• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’امّاں! امّاں! وڈے ملک صاحب قربانی لئی دو گاواں تے پانچ بکرے لیائےنیں۔ ایڈے کُو سوہنے، ستھرے جانورنیں۔‘‘ (بڑے ملک صاحب قربانی کے لیے دو گائیں اور پانچ بکرے لائے ہیں۔ بہت ہی خُوب صُورت اور صاف ستھرے جانور ہیں) طیفے نے سائیکل چھوٹے سے صحن کی مغربی دیوار کےساتھ کھڑی کی اور سبزی بناتی امّاں کے پاس بیٹھ گیا۔ طیفے کا ابّا بھی آکر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ دونوں باپ، بیٹا قصبے کے قریب ٹیکسٹائل مِل میں دیہاڑی دار ملازم تھے۔

’’ہاں تے تُوں کیوں بائولا ہو رہیا ایں (ہو رہے ہو)۔ قربانی کےجانور ملک ہوراں (ملک لوگوں) نے خریدے نیں، تیرے ابّےنےنئیں۔‘‘ امّاں نے جل کر جواب دیا۔ ’’لے ابّا! تُو ہی دَس(بتا) بھلا، ملک ہوراں کےجانور ہوئے، تے سمجھو ساڈے (ہمارے) ہی ہوئے ناں۔ اُن کا چارہ، پانی اور ٹہل سیوا توسب مَیں نےہی کرنی ہےناں۔‘‘ طیفے نے ابّے کو مخاطب کرکے گویا امّاں کی شکایت لگائی۔’’ہاں، مفت دا نوکرجو ہتھ آجاندا ہے اونہاں دے۔‘‘ (مفت کا نوکر جو اُن کے ہاتھ آجاتا ہے) امّاں نے سرجھٹکا۔ ’’امّاں! ایسی باتیں نہ کریا کر۔ کی ہویا، جو اللہ نے سانوں قربانی دی توفیق نہیں دِتّی، ہرسال قربانی دے جانوراں دی خدمت کرن دا موقع تے مِلدا اے۔ اور تینوں پتا ہے، جو قربانی دے جانوراں دی خدمت کردا ہے، اللہ سائیں اُن سے بہت خوش ہوندا اے۔ (کیا ہوا، جو اللہ نے ہمیں قربانی کی توفیق نہیں دی، ہرسال جانوروں کی خدمت کا موقع توملتا ہےاورجواِن کی خدمت کرتا ہے، اللہ اُن سے بہت خوش ہوتا ہے) چلو، اُتنا خوش نہیں ہوگا، جتنا قربانی کرنے والوں سے ہوتا ہے، پرخوش ہوتا ضرور ہے۔‘‘ طیفے نے امّاں کا گُھٹنا دبایا۔ ’’مجھے بتا، تجھے ملک صاحب ہوراں کے جانوروں کے پیچھے اینی جان مارنے کا کیا فیدہ ہوندا اے۔ ڈھنگ کی دو بوٹیاں تک تو تجھے دیتے نہیں وہ لوگ۔‘‘ امّاں نے اُس کا ہاتھ اپنے گُھٹنے سے ہٹایا۔ ’’ابّا ویکھ! یہ امّاں وی ناں، ایویں ہی بولتی رہتی ہے۔

ہر سال دو بکروں کےکھروڑے (پائے) اور سِریاں ملک صاحب مینوں ہی دیندے نیں(مجھے ہی دیتے ہیں)۔ ساتھ میں گوشت الگ اور پنج سو روپیے وی۔ فیروی امّاں کہہ رہی ہے کہ مجھے دیتے ہی کیا ہیں؟‘‘طیفا بُرامان گیا۔’’ہاں! کھروڑے اور سِریاں اُن کے گھر میں کوئی کھاتا نہیں اور وہ آدھا کلو گوشت، جس میں ڈیڑھ پائو تو چربی ہی ہوتی ہے اور پنج سو روپے، دس دنوں کی محنت کے حساب سے کجھ وی نہیں۔‘‘ امّاں نے منٹوں میں حساب کردیا۔ جب کہ ابّا دونوں ماں، بیٹے کی باتیں خاموشی سے سُن رہا تھا۔ ’’چل پُتر! جا کے ٹھنڈا پانی لے آ، گلاں (باتیں) فیر کرلینا۔‘‘ ابّا نے دونوں کی بحث ختم کرنے کی کوشش کی۔

