اُف! یہ چھاجوں برستی بارش… روزمرّہ معمولاتِ زندگی میں، سڑک پر ٹریفک کے ازدحام اور اطراف میں ٹھیلوں، پتھاروں سے سجی روش پرمحض اِک بارش نے ہلچل سی مچادی تھی۔ ٹھیلے، پتھارے والے اپنے سامان کی فکر میں ہلکان، راہ گیر گھروں کو جانے کے لیے پریشان، اِک عجیب ہڑبونگ سی مچی ہوئی تھی اورعطیہ بھی اِسی ہجومِ بیکراں کا حصّہ تھی۔ آج ہی اُس نے سفید جوڑے کے ساتھ پرنٹڈ ہرا دوپٹا اوڑھا تھا۔ جب گھر سے نکلی تھی، تو گرمی کی شدّت میں ٹھنڈک کا احساس دیتےسفید رنگ کے ساتھ ہرے دوپٹے کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ اس کامبی نیشن سے بہت تروتازگی، شگفتگی سی محسوس ہو رہی تھی۔
مگر بےموسم کی اِس بارش نے اُس کے سفید سُوٹ کا سوا ستیاناس کرکے رکھ دیا تھا کہ ہر گزرتی سواری کے لیے جیسے لازم تھا کہ وہ قریب سے گزرتے ہوئے چھینٹےضرورہی اڑائے گی۔ کوفت سے بےحال ہوتی عطیہ اُس وقت کو کوس رہی تھی، جب اُس نے سفید جوڑا زیبِ تن کرنے کی ٹھانی تھی۔ وہ بس سے اُتر کر گھر کی طرف جانے والے چنگچی رکشہ میں بیٹھنے ہی لگی تھی کہ آواز سُنائی دی۔ ’’باجی! یہ لیتی جا، تیرے بچّے جئیں، صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا ہوا۔‘‘ ایک بچّہ ٹشو پیپرز کے پیکٹ اُٹھائے اُس کی جانب ملتجیانہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔ وہ نظرانداز کر کے چنگچی میں بیٹھ گئی۔
بارش تھوڑی ہلکی ہوگئی تھی اور چھے افراد والےچنگچی میں اُس سمیت چارافراد بیٹھ چُکے تھے، دوکا مزید انتظار تھا۔ اُس نے منہ پھیر کر دوسری جانب دھیان بٹانے کی کوشش کی۔ بچّہ دوسری جانب سے آ موجود ہوا۔ ’’وے پیاری باجیے! لے جا ناں، صبح سے بھوکا ہوں، میری ماں بیمار ہے۔ مَیں نے اُس کے لیے کھانا بھی لے کر جانا ہے۔‘‘ اب کے بچّے کا ڈائیلاگ کام کرگیا، اُس کا دل پسیج ہی گیا۔ اُس نے پرس میں جھانکا۔
بچّہ بھی اچک کر منتظر نظروں سے دیکھتے لگا۔ اُس نے پرس میں سے ایک سو روپے کا نوٹ نکال کر بچّے کو تھمایا اور اُس سے ایک ٹشو پیپر کا پیکٹ لے لیا۔ ’’باجی! سو کے چار ہیں۔‘‘ بچّے نے خوشی سے لہک کر کہا۔ ’’نہیں، بس یہ ایک کافی ہے، تم گھر جا کر ماں کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ اُس نے کہا۔ اتنے میں سواریاں پوری ہوئیں اور رکشہ چل پڑا۔
