عالی مرتبت وزیراعظم جناب شہباز شریف نے جو فرمایا،سب قوم کا سرمایہ۔کہتے ہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی،تلخ اور کڑوے فیصلے نہ کئے تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔کوئٹہ میں کسان پیکیج پر دستخط کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےفرمایا اگر تین سال بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ہمارے پاس ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔
حکومتی پالیسیوںکے سبب ہورہی مہنگائی عام آدمی کی کمر پر مسلسل چابک رسید کئے جارہی ہے ،بے روزگاری کے تازیانوں نے غریب آدمی کی چمڑی اُدھیڑکر رکھ دی ہے، عوام وطن عزیز میں جاری سیاسی دھماچوکڑی کا بوجھ اپنی خمیدہ کمر پر لاد کر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے پھرتے ہیں۔بجلی کے بلوں نے اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ پنکھے کی ہوا کسی طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہوتی ہےآپ جناب وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو یہ کریڈٹ دیں کہ بے چینی و بے قرار ی کے اس ماحول میں وہ کوئی نہ کوئی ایسا چٹکلا ضرور چھوڑ دیتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے ہنسی چھوٹ جاتی ہے ۔ممکن ہے عزت مآب وزیراعظم بھی سوچ سمجھ کر مزاح نگاری کا پہلو اجاگر کرنے کی غرض سے یہ باتیں کرتے ہوں یا پھر شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی کے باعث اس طرح کے جملے خطا ہو جاتے ہوں ۔بہر حال جو بھی سوچ کارفرما رہی ہو ،کم ازکم میں ان کے جملوں سے ضرور لطف اندوز ہوتا ہوں۔جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو تب بھی لوڈشیڈنگ ختم کرنےکے مضحکہ خیز دعوئوں سے بوریت طاری نہیں ہونے دیاکرتے تھے اورپھر جب پی ڈی ایم کے گزشتہ دورِ حکومت میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن تھے تو کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنے جیسے بیانات سے خوب رونق لگائے رکھی ۔اب بھی ان کی جذباتی باتیں سن کر لگتا ہے کچھ نہیں بدلا۔وہی صیاد ،برق و شرر اور باغباں کا گٹھ جوڑ۔وہی باتیں ،ویسی ہی گھاتیں۔نہ غم بدلے ،نہ ہم بدلے ،نہ مزاج یار میں کوئی تبدیلی آئی نہ گل وخار کی روش میں کسی قسم کا فرق آیا۔ہماری وفائیں ،ان کی جفائیں ،نہ انداز فغاں بدلا نہ جور و ستم کا سلسلہ ۔نہ وہ طرز تغافل چھوڑتے ہیں نہ ہم عرض تمنا سے باز آتے ہیں ۔وہی بیچ منجدھار ڈوبتی نائو،ویسا ہی جوار بھاٹا اورظالم ناخدا۔ گویا’’نہ تم بدلے ،نہ ہم بدلے ،نہ دل کی آرزو بدلی۔‘‘
بس اگر یہ طے ہوجائے کہ ’’تلخ ‘‘ اور ’’کڑوے‘‘ فیصلوں سے کیا مراد ہے تو ساری مشکلیں کافور اور تمام غم دور ہوسکتے ہیں ۔اگر تو جناب وزیراعظم کا اشارہ عوام کی طرف ہے تو حضور! ہم دل فگار ،رخت سفر باندھ کر بیٹھے ہیں ، ایک بار پھر قتل ہونے کو تیار ہیں ۔اگر ہماری بھینٹ سے گلشن کا کاروبار چل سکتا ہے ،نظام گلستاں کو بچایا جاسکتا ہے تو ہم پروانوں کی مانند شمع پر مر مٹنے کو تیار ہیں مگر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لینے کے بعد بھی غار کے دہانے پر کسی قسم کی روشنی نظر آئی ہے ؟ہمیں تباہ و برباد کرنے کے بعد بھی بمشکل اتنی رقم جمع ہوپائی ہے کہ اب تک لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی ممکن بنائی جاسکے یا پھر کرائے کے نجی بجلی گھروں کو ’’کیپسٹی پیمنٹ‘‘کے نام پر خون پلانے کا جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہوسکے ۔تکلف برطرف،تلخ اور کڑوے فیصلے تو یہ ہیں کہ خدا خدا کرکے جن آئی پی پیز کے معاہدے ختم ہورہے ہیں ،ان سے جان چھڑوائی جائے مگر آپ کی حکومت ان معاہدوں کی تجدید کرکے مزید دس سال کیلئے یہ طوق عوام کی گردن میں ڈالنے کا اہتمام کر رہی ہے۔تلخ فیصلے واقعی ضروری ہیں اور ان سے مراد یہ نہیں کہ پیٹرول پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا جائے یا پھر بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں بلکہ کڑوا گھونٹ بھر کر یہ طے کرلیا جائے کہ اس ملک میں کسی کو بجلی کا ایک یونٹ یا پیٹرول کا ایک لیٹر بھی مفت نہیں ملے گا ۔ملک بحران کا شکار ہے ،بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ،لہٰذا کسی شخص کو سرکاری رہائشگاہ کی سہولت دستیاب نہیں ہوگی۔یہ ملک شاہانہ اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے کوئی چاہے کتنا ہی بڑا افسر کیوں نہ ہو ،اسے ایک سے زیادہ گاڑیاں رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔پرتعیش گاڑیاں صرف غیر ملکی مہمانوں کیلئے استعمال کی جائیں گی۔یہ تلخ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی فائدے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسی شعبدہ بازیوں پر رقم خرچ کرنے کے بجائے لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنےکیلئے روزگارکیلئے بلا سود قرض فراہم کیا جائے گا۔او ر جناب وزیراعظم ! ایسے تلخ فیصلوں کی فہرست بہت طویل ہے ،یہ کالم تفصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
لیکن وزیراعظم صاحب !مجھے یقین ہے کہ آپ اس قسم کے تلخ اور کڑوے فیصلے نہیں کریں گے اور یہ چمن یونہی رہے گا۔ نہ کبھی پردہ گرے گا اور نہ یہ تماشا ختم ہو گا۔ تین سال بعد ڈوب مرنے کا مقام آکر ہی رہے گا۔ہم نے تو ایسے وزرائے اعظم بھی دیکھے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ خودکشی کرلوں گا مگر قرض نہیں لوں گا لیکن آئی ایم ایف کی دہلیز پر سجدہ ریز بھی ہوئے اور ماشااللہ حیات بھی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)