ملک صاحب کے گھر جانور آتے تو طیفا دن رات کی تمیزبُھلائے اُن کی دیکھ ریکھ میں مصروف رہتا۔ ملک صاحب بھی طیفے کی وجہ سے جانوروں کی طرف سے بےفکر ہوجاتے تھے۔ طیفا صبح، فجر کی اذان کے بعد سے فیکٹری جانے تک اور فیکٹری سے آنے کے بعد رات گئے تک کا سارا وقت ملک صاحب کے یہاں ہی گزارتا تھا اورجانوروں کی حفاظت اُس کے مالکوں سے بھی بڑھ کر کرتا، جب کہ محلے کےلوگ اکثر اُس کا مذاق بھی اُڑاتے۔’’او! طیفے صاحب کے جانور دیکھو، کتنے تگڑے ہیں۔‘‘ جواباً طیفا مُسکرا کر یوں جانوروں کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگتا، جیسے وہ واقعی اُن کا مالک ہو۔

عید کے روز بھی نماز کے فوراً بعد طیفا کپڑے بدل کر ملک صاحب کے گھر ہی چلا گیا۔ اب اُسے قربانی کی تیاری سے لے کر قربانی کے بعد کی ساری صفائی دُھلائی تک وہیں رہنا تھا۔ ملک صاحب کی قربانی بھی زیادہ تر لوگوں کی طرح معاشرتی تعلقات بنانے ہی کا ذریعہ ہوتی تھی۔ اُن کے قربانی کے جانوروں کا اچھا اچھا گوشت یا تواُن کے ہم پلّہ دوستوں، رشتے داروں کو جاتا تھا، یا ان کے گھر کے دو ڈیپ فریزرز میں۔

غریبوں کےحصّے کے لیے، تین حصّے چربی اور ایک حصّہ گوشت مِلا جُلا کر محلے کے چند غریب گھروں کو دے دِلا کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے۔ اور پھر شام تک آنے والے فقیروں کو جھاڑ پِلا پِلا کر ہی رخصت کیا جاتا۔ یوں، اصل ضرورت مند تو محروم ہی رہ جاتے اور سارا سال پیٹ بھر کر گوشت کھانے والوں کے ہاں مزید ڈھیر لگ جاتے۔ آج بھی اس ساری کارروائی سے فارغ ہونے کے بعد طیفے کی محنت کےصلے میں اُس کو دوبکروں کے پائے، سِریاں اور ایک کلو کے قریب چربی مِلا گوشت دیا گیا۔ ساتھ میں پانچ سو روپے کہ جتنا کام طیفا اکیلا کرتا تھا، اُس کے لیے دو مزدور بھی کم ہی تھے۔

طیفا اپنی محنت کا صلہ لے کر خوشی خوشی گھر کی طرف چل دیا، مگر جیسے ہی اپنی گلی کی نُکڑ مڑا، سامنے سے پتیسے بیچنے والا کم زور و نحیف سا بابا آتا دکھائی دیا۔ وہ ’’پتیسے لےلو، پتیسے لےلو‘‘کی آوازلگاتے لگاتے طیفے کے ہاتھ میں پکڑے شاپروں کی طرف بھی دیکھ رہا تھا۔ طیفا پہلے تو اپنی دُھن میں آگے بڑھ گیا، پھر کچھ قدم چل کر رُکا اور واپس مُڑ آیا۔ تو دیکھا، بابا اپنے میلے کچیلے پٹکے سے اپنی آنکھیں پونچھ رہا تھا۔ ’’چاچا! کیا بات ہے، آج عید کا دیہاڑا (دن) ہے اور تُو رو رہا ہے۔‘‘ طیفے نے سارے تھیلےنیچے زمین پر رکھ دیئے۔ ’’پُتر! عید بھی پیسے والوں کی ہوتی ہے۔ 

