تحریک انصاف کے اندر کی تقسیم اور گروپنگ پر آج کل بہت بحث ہو رہی ہے لیکن جو لوگ عمران خان کی سیاست کو جانتے ہیں یا تحریک انصاف کے ماضی سے آگاہ ہیں اُن کو یہ اندازہ ہو گا کہ یہ پارٹی ہمیشہ سے تقسیم اور گروپنگ کا شکار رہی۔ جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو اُس وقت بھی تقسیم اور اختلافات کی باتیں میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہتی تھیں۔ ایک گروپ عمران خان کے قریب ہونے کی وجہ سے دوسرے گروپ کے نشانے پر تھا۔ آج بھی تقسیم اور اختلافات کی یہی وجہ ہے کہ ایک گروپ عمران خان کے قریب ہے جبکہ دوسرے جنہوں نے گزشتہ ایک دو سال میں جیلیں کاٹیں یا عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے مشکلات کا سامنا کیا وہ اس بات پر خفا ہیں کہ فیصلہ سازی میں اُن کو اہمیت نہیں دی جارہی جبکہ اہم ذمہ داریاں بھی دوسروں کو ہی دی جا رہی ہیں۔ ماضی میں کس کو عمران خان نے کتنی اہمیت دی اس کا تعلق نہ میرٹ سے تھا نہ ہی کسی ایسے فرد کے تحریک انصاف کیلئے قربانیاں دینے سے۔ یہی کچھ آج بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عثمان بزدار کو عمران خان نے پنجاب کا وزیراعلیٰ کیوں بنایا، بزدار نے ماضی میں تحریک انصاف کیلئے کیا کچھ کیا، اس پر پارٹی کے اکثر رہنماوں کا کیا خیال تھا سب عوام کے سامنے ہے۔ یہی کچھ خیبر پختون خوا میں محمود خان کے وزیراعلیٰ بننے پر دیکھا گیا۔ آپس میں اس تقسیم پر اگرچہ عمران خان کے فیصلوں اور اُن کے رویوں کے متعلق سرگوشیاں تو کی جاتی تھیں اور اب بھی کی جا رہی ہیں لیکن عمران خان کے خلاف کوئی کھل کر نہیں بول سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی پہچان صرف اور صرف عمران خان ہیں اور یہ بات عمران خان خود بھی جانتے ہیں اور دوسرے تمام پارٹی رہنما بھی۔ اپنی نااہلی اور قید کے بعد عمران خان نے کسی مضبوط شخص کو پی ٹی آئی کا چیئرمین کیوں نہ بنایا جبکہ پارٹی کے اندر اس سلسلے میں مشاورت بھی ہوتی رہی؟ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم جیسے پنجاب اور خیبر پختون خواہ میںتحریک انصاف کے کمزور وزرائے اعلیٰ کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق چلانا چاہتے تھے، اُسی طرح اب بھی وہ جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر مکمل اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں جس کیلئے اہم ذمہ داریاں اُنہی کو دی گئیں جن کو کمزور جانا گیا اور جن کے متعلق عمران خان کا یہ گمان ہو گا کہ وہ اُن کی مرضی کے بغیر کوئی چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی نہیں کر سکتے۔ تحریک انصاف کا ناراض گروپ اگرچہ پارٹی کی موجودہ قیادت ،جو عمران خان کے قریب سمجھی جاتی ہے، پر تنقید کر رہا ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ جن فیصلوں پر تنقید ہو رہی ہے وہ فیصلے عمران خان کے اپنے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کیوں کسی ایسے پارٹی رہنما، چاہے جس کی کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ ہو ں، کو کوئی اہم پارٹی عہدہ یا پارلیمنٹ کے اندر اہم ذمہ داری دیں گے جو اپنی سوچ رکھتا ہو، جو عمران خان کے فیصلوں سے اختلاف کر سکنے کی سکت رکھتا ہو۔ اس سے تو عمران خان کمزور ہوں گے۔ اس سے تو یہ خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ کوئی دوسرا تحریک انصاف کو ہی ہائی جیک کر لے۔ تحریک انصاف کی منقسم قیادت یا آپس میں لڑتے ہوے رہنما تو عمران خان کیلئے خطرہ نہیں ہو سکتے نہ ہی اُن کو غیر مقبول کر سکتے ہیں لیکن کوئی دوسرا ایسا رہنما جو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کی سکت رکھتا ہو تحریک انصاف کی فیصلہ سازی کا اختیار اس کے حوالے کرنا،عمران خان کو کبھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ اُنہوں نے نہ ماضی میں ایسا کیا، نہ اب کریں گے۔ پارٹی رہنما چاہے آپس میں لڑیں، عمران خان تحریک انصاف پر اپنی مضبوط گرفت کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)