اُس نے چلتےہوئےرکشے سے دُور ہوتے ہوئے بچےکے چہرے پر جگنو سے چمکتے محسوس کیے۔ اُس کا مُوڈ جو بارش اور سفید جوڑے کی بربادی پرخاصا خراب ہوگیا تھا، کچھ بہترہوگیا۔ دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گھر کی گلی سے ملحقہ روڈ پرچنگچی نےاُسے اتارا، تو وہ کرایہ دے کرجلدی جلدی گلی پار کرنے لگی۔ گلی کے آخری سرے پر اُس کا گھر تھا۔ گھر کے قریب پہنچ کر اُس نے لاک کھولنے کے دوران ہی کھڑکی سے جھانکتی ہوئی منتظر نگاہوں کو سلام کیا اوراندرداخل ہوگئی۔ ’’السّلامُ علیکم امّی! کیا حال ہیں، یہاں کیوں آ بیٹھی ہیں؟‘‘ اندر آ کر اُس نے سوالیہ نگاہوں سےماں کو دیکھا۔ ’’کیوں تمہیں نہیں معلوم، کس قدر دیر ہوگئی ہے۔
اوپر سے برستی بارش، میرا تو دل ہولا جارہا تھا، نہ جانےکیا کیا سوچ کرہلکان ہوئی جارہی تھی مَیں۔ بندہ کم ازکم فون ہی کردیتا ہے۔ مَیں نے دس ہزار کالیں کیں، کوئی جواب نہیں۔‘‘ امّی نے ایک ساتھ ہی اتنی باتیں سُنا ڈالیں۔ ’’امی! موبائل شاپر کےاندر رکھ کر بیگ میں رکھ دیا تھا، اگر بھیگ جاتا تو نیا خرچہ کون برداشت کرتا۔‘‘ ’’مگر…مَیں تو پریشان ہوگئی تھی ناں!!‘‘ امّی جزبزسی ہوگئیں۔ ’’مَیں ذرا نہا دھو کر آجاؤں، پھر کھانے کے دوران آپ کو ساری باتیں بتاتی ہوں۔‘‘عطیہ نے دوپٹے کو برآمدے کے تخت پر پھینکا اورجلدی سےملحقہ غسل خانے میں گھس گئی۔ آدھے گھنٹے بعد واپس آئی، تو ساتھ ٹب میں میں دُھلا ہوا سفید جوڑا تھا، جسےالگنی پر ٹانگ کر وہ کچن میں چلی گئی۔
وہاں سے واپس آئی، تو ہاتھوں میں ہاٹ پاٹ میں رکھی ہوئی روٹیاں اورٹرے میں بھنڈی کا گرم کیا ہوا سالن تھا، جو وہ، ہر روز کی طرح صُبح جانے سے پہلے بنا کر گئی تھی۔ حالاں کہ معلوم تھا کہ امّی اُس کے بغیر کھانا نہیں کھائیں گی، مگر کھانا بنا کر جانے کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ آکر وہ بس سالن گرم کرتی اور دونوں ماں، بیٹی ایک دوسرے کو دِن بَھرکی رُوداد سُناتے ہوئے ساتھ کھانا کھاتیں۔
آج بھی اس نے پُورے دن کی کہانی، اچانک بارش کی آمد سمیت ماں کو سُنائی۔ کھانا کھا کر برتن اُٹھائے۔ چائےکاپانی رکھ کر برتن دھوئے، کچن سمیٹا اور چائے تیار کرکے اپنا اور امّی کا کپ لے کر تخت پر آ بیٹھی۔ امّی بھی وہیل چیئر گھسیٹ کر اُس کے پاس ہی آ گئیں۔ ’’تھک گئی ہوں گی آپ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے، آئیں آپ کوتخت پربٹھاؤں۔‘‘ اُس نے آگے بڑھ کر ماں کو سہارا دینے کی کوشش کی۔ ’’ارے نہیں، نہیں، صُبح برابر والی حمیرا کی امّاں آ گئی تھی، تو اُس نے مجھے تخت پر بٹھایا کیا، لِٹا ہی دیا تھا۔
