• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’یہ جگہ کیا تھی، رشکِ ارم تھی۔ کسی بھی طور زمین کا ٹکڑا معلوم نہ ہوتی تھی، سبحان اللہ۔‘‘ چاروں کی زبان پر گویا ایک ہی بات تھی۔ تاحدِ نگاہ آنکھوں کو خیرہ کرتا سبزہ، شیشم اور دیودار کے طویل قامت درخت اور شہتوت کے چند پیڑ، جن کے پھلوں پر پرندوں کے غول کےغول منڈلارہے تھے۔

طرح طرح کے پرندوں کے شور وغل میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کہیں کہیں رنگ برنگے خود رَو پھول، جن میں جامنی رنگ کے پھولوں کی بہتات تھی، موجود تھے اور اِن پھولوں پر رنگ رنگ تتلیوں کی آمدورفت آنکھوں کو اس قدربھلی لگتی کہ بس دیکھتے رہنے کا جی چاہتا تھا۔ 

وہ چاروں انگشت بدنداں فردوس کے اِس ٹکڑے کو تک رہے تھے۔ اُن سے کچھ ہی فاصلے پرایک ننّھی مُنّی سی ندی، جو شاید پہاڑ پر موجود کسی چشمے سے رواں ہوئی تھی اور آگے چل کر دریا کا حصّہ بن جاتی تھی، اپنے شفّاف پانی اور ہلکی سُریلی آواز سے دل کو سرور پہنچا رہی تھی۔ ایک طویل عرصے کی کوششوں کے بعد اُنھیں ان کی یہ پسندیدہ جگہ ملی تھی، اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جگہ اُن کی اُمیدوں سے بھی کچھ بڑھ کر حسین تھی۔

پراپرٹی ڈیلر امین، اُن کی آنکھوں میں موجود چمک اور ستائش سے اندازہ لگاچکا تھا کہ اُنھیں یہ جگہ اُن کی توقع سے بھی بڑھ کرپسند آئی ہے۔ ’’مَیں حیران ہوں کہ کوئی ایسی دل کش زمین کیونکر فروخت کرنا چاہتاہے۔‘‘ اجمل صاحب نے ستائشی نگاہوں سے اِدھر اُدھر سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اجمل صاحب! دراصل اِس جگہ کا مالک اپنے اکلوتے بیٹے کے پاس بیرونِ مُلک جا رہا ہے ، یہ جگہ کچھ ویران اور کچھ شہر سے دُور ہونےکی بنا پر پہلے ہی اُن کے استعمال میں نہ تھی۔ 

اِس لیے وہ جانے سے قبل اپنی بیش تر جائداد فروخت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ پراپرٹی ڈیلر نے وضاحت کی۔ ’’مُلک سے باہر جانے کے لیے بھی اپنی جنّت جیسی زمین چھوڑنا کفرانِ نعمت سے کم نہیں۔ خیر، ہمارے حق میں تو یہ بات بہتر ہی ثابت ہوئی۔ 

آخرکار، مجھے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گزارنے کے لیے میرے خوابوں کے مطابق جگہ میسّر آگئی۔‘‘ پھر وہ اپنے دوست عاصم سے مخاطب ہوئے۔ ’’ٹھیکےدار صاحب! آپ چوں کہ بیک وقت آرکیٹیکٹ اور ٹھیکے دار ہیں، تو آپ دیکھ لیجیے، یہاں رہائشی بنگلے کی تعمیر کیسی رہے گی؟ ایک عرصہ تنگ، آلودہ شہر میں گزار کر اب مَیں باقی ماندہ زندگی کُھلی فضا میں جینا چاہتا ہوں۔ شاید خدا کو بھی میری بے چارگی پر ترس آگیا ہے۔‘‘

اجمل صاحب خوشی سے چہک رہے تھے۔ ’’آپ واقعی خوش نصیب ہیں کہ جنّت سے پہلے جنّت کا لطف اُٹھائیں گے۔ یہ جگہ صرف دیکھنے کی حد تک نہیں بلکہ تعمیر کےلیے بھی بہترین ہے۔ بس ذرا یہاں درختوں کی بہتات ہے۔ اگرچہ یہ یہاں کی شان بڑھا رہے ہیں، لیکن بنگلے کی تعمیر کےلیے کچھ درخت تو کٹوانے ہی پڑیں گے۔‘‘ 

