کراچی مئی کے مہینے سے غیر معمولی گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن جولائی کے ابتدائی دو ہفتوں میں جس طرح کی گرمی پڑی اس نے اس شہر کے باسیوں سے دن کا چین اور رات کی نیندیں چھین لی ہیں۔ لوگ 2015کی طرح خوف زدہ نظر آرہے ہیں۔ یاد رہے کہ اب سے نوبرس قبل کراچی میں قیامت خیز گرمی پڑی تھی جس میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ساڑھے بارہ سو افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ کراچی کے مسائل مزید پے چیدہ اور شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن حکومت اور متعلقہ ادارے خوابِ خرگوش کے مزے لیتے محسوس ہوتےہیں۔ دوسری جانب ماہرین کی رائے ہے کہ آلودگی اور دیگر عوامل کے ساتھ نو برس میں موسمِ گرما کی شِدّت کے دو ریکارڈ ٹوٹنےسےآئندہ برسوں میں عروس البلاد میں رہائش مشکل تر ہوتی نظر آرہی ہے۔ لہذا یہ شہر اب ہنگامی اقدامات کا متقاضی ہے۔
مسائل کی دلدل میں دھنستا کراچی
کراچی کے بارے میں کافی عرصے سےشہری منصوبہ بندی ،ماحولیات اور دیگر شعبوں کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ شہر اپنے بڑھتے ہوئے گوناگوں مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ ان دنوں شہرمیں پڑھے لکھے بعض افراد نجی محفلوں میں اس ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے مل جاتے ہیں ۔ بعض ماہرین کے مطابق کراچی شدید خطرات کی لپیٹ میں ہے۔ ابھی موسمِ گرما کی شِدّت سے نکلیں گے تو مون سون میں اگر زیادہ بارشیں ہو گئیں تو شہر پانی میں ڈوب جائے گا۔
دوسری جانب ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ سمندر کی سطح بلند ہونے سے پچیس، چھبّیس برس بعد اس شہر کو بقا کا خطرہ لاحق ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ شہر میں فوری ماحولیاتی ایمر جنسی کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں اس کے برعکس کام ہورہا ہے۔ جگہ جگہ کونو کارپس کے درخت یہ کہہ کر کاٹے جارہے ہیں کہ وہ زیرِ