جب تک بیٹھی رہی، میری ٹانگوں کی مالش کرتی رہی۔ جانے لگی، تو مَیں نے کہا، مجھے واپس چیئر پربٹھاتی جانا۔ آگے، پیچھے تو ہو سکوں گی، ورنہ تو تخت پر محتاج کی محتاج پڑی رہوں گی۔‘‘ امّی نے اُسے تخت پر بٹھانے سے منع کرکےاپنا چائے کا مگ اٹھا لیا۔ ’’ہمممم تو یہ کہیں، آج خُوب مزے کیے آپ نے۔‘‘ اُس نےاپنی چائے کا سِپ لیتے ہوئے ماں کو چھیڑا۔ مگر اُدھر وہی زود رنجی تھی۔ ’’ارے کیا مزے کرنا، بس ہم جیسے بےبس، محتاج لوگوں کو کوئی گھڑی بھر کی بھی توجّہ دے دے تو خوش ہوجاتے ہیں۔‘‘عطیہ نے چائے کاخالی کپ تخت کے ساتھ پڑی تپائی پررکھا اور زمین پرماں کے قدموں میں آ کر بیٹھ گئی۔ ’’چلیں چھوڑیں، یہ بتائیں، ماموں کا فون آیا؟‘‘ ’’کہاں…اُس کی بیگم اجازت دے گی، تو فون کرے گا ناں؟؟؟‘‘ امی پر آج شدید قنوطیت سوار تھی۔ عطیہ اُنھیں دیکھ کر افسردہ ہوگئی۔
اُس کی امّی ہمیشہ سے ایسی نہ تھیں۔ وہ بہت خُوش مزاج اور متوازن شخصیت کی مالک تھیں۔ عطیہ اور اُس کے والدین، ایک خُوب صورت زندگی کی بڑی متوازن مثلث تھی، کیوں کہ عطیہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور نہ صرف اُن کی بلکہ خاندان بھر کی لاڈلی تھی۔ خاندان کے نام پر ماں کی طرف سے ایک ماموں جان، اُن کی بیگم اور دو بچّے تھے، جو اسلام آباد میں رہتے تھے اور والد کی طرف سے ایک پھپھو تھیں، جو اُس کے والد صاحب سے دس بارہ برس بڑی تھیں اور اِسی شہر میں رہتی تھیں۔
اُن کی شادی چوں کہ بہت پہلے ہو گئی تھی، تو اُن کے چار شادی شدہ بچّے تھے۔ جب دو برس پہلے اچانک عطیہ کے والدین کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا، جس میں والد زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے اور والدہ اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو کر وہیل چیئر پر آگئیں، تو اس عرصے میں ماموں کی فیملی نے اُن کا ساتھ دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پہلے برس تو ماموں، مامی نے کراچی اور اسلام آباد ایک کیے رکھا، مگر پھر اُن کے بیٹے کی پروفیشنل اعلیٰ تعلیم کا مشکل دَورشروع ہوگیا، تو رواں برس وہ آ ہی نہ پائے۔
ہاں، فون پرمستقل بہن بھانجی سے رابطے میں رہتے تھے، مگر اب گزشتہ ایک ماہ سے فون کا رابطہ بھی منقطع ہی تھا۔ ’’سب جھوٹے رشتے ناتے ہیں، کب کون کسی کا ہوتاہے۔‘‘ امّی نےایک لمبی ہُوک بَھری، تو عطیہ کے صبر کا پیمانہ بھی گویا لب ریز ہو گیا۔ ’’مجھے بھی بُرا لگتا ہے، مَیں بھی محسوس کرتی ہوں یہ سب۔ بجائے اِس کے کہ میری ڈھارس بندھائیں، الٹا مجھے بھی پریشان کرتی ہیں۔ مَیں اب کل سے کہیں نہیں جاؤں گی، کچھ نہیں کروں گی۔ بس، گھر ہی میں رہوں گی، آخری سال تھا میرا انٹرن شپ کا، جی نہ چاہتے ہوئے بھی ابوجی کی خواہش سمجھ کر اپنے آپ کو آمادہ کیا، مگر آپ میرا سارا حوصلہ توڑ دیتی ہیں۔‘‘