یہ سُن کر اجمل صاحب چند لمحوں کو اداس ہو گئے اور اِدھر اُدھر نظر دوڑانے لگے کہ شاید درختوں کی کٹائی کے بغیر ہی کام بن جائے۔ ’’بابا! یہ کام ہمیں کرنا ہی پڑے گا۔ اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘‘ اجمل صاحب کا بیٹا سعد، جو کافی دیر سے اُن کی گفتگو سُن رہا تھا، پہلی بار گویا ہوا۔ اُس نے اپنے باپ کے چہرے پر فکر مندی کے تاثرات دیکھ لیے تھے۔ ’’ٹھیک ہے، عاصم صاحب! جیسےآپ کو مناسب لگے۔ 

ہمیں یقین ہے کہ آپ کے پاس جو بہترین آپشن ہوگا، آپ وہی استعمال کریں گے۔‘‘ اجمل صاحب نے گویا کُلی اختیار ٹھیکے دار کو سونپ دیا۔ ’’بےفکر رہیں بابا۔ عاصم انکل آپ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی سب کام مکمل کرلیں گے اور بلاشبہ بہترین کریں گے۔‘‘ عاصم نے مُسکرا کر سعد کو دیکھا۔ ’’ہاں، سعد بیٹا! مجھے تمہارے عاصم انکل پر پورا اعتماد ہے۔‘‘ درختوں کی کٹائی کا موضوع، اب باقی گفتگو میں گم ہو چُکا تھا۔

’’واہ بھئی، میرا تو کوئی تذکرہ ہی نہیں کر رہا، جس نے اتنی اچھی جگہ آپ لوگوں کو دکھائی۔‘‘ پراپرٹی ڈیلرامین نے، جو اجمل اورعاصم کے مشترکہ دوست تھے، مصنوعی خفگی کا اظہار کیا۔ ’’ارے بھائی! آپ تو ہمیں موت سے پہلے ہی جنّت کا لُطف مہیا کرچُکے ہیں، خدا آپ کو بھی جلد جنّت نصیب کرے۔‘‘ اجمل صاحب کے ذومعنی فقرے پر سب ہنس پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھرکی تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔ 

تعمیر کے دوران کئی چھوٹے موٹے اشجار، خُود رَو پودوں کے ساتھ ساتھ دیودار، شیشم اور شہتوت کے درختوں کا بھی صفایا کیا گیا، البتہ چند پیڑ باقی رہنے دیئے گے تاکہ بنگلے کا حُسن دوبالا ہو۔ صبح و شام کی ٹھک ٹھک اور کئی پیڑ پودے کٹنے کےسبب پرندے اپنے مانوس ماحول کو غیرمانوس محسوس کرنے لگے۔ 

یوں دھیرے دھیرے ان کی آمدورفت پہلے کی نسبت کافی کم ہونے لگی۔ جنگلی جھاڑیوں کی صفائی کی وجہ سےکئی خودرَو پھول پودے بھی کاٹ دیئے گے، جو یہاں رنگ برنگی تتلیوں کی آمد کی وجہ تھے، لیکن اِن چھوٹی چھوٹی کمیوں کو کسی نے محسوس نہیں کیا اور چند ہی مہینوں میں ایک شان دار بنگلہ تیار ہوگیا۔

ریت، بچے کُھچے ماربل، سیمنٹ اور تعمیر کے لیے استعمال کردہ پتھروں کی وجہ سے چار سُو گندگی اور گردوغبار پھیل چُکا تھا۔ سیوریج اور پانی کی لائنوں کےلیےجابجا زمین کھودی گئی۔ جس کے سبب گویا جل تھل ایک ہوچُکا تھا۔ سب کا آنا جانا لگا ہوا تھا، تو سارا کچرا اِدھر اُدھر پھیلتا جارہا تھا۔ اگرچہ اکثر ہونے والی بارش کے باعث گردوغبار کے بادل تو چھٹ جاتے، لیکن بہت ساناکارہ اورغیراستعمال شدہ سامان مٹی میں دھنس کر سبزے کی تاحدِ نگاہ پھیلی روانی میں خلل کا باعث بن رہا تھا۔ 

اجمل صاحب کو اس جگہ کا قدرتی حُسن متاثر ہونے کی فکر لاحق ہوئی، تو اُنھوں نے صفائی والوں کو بلوا کر ساری جگہ کی صفائی کروائی اور صفائی کرنےوالوں نےصفائی کےبعدتمام فضلہ معصوم ندی کے ناتواں پانی میں بہا دیا۔ اجمل صاحب اب کچھ مطمئن اور کچھ غیرمطمئن سےتھے۔ مطمئن اس لیے کہ تمام کچرا صاف کیا جا چکا تھا اور غیرمطمئن اس لیے کہ اب یہاں سبز قالین کی مانند بچھی گھاس اور آنکھوں کو خیرہ کرتا سبزہ نہیں رہا تھا۔ سو، انھوں نے اِس کا حل یہ نکالا کہ اِردگرد کی زمین پر مصنوعی امپورٹڈ گھاس منگوا کر بچھا دی۔ اب سب سےبڑا مسئلہ آمدورفت کا تھا۔