ہم غریبوں کی بھلا کیا عید۔‘‘ بوڑھے کے لہجے میں جیسےصدیوں کی اُداسی و نقاہت گُھلی تھی۔ ’’آج کے دن، جب اللہ سوہنے کی راہ میں لکھاں (لاکھوں) جانور قربان ہوندے نیں۔ اَساں غریباں واسطے کِسے کول (کسی کے پاس) دو بوٹیاں وی نئیں۔ صبح توں ہر اُس گلی پتیسا ویچن گیا واں، آوازاں لائیں نیں، جتھےجتھے قربانی ہوئی اے، مگرکسی نے ایک بوٹی وی دینا گوارہ نہیں کیتا۔ (صُبح سے ہر اُس گلی پتیسا بیچنے گیا ہوں، آوازیں لگائی ہیں، جہاں جہاں قربانی ہوئی ہے، مگرکسی نے ایک بوٹی دینی گوارہ نہیں کی) پُتر! میری شکل توں پتا نہیں لگدا کہ مَیں وی ضرورت مند آں۔ 

قربانی دےگوشت وچ ضرورت منداں دا حصّہ وی تے ہوندا اے، پر مینوں کسے نے میرا حصّہ نہیں دِتّا پُتر۔ بس، ایہہ سوچ کے رونا آگیا۔ خالی ہتھ گھرجاواں گا، تے یتیم پوتے، پوتیاں، جو اج گوشت کھان دی اُمید لگا کے بیٹھےنیں، اُنہاں دی آس ٹُٹ جائے گی۔‘‘ بوڑھے کی آنکھوں میں پھرآنسو آگئے۔ ’’اوچاچا! لےپکڑ، یہ چار کھروڑے تے گوشت تُوں لے جا۔ چار کھروڑے تے اے سِریاں میں لے جاناں واں۔‘‘ (چار پائے اور گوشت تم لےجائو، چارپائے اور سِریاں میں لےجاتاہوں) طیفے نے دو شاپر بابے کی طرف بڑھا دیئے، تو بوڑھا اُسے دور تک دُعائیں دیتا چلا گیا۔

’’ لےامّاں! یہ پکڑ۔‘‘ طیفے نے گھر داخل ہوتے ہی شاپر امّاں کو پکڑائے۔ امّاں خوشی خوشی آگے بڑھی، مگر شاپر کھولتے ہی اُلٹے پیروں طیفے کی طرف پلٹی، جو اپنے باپ کے پاس بیٹھا لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔ ’’وے طیفے! اے کیہ، صرف چار کھروڑے، تے دوسِریاں؟؟‘‘ امّاں نے غصّے سے پوچھا۔ وہ تو گوشت کے لیے مسالا بھی چڑھا چُکی تھی اور یہاں گوشت سِرے سے تھا ہی نہیں۔ سو اُس کا غصّہ بجا تھا۔

’’امّاں! چار کھروڑے، تے گوشت مَیں پتیسے والے بابے نوں دے دِتّا اے۔ بابا بےچارہ بہت ہی غریب اے…‘‘ طیفے کے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا۔ ’’ہاں، بابا غریب اے، تے تُوں کِسے نواب دی اولاد ایں، جو اینی سخاوت کر آیاں ایں۔‘‘ (بابا غریب ہے، اور تم کسی نواب کی اولاد ہو، جو اتنی سخاوت کرآئےہو۔)امّاں کوتو جیسے پتنگے لگ گئے۔ ’’چل بَھلیے لوکے! جا، جو کچھ وی اے، اوہی پکا لے۔ اللہ مالک ہے۔‘‘ ابّے کی بات سُن کرامّاں بڑبڑاتے ہوئے باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔’’ابّا! مَیں ٹھیک کیتا اے ناں؟‘‘ طیفے نےابّا کی طرف دیکھا۔

’’بالکل ٹھیک کیتا اے پُتّر! آج اللہ نے تینوں وی قربانی کرن دی توفیق دے دِتّی اے۔ بس، فرق صرف اینا اے کہ لوگ آج اللہ دی راہ وِچ جانوراں دی قربانی کررہے نیں اور میرے پتّر نے آج اپنی ضرورت (نفس) دی قربانی دے کے اللہ نوں خوش کیتا اے۔ تینوں پتا ہے، اپنی ضرورت بُھل کے(بھول کے) کسی دوجے دی ضرورت پوری کرنا بہت وڈی قربانی ہوندی اے اور آج میرے پتّر نےاو وڈی قربانی دِتّی ہے۔ شاباش میرا شہزادہ پُتّر۔ جا، جا کےکپڑے بدل لے، فیر روٹی کھانے آں۔‘‘ ابّے نےاُس کےکندھے پر بہت پیار سے تھپکی دی، توطیفا بھی مطمئن دِل سے اُٹھ کھڑا ہوا۔