اور… پھر دونوں ماں، بیٹی ایک دوسرے کے گلے لگ کرچہکوں پہکوں رونےلگیں کہ اچانک ہی موبائل فون کی بیل چیخ اُٹھی اور مسلسل بجتی ہی چلی گئی۔ تنگ آکر رونے کا شغل چھوڑ کر، عطیہ نے بغیر اسکرین پر نظر ڈالے ہی روکھی سی آواز میں کہا۔ ’’جی کیا ہے، کون؟‘‘ ’’بیٹا! آپ کی امّاں نے آپ کو سلام، دُعا کرنا نہیں سکھایا؟‘‘ شرارتی سی آواز پر اُس نے فون کانوں سے ہٹاکراسکرین پرجگمگاتے ’’Mamun Jani‘‘ کےالفاظ دیکھ کرچیخ ماری۔ ’’ماموں جانی…!!‘‘ امّی جان نےچونک کر دیکھا، پھر آنکھیں پونچھ کرغصّے سے کہا۔ ’’اجازت مل گئی، فون کرنے کی اِنہیں؟‘‘فون پر آواز سُن لی گئی تھی، جبھی ایک طویل قہقہہ گونجا۔
اتنا زوردار کہ لگا کہیں قریب ہی سے آواز آئی ہے۔ ’’جی جناب! نہ صرف فون کرنے کی اجازت ملی ہے، بلکہ اِس غلام کی مالکن خُود غلام کو کان سے پکڑ کر ساتھ لے کر آئی ہے، دروازہ کھولیں۔‘‘ ’’ہائیں…!!‘‘ دونوں ماں بیٹی ششدر رہ گئیں۔ جب ہوش آیا، تو وہیل چیئر والی خاتون سب سے پہلے دروازے کے پاس پہنچ چُکی تھی۔ اب وہی پاکستانی فلمی سین… بھائی، بہن کا ملن، بھابھی ماں کی عظمت، مگر اس بار عظمت کچھ زیادہ ہی ہوگئی تھی۔
شام تک معلوم ہوا کہ ماموں، مامی کے ساتھ اُن کے سپوت اور سپتری بھی آئے ہیں۔ اور معمّا حل ہوگیا تھا کہ اُن کےلاڈلے بیٹے نےسول سروس کے اعلیٰ ترین امتحان میں کام یابی کے بعد کراچی شہرکو چُنا تھا اوراب وہ سب یہیں مستقل سکونت اختیار کرنے آ گئے تھے۔ ایک ماہ سے چُپکے چُپکے یہی کارروائی جاری تھی کہ سرپرائز دینے کا ارادہ تھا۔
اور اصل سرپرائز تو عطیہ کی قسمت نےعطیہ کو دیا تھا کہ کراچی آنے کے ایک ہفتے بعد ہی ماموں جان نے اپنے نورِ چشم کا نکاح اپنی پیاری بھانجی عطیہ سے کرنے کی تقریب رکھ لی تھی۔ ’’باجی! آپ کو تو معلوم ہے ناں کہ مَیں جورو کا غلام ہوں، تو میری زوجہ محترمہ نے فیصلہ کیا کہ آپ کی دختر، نیک اختر بھی ایک بالکل ایسے ہی جورو کے غلام کو پانے کا حق رکھتی ہے، جو اجازت لےکر سارے رشتے نبھائے اور ایسے نبھائے کہ دِلوں میں صرف محبّتیں ہی محبّتیں ہوں۔
اِس دُعاکے ساتھ کہ عزت دینے اور لینے والوں کی یہ جوڑیاں ایک دوسرے کے رشتے اور رشتے داروں کے درمیان ہمیشہ رس گھولتی رہیں۔ نہ کوئی جورو کا غلام بنے، نہ مالک بلکہ رحمٰن کے حُکم کے مطابق رحم کے رشتےجوڑنے والے بن جائیں۔‘‘ ماموں جان کے اس شان دار اندازِ خطابت کی وہاں موجود سب ہی لوگوں نے جی بھر کے داد دی۔ اور ایک شان دار سے طعام کے ساتھ ساتھ یہ بھی سیکھا کہ رحمِ مادر سےجُڑے، رحم کے رشتوں کی آب یاری کر کے صلۂ رحمی کیسے اختیار کی جاتی ہے۔ اوریوں اِک بارش کے دن سے شروع ہونے والی کہانی، پیار و محبّت کی بارش میں پور پور بھیگ کر آگے اور آگے بڑھتی چلی گئی۔