اس علاقے میں سڑک تو موجود تھی، مگراُن کے گھر تک نہیں آتی تھی۔ اجمل صاحب نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے فوراً سڑک منظور کروائی۔ اُس کے لیے اُنھیں خود بھی کافی اخراجات برداشت کرنے پڑے۔ سٹرک کی تعمیر کے دوران ایک بار پھر تعمیراتی مٹیریل نے ارد گرد کی زمینوں پر اپنے گہرے نشانات ثبت کیے۔ مزید کئی درختوں کی شامت آئی۔ کئی پھل پھول زد میں آئے۔ سڑک چوں کہ ندی کے قریب سے گزر کربنگلے تک آنی تھی۔ سو، اُس کاصاف شفّاف پانی بھی اب کسی تالاب، جوہڑ کے پانی کی طرح میلا میلا دکھائی دینے لگا تھا۔ سڑک تعمیر ہوتے ہی اجمل صاحب، اُن کی بیگم، بہو اور بیٹے بنگلے میں شفٹ ہوگئے۔

’’بابا! مَیں چاہتی ہوں، صحن میں بچّوں کے کھیل کُود کےلیے ایک چھوٹا سا پارک ہو۔‘‘ کچھ دن گزرے تھے کہ اجمل صاحب کی بہو نے فرمائش کردی۔ ’’بیٹا!یہ خُوب صُورت جگہ کسی پارک سے کم تو نہیں، یہاں پارک کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اُنھوں نے بہو کو حیرانی سے دیکھا۔’’وہ تو ٹھیک ہے بابا! لیکن بچّے ابھی چھوٹے ہیں، کھیل کُود کے لیے زیادہ دُور نہیں جاسکتے، اُن کے لیے کچھ جھولے وغیرہ لگوانے ہی پڑیں گے۔‘‘ 

بہو نے وضاحت کی، توبڑے بیٹے اسد نے بھی بیگم کی تائید کی۔ سو، صحن کا ایک کونا منتخب کر کے وہاں لکڑی کے کچھ جھولے بنوائے گئے۔ آدھا صحن پہلے ہی گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے مختص کیا جا چُکا تھا۔ بس، صحن کا کچھ ہی حصّہ بچاتھا، جہاں شہتوت کے چند اداس، ویران پیڑ کھڑے یہ ساری کارروائیاں اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ پرندوں کی آمدورفت بتدریج کم ہوتے ہوتے اب بالکل ہی کم رہ گئی تھی۔

’’یہاں سب کچھ ہے، لیکن فون سگنلز انتہائی ناقص ہیں۔‘‘ اجمل صاحب نے، جو کب سے کسی دوست کا نمبر ملا رہے تھے، جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ ’’اور بابا! انٹرنیٹ کا تو پوچھیں ہی مت۔ مجھے سگنلز کی تلاش میں بہت دُور جانا پڑتا ہے، کاش! یہاں وائے فائے کی سہولت بھی ہوتی۔‘‘ چھوٹے بیٹے سعد نے آہ بھرتے ہائے کہا۔ ’’تو سعد ایسا کرتے ہیں کوئی درخواست وغیرہ دے کر یہاں قریب ہی کسی کمپنی کا پول لگوا لیتے ہیں، یہی سب مسائل کا حل ہے۔‘‘ 

اسد نے حل پیش کیا۔ تجویز ایسی تھی کہ سب ہی نے اتفاق کیا، کیوں کہ اِس علاقے کی تنہائی کے سدِباب کا بہترین ذریعہ یہ موبائل اور انٹرنیٹ ہی تو تھے۔ علاقے میں جوں ہی بجلی، پانی اور انٹرنیٹ کی سہولتیں میسّر آئیں، چند اور لوگوں نے بھی اِرد گرد کی زمینیں خریدنے میں دل چسپی ظاہر کرنا شروع کردی، جن میں سے بیش تر اجمل صاحب ہی کے عزیزو اقارب یا شناسا تھے، کیوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد فارغ اوقات میں اُنھیں گپ شپ کے لیے سنگی ساتھیوں کی شدید ضرورت محسوس ہوتی تھی۔

