افغان عبوری حکومت کواب تو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت نہ ان کا دوست تھا نہ ہی کبھی دوست بن سکتا ہے۔ بھارت ہمیشہ’’ بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کے فارمولے پر چلتا ہے۔ بھارت کی مسلم مخالف پالیسیاں افغانوں کے اسلامی نظریات سے متصادم ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ بھارت مسلم دشمن اور پٹھانوں کا مخالف ہے۔ اسلئے بھارت کبھی بھی افغانستان جیسے اسلامی ملک کا دوست نہیں ہوسکتا۔ غور کریں کہ پدماوت،کیسری اور پانی پت جیسی ادوار کی فلموں میں افغان پشتونوں کو بے رحم، ظالم اور دھوکے باز کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری حکومتی ایما پر عالمی ناظرین کے سامنے مسلمانوں اور پشونوں کو مجرموں، بدمعاشوں انسانیت دشمنوں، منشیات فروشوں اور اسمگلروں کے طور پر پیش کرتی ہے تاکہ افغان پشتونوں کیخلاف نفرت اور تعصب کو پھیلایا جا سکے۔ بھارت میں 21000افغان مہاجرین میں 11ہزار افراد پناہ کی تلاش میں زبوں حال ہیں۔ ابھی تک ان افغان مہاجرین کو سرکاری طور پر پناہ گزین تسلیم ہی نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے2500افغان طلبا کے ویزے منسوخ کردئیے ہیں جس کی وجہ سے یہ طلبہ مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہوگئے ہیں۔ انتظامی وجوہات کےبہانے یونیورسٹیوںسے افغان طلبا کو نکالنا دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو دھوکہ دینا ہے۔
بھارت افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کو مدد فراہم کرکے خود افغانستان میں بد امنی پھیلانے اور افغان عبوری حکومت کیلئےجان بوجھ کر مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ افغان سرزمین کو ا ستعمال کرتے ہوئے آئی ایس کے پی اور ٹی ٹی پی بھارت کیلئے کرائے کی قاتل تنظیمیںبن چکی ہیں جو جنوبی اورو سطی ایشیا میں چین کے مفادات کو نشانہ بنارہی ہیں۔ یہ گروہ افغان مفادات کے خلاف ایک ہی چھتری تلے کام کرتے ہیں۔ آئی ایس کے پی کے رہنما عبدالرحیم مسلم دوست کی اپنی ڈور بھارت سے منسلک ہے جو افغانستان میں آئی ایس کے پی کی فنڈنگ کا بنیادی ذریعہ ہے۔ بھارت بڑی تعداد میں اپنے شہری افغانستان میں اپنی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ کے ذریعے افغانستان بھیج کر وہاں موجود دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بناتاہے ان بھارتی شہریوں جن میں بالخصوص غریب بھارتی مسلمانوں کو ’’ را‘‘ بھرتی کرکے افغانستان بھیجتی ہے۔چونکہ بھارت اور اسرائیل دونوں مسلمانوں کے شدید مخالف اور تعصب کا شکار ہیں اس لئے مسلمانوں کے بارے میں ان دونوں ملکوں کی پالیسی بھی ایک ہے اور اس سلسلے میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ اسرائیل نے 1953ءمیں بمبئی میں قونصل خانہ کھولا اور 1960کی دہائی میں فوجی برآمدات شروع ہوئیں۔ گلوبل ساؤتھ اور برکس میں بھارت واحد ملک ہے جو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ فلسطین کے خلاف بھارت اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے اس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ جون 2024میں بھارتی بندرگاہ چنئی سے اسرائیل کو 27ٹن انتہائی مہلک گولہ بارود بھیجا گیا ہے۔ 2018میں ELBIT SYSTEMS نے جنوبی بھارت میں HERMES900نامی ڈرون تیار کرنے کیلئے
بھارت کے ’’اڈانی گروپ‘‘ کے ساتھ شراکت داری کی جو اسرائیل نے غزہ میں فلسطینی مسلمانوں پرجاری حملوں میں استعمال کئے ہیں۔ اسرائیل نے 2014میں بھی غزہ میں قاتل ہرمیس ڈرون کا استعمال کیا تھا جس میں 700سے زائد بے گناہ فلسطینی مسلمان مارے گئے تھے۔ بھارتی ہندو شہری بے شرمی کے ساتھ فلسطین میں اسرائیلی اقدامات میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ بڑھتے تنازعات کے درمیان ریا اور نشا کی اسرائیلی فوج میں حالیہ خدمات نے بھارت کا اصلی چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ بھارت نے اسرائیلی کمپنیوں کو 90ہزار فلسطینیوں کی جگہ ایک لاکھ بھارتیوں کی خدمات حاصل کرنےکی اجازت دی ہے۔ یادرہے کہ ان فلسطینیوں کے ورک پرمٹ 7اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل نے منسوخ کردئیے تھے تاکہ فلسطینی مسلمان معاشی طور پر مشکلات سے دوچار ہوجائیں۔بھارت نےگزشتہ دہائی کے دوران اسرائیل سے2.9بلین ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان درآمد کیا ہے جن میں جنگی ڈرون، میزائل، ریڈار، اور نگرانی کے نظام شامل ہیں۔ ان میں بہت سے ہتھیار غیر قانونی مقبوضہ کشمیر میں استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا رہے۔ مودی سرکار کے دوران بھارت نے مسلم ممالک میں بھی ہندو توا کے فروغ دینے کی کوشش کی اور متحدہ عرب امارات، عمان اور بحرین میں ہندو مندر بنائے۔ بھارت کی مکاری دیکھئے کہ تارکین وطن ہندوؤں کو عبادت کے لئے جگہ فراہم کرنے کی آڑ میں مسلمانوں کی اسلامی مذہبی اور ثقافتی وسماجی جڑوں کوختم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ تمام حقائق افغانستان کی امارت اسلامیہ کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونے چاہئیں۔امارت اسلامیہ افغانستان کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ فلسطین میں مسلمانوں کے قاتل اسرائیل کی بھارت مدد کررہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کوئی پوشیدہ معاملہ نہیں ہے۔ پھر امارت اسلامیہ کس طرح بھارت کا اعتبار کرسکتا ہے۔ بھارت تونہایت مکارانہ طریقہ سے افغانستان کے اندر اس اسلامی حکومت کی جڑیں کاٹ اور بنیادیں کھوکھلی کررہا ہے۔ امارت اسلامیہ کو یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت کی دوستی اور دشمنی دونوں مکاری کی بنیاد پرچلتی ہیں۔ مسلمانوں اور افغان پشتونوں کا دشمن کسی اسلامی ملک اور اسلامی حکومت کا دوست کیسےہوسکتا ہے۔
افغانستان کی امارت اسلامیہ کو چاہئے کہ مسلمانوں کے قاتل اور درپردہ اس افغان حکومت کو کمزور کرنے والے بھارت سے فوری طور پرہرقسم کے تعلقات مستقل بنیادوں پر منقطع کردے اور بھارت کی فنڈنگ اور پشت پناہی سےافغان سرزمین کو استعمال کرنیوالی تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان سب کو افغانستان سے بے دخل کرے اور افغانستان سمیت پورے خطے میں دہشت گردی اور بدامنی پھیلانے والی ان تنظیموں کے خاتمے کیلئے پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے تاکہ افغانستان اور خطے میں امن قائم ہوسکے اور دونوں ممالک اپنے عوام کی معاشی خوشحالی پرپوری توجہ مرکوز کرسکیں اور یہی جذبہ اسلامی کی بنیاد ہے۔