• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ بتاسکتے ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کب ہوا تھا؟اچھا اتنا بتادیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کا انجام کب اور کیوں کر ہوا تھا؟ میرا مطلب ہے کہ آپ بتاسکتے ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کا اختتام کب ہوا تھا؟ بے روزگاروں کو روزگار دینے والے شہر کا نام کراچی نہیں ہے۔ ملک بھر کے نامی گرامی ٹھیکیداروں کو جھٹکے دینے والے شہر کا نام کراچی نہیں ہے۔ رشوت لینے اور دینے والوں کے شہر کا نام کراچی نہیں۔ چھینا جھپٹی کے دوران اپنے موبائل فون کے لیے جان دینے والوں کے شہر کا نام کراچی نہیں ہے۔ جہاں تشدد سے مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ نہ ہو، جہاں بوریوں میں مسخ شدہ لاشیں ملنا معیوب نہ ہو، اس شہر کا نام کراچی نہیں ہے۔کراچی کی اپنی جان ہے، پہچان ہے۔ کراچی کی اپنی شناخت ہے۔ کراچی کی اپنی پہچان ہے۔ اچھا یہ بتائیں کہ ممبئی میں سرکلر قائم ودائم ہے یا صفحہ ہستی سے مٹادی گئی ہے؟ دنیا سے ہمارا کیا لینا دینا۔ یورپ والے کیا جانیں کہ سرکلر ریلوے کیا چیزہے۔ ان کےپاس گاڑیوں کی بہتات ہے۔ وہ ریل گاڑیوں میں سفر نہیں کرتے۔ریل گاڑیوں میں دوطرح کی گاڑیاں چلتی ہیں۔ ایک پسنجر ٹرین اور دوسری گڈز ٹرین۔ پسنجر ٹرین میں ہم آدمی سفر کرتے ہیں۔ کراچی سے پشاور اور کوئٹہ تک جاتے اور آتے ہیں۔ گڈز ٹرین میں ہم آدمیوں کا سازو سامان سفر کرتا ہے۔ بھاری بھرکم سامان سے لیکرپھل اور سبزیاں سفر کرتی ہیں۔ آپ بتاسکتے ہیں کہ گڈز ٹرینیں کہاں غائب ہوگئی ہیں؟ گڈز ٹرینوں میں پیٹرول اور ڈیزل بھی سفر کیا کرتے تھے۔ گڈز ٹرینوں کوآسماں کھا گیا یازمین نگل گئی؟ اب پیٹرول اور ڈیزل سے بھرے ہوئے ٹینکر شہروں کے بیچوں بیچ دندناتے پھرتے ہیں۔ ٹینکر الٹ جائے تو لوگ گھر کے برتن لیکرجائے وقوع تک پہنچ جاتے ہیں اور لوٹوں، مگ، جگ میں گرا ہوا پیٹرول اور ڈیزل بھرنے لگتے ہیں۔ آگ لگ جائے توسینکڑوں لوگ کنستروں سمیت جل مرتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ گڈز ٹرینیں کہاں غائب ہوگئیں؟ کیوں بند ہوگئیں؟ کس کےکہنے پر بند کردی گئیں؟ میںنے کسی سےسنا ہے کہ پاکستان میں گنتی کے چند لوگ طاقت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔ ستر اسی برس سے وہ لوگ نسل درنسل پاکستان پر حکومت کررہے ہیں۔ گڈز ٹرینیں کیا چیز ہیں، وہ اگر چاہیں تو پٹریوں سمیت تمام ریلوے کھاجائیں۔ پتھر ہضم، لکٹر ہضم۔ سنا ہے کہ ہمارا دیرینہ دشمن اب بھی بھاری بھرکم سامان کی نقل وحرکت کیلئے گڈز ٹرینیں استعمال کرتا ہے۔ ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہر وہ کام ہم ہرگز نہیں کریںگے جو کام ہمارا دیرینہ دشمن کرتا ہے۔ ویسے تو اصولاً دشمن کے ہرکام کو دشمن کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ دشمن نے اگر سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑے بڑے میدان مارلیے ہیں تو پھر ہمیں محتاط رہنا چاہئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہمیں دوررہنا چاہئے ۔ اگر دیرینہ دشمن تعلیم وتربیت میں بہت آگے نکل گیا ہے، تو پھر اسے آگے نکل جانے دیجئے۔ اسے اتناآگے نکل جانے دیجئے جہاں سے وہ چاہنے کے باوجود واپس نہ آسکے۔ ہمارا کیا کام تعلیم وتربیت سے؟ اگر ان کے ہاں ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسیں چلتی ہیںتو چلنے دیجئے۔ ہم نہیں چلائیں گے ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسیں۔ ہم دشمن کی پیروی نہیں کرسکتے ۔ اگر آپ دشمن کے ہاتھ میں چھری دیکھ لیں توایک لمحہ کیلئے بھی مت سوچیے گا کہ دشمن نے آلو پیاز اور کریلے چھیلنے کیلئے ہاتھ میں چھری اٹھا رکھی ہے۔ دشمن ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھری سے کبھی بھی آپ پر وار کرسکتا ہے۔ آپ کو کاری ضرب لگا سکتا ہے۔دیرینہ دشمن زیادہ تر پڑوسی ہوتے ہیں۔میں جس پڑوس میں رہتا ہوں، اس پڑوس میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے ہیں۔ہمارے پڑوس میں لوگوں نے گھر کا سامان اور برتن بیچ کرکلاشنکوف بندوقیںخرید لی ہیں۔ دشمن کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب آپ پر حملہ کردے۔ اسی طرح دشمن کو بھی آخرتک پتہ نہیں چلتا کہ آپ کب اور کیوں اس پر حملہ کردیںگے۔آپ بھی تواپنے دشمن کےدشمن ہیں۔ دشمن کےبارے میں آپ کو پکی خبرسنادوں۔ اس خبر کی تصدیق چین روس، جاپان، امریکہ اور ناروے والے کرچکے ہیں۔ خبر چھوٹی سی ہے،مگر پتے کی خبر ہے۔ اسٹاک ایکس چینج میں شیئرز کا بھاؤ بڑھ سکتا ہے۔ خبر کچھ اس طرح کی ہے کہ دیرینہ دشمن کے ہوتے ہوئے آپ کبھی غفلت کی نیند سونہیں سکتے۔ آپ آٹھوں پہر چوکنا رہتے ہیں۔ آپ آدمی سے بدل کر ریڈار بن جاتے ہیں۔ دشمن کے آنے جانےوالے جہازوں پر نظر رکھتے ہیں۔Omgکا مطلب ہے اومائی گاڈ۔ نروس نائنٹیز کے آس پاس پہنچنے کےبعد یہی ہوتا ہے۔ درد آپ کے سرمیں ہوتا ہے، مگر آپ کبھی دایاں اور کبھی بایاں گھٹنا سہلاتے رہتے ہیں۔مجھے بات کرنی تھی کراچی کی اور میں قصہ لیکر بیٹھ گیاہوں بدبخت دیرینہ دشمن کا۔فٹے منہ دیرینہ دشمن کا۔ حالانکہ ہم دونوں ایک دوسرے کےدیرینہ دشمن ہیں۔ کراچی کے بارے میں ایک آخری خبر سن لیجئےلاہور میں جب قبضہ گروپ نے ڈیڑھ سوبرس پرانی ٹولیٹن مارکیٹ گرانے کی ٹھان لی تھی تب اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت کیلئے لاہور کا پورا شہر سڑکوں پر نکل آیاتھا۔مگر جب کراچی کی ثقافتی پہچان بولٹن مارکیٹ کوگرایا جارہا تھا، تب کراچی والے نہ گھروں سے باہر نکلے تھے اور نہ کسی اخبار میں کالم یا ایڈیٹوریل شائع ہوا تھا۔

تازہ ترین