رفتہ رفتہ علاقے میں کئی نئے گھر بن گئے، جب کہ درختوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوتی چلی گئی۔ کئی گاڑیوں کی صبح و شام آمد و رفت سے فضا بھی خاصی بدلی بدلی نظرآنے لگی۔ چند گھرتعمیر ہوئے، تو دُکانیں بھی کُھلنے لگیں۔ سبزی، گوشت اور پرچون سے شروع ہونے والی دکانیں اب ایک چھوٹی سی مارکیٹ کا رُوپ دھار چُکی تھیں۔ پھر نئے آنے والے اپنی سہولتوں کے لیے نت نیا سامان بھی کرتے رہے۔ حکومت کی نگاہ میں یہ نئی بستی آئی، تو اُس نے بھی کچھ علاقہ خرید کر دفاتر بنا ڈالے۔ 

ندی کا نیم گدلا پانی ایک سمت موڑ کر ٹینک سا بنا دیا گیا تاکہ لوگوں کو پینے کا ’’صاف‘‘ پانی میسّر رہے۔ مطلب، کچھ ہی عرصے بعد پورا علاقہ ایک نئے رنگ رُوپ میں ڈھل چُکا تھا۔ بظاہر، رہائشی خُوش تھے، لیکن نہ جانے کیوں اُنھیں اندرہی اندر اِک بےچینی سی بھی محسوس ہوتی تھی۔ وہ یہ بےسُکونی، تنہائی دُور کرنے کے لیے کئی اسباب کرتے رہتے، لیکن اُن کی رُوحیں تھیں کہ مزید ویران ہوتی جارہی تھیں۔

پراپرٹی ڈیلر، امین، جن کی وساطت سے اجمل صاحب نے یہ زمین خریدی تھی، ایک عرصہ بیرونِ مُلک گزارنے کے بعد واپس اپنے شہر آئے تھے۔ اجمل صاحب نے اُنھیں دوپہر کے کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ جیسے جیسے اُن کی گاڑی اجمل صاحب کے بنگلےکی جانب بڑھ رہی تھی، ویسے ویسے اُن کی حیرت میں شدید اضافہ ہو رہا تھا۔ اور تب تو اُنھیں اپنی آنکھوں پر بالکل یقین ہی نہیں آیا، جب ایک لاغر، کھانستے ہوئے بوڑھے نے دروازے پر اُن کا استقبال کیا۔ ’’یہ سب کیا ہے اجمل صاحب؟‘‘ وہ اُس ہکلاتے ہوئے بوڑھے سے گویا تھے اور سخت متذبذب بھی کہ اپنے دوست سے کچھ برس قبل کی صحت مند زمین کے لاغرپن کا سبب دریافت کریں یا خُود دوست کی ناتوانی اور بیماری کا۔ ’’یہ ’’انسانی سہولت‘‘ ہے امین صاحب۔ یہ راحت کی طلب ہے۔

ہماری ہرطلب، ہرضرورت، زمین کے سینے پر خنجر کی طرح پیوست ہو کر اِس کو زخم دیتی چلی گئی، یہاں تک کہ ہم انسان بھی گھائل ہو کر رہ گئے۔ ہمیں کب معلوم تھا کہ یہ فطرت کو لگنے والا ہرزخم، ہمارےجسم وجان کو بھی برابر چھلنی کرتا چلا جارہاہے۔‘‘ اجمل صاحب آنکھوں میں آنسو لیے بہت دھیمی، نقاہت زدہ آواز میں مخاطب تھے کہ دَمے اور پھیپھڑوں کے مرض نے اُنھیں حد درجہ لاغر کر دیا تھا۔ ’’ہم نے ’’سکون‘‘ کی طلب میں ’’سکون‘‘ ہی کو قتل کر ڈالا امین صاحب۔ اور مجھےتو لگتاہے، یہ’’سہولت‘‘ کی چاہ، جلد ہی ہمارے دماغوں کو بھی کسی دیمک کی طرح چاٹ جائے گی۔‘‘ 

اجمل صاحب کھانستے کھانستے صوفے پرڈھےسے گئے تھے۔ امین صاحب نے ایک نظر سامنے دیوار پر لٹکی اُس دیوقامت تصویر کو دیکھا، جو سعد نے پہلے دن یہاں آنے پر اپنے کیمرے میں محفوظ کی تھی اور ایک نظر اُس گنجان آباد آلودہ شہر کو، جہاں اُس وقت وہ کھڑے تھے، گرچہ اسموگ نے حدنگاہ انتہائی کم کر دی تھی، جب کہ پرندے تو جانے کب اس ’’رشکِ ارم وادی‘‘ کو چھوڑ کر پہاڑ کی اُن چوٹیوں میں جا بسے تھے، جہاں ابھی انسانی قدموں کی پہنچ بہت مشکل تھی۔