹلری بنانے والی معروف کمپنی بوفورس سے اسلحہ کی خریداری کے 1.4ارب ڈالر معاہدے میں کک بیکس کا اسکینڈل سامنے آیا جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ’’سوئیڈش ساختہ 410بوفورس گنوں کی بھارت کو فراہمی کے آرڈر میں غیر قانونی طور پر 640ملین ڈالر کی کک بیکس وصول کرنے والوں میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی سمیت ہندوجا فیملی، کئی بھارتی سیاستدان اور سوئیڈن حکومت کے متعدد اعلیٰ حکام شامل ہیں۔ یاد رہے کہ بوفورس گنوں کا پہلی مرتبہ استعمال بھارت نے کارگل کے محاذ پر کیا تھا۔
سوئس عدالت کی جانب سے سزائے قید سنائے جانے کے بعد ایک بار پھر عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔ ہندوجا فیملی پر گھریلو ملازمین سے ناروا سلوک کرنے، کم معاوضہ دینے اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ یہ فیملی اپنے آبائی ملک بھارت سے 3 افراد کو بطور گھریلو ملازم جنیوا میں موجود اپنے عالیشان مینشن لائی اور سوئٹزرلینڈ پہنچنے پر ان کے پاسپورٹ ضبط کرلئے۔ ملازمین کو گھر سے باہر جانے کی آزادی نہیں تھی اور ان سے یومیہ 18 گھنٹے کام لیا جاتا تھا جس کے عوض انہیں محض 7 پائونڈ (8 ڈالر) کی ادائیگی کی جاتی تھی جو سوئس قانون کے تحت کم از کم یومیہ اجرت کے دسویں حصے سے بھی کم تھی۔ گوکہ سوئس عدالت نے ہندوجا فیملی کو انسانی اسمگلنگ کے الزام سے بری کردیا لیکن دیگر الزامات میں فیملی کے سربراہ 70 سالہ پرکاش ہندوجا اور ان کی اہلیہ کمال ہندوجا کو 4 سال 6 ماہ جبکہ ان کے بیٹے اجے اور اس کی اہلیہ نمریتا کو 4-4 سال قید کی سزا سنائی۔ دوران سماعت ہندوجا فیملی کی جانب سے ملازمین کو دی جانے والی اجرت کا موازنہ خاندان کے ایک کتے پر ہونے والے اخراجات سے کیا گیا تو یہ انکشاف ہواکہ فیملی، ملازمین سے زیادہ اپنے کتے پر خرچ کرتی تھی جو سالانہ 10 ہزار ڈالر سے زائد تھے جبکہ 3ملازمین پر سالانہ اخراجات 8 ہزار ڈالر سے بھی کم تھے۔
ہندوجا فیملی کا شمار برطانیہ کے امیر ترین ارب پتی خاندانوں میں ہوتا ہے اور یہ خاندان مسلسل تیسرے سال برطانیہ کے امیر خاندانوں میں سرفہرست رہا۔ ہندوجا فیملی کی مجموعی دولت کا تخمینہ 38ارب پائونڈ (47ارب ڈالرز) لگایا گیا ہے اور یہ فیملی آج کل سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں مقیم ہے۔ ہندوجا گروپ نے تیل، گیس، بینکنگ اور ہیلتھ کیئر کے شعبے میں دنیا کے کئی ممالک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ہندوجا فیملی کے اجے ہندوجا جسے سوئس عدالت کی جانب سے 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، سے میری کئی ملاقاتیں رہی ہیں اور گزشتہ سال ہم نے میک اے وش انٹرنیشنل کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر ڈنر میں کافی وقت ساتھ گزارا تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب سوئٹزرلینڈ کا شہر جنیوا ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کے الزام میں سخت سزائیں دیئے جانے پر عالمی توجہ کا مرکز بنا۔ 2008میں لیبیا اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان اُس وقت سفارتی تنازع پیدا ہوگیا تھا جب جنیوا پولیس نے لیبیا کے آمر معمر قذافی کے بیٹے سنیل قذافی کو ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے گرفتار کیا۔ سنیل قذافی پر الزام تھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ اپنے ملازمین کو مارتے پیٹتے اور غیر معیاری کھانا دیتے ہیں۔ گوکہ یہ مقدمہ سنیل قذافی اور ملازمین کے درمیان باہمی رضامندی کے معاہدے کے بعد خارج کر دیا گیا مگر اس کے باوجود سوئٹزرلینڈ اور لیبیا کے درمیان سفارتی تنازع کئی سال تک برقرار رہا۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی ملک سوئٹزرلینڈ کا قانون، امیر اور غریب میں کوئی تفریق نہیں کرتا اور قانون سب کیلئے یکساں ہے۔
پاکستان میں بجٹ میں ہر سال مزدور کی کم از کم اجرت مقرر کی جاتی ہے۔ حالیہ بجٹ میں یہ اجرت 37ہزار روپے کردی گئی ہے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کم از کم تنخواہ کا اعلان کرکے اپنی ذمہ داری تو پوری کردیتی ہے مگر پرائیویٹ سیکٹر اس پر عملدرآمد نہیں کرتا حالانکہ پاکستان میں کم از کم اجرت پر عملدرآمد کروانے کیلئے باقاعدہ طور پر ویج بورڈ قائم ہے اور یہ جانتا ہے کہ حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی کم از کم اجرت پر پرائیویٹ سیکٹر عملدرآمد نہیں کررہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عدالتیں بھی سوئس عدالت سے سبق حاصل کرتے ہوئے ان افراد کو سخت سزائیں دیں جو مہنگائی کے اس دور میں مزدوروں کو کم از کم تنخواہ نہ دے کر اُن کا استحصال کررہے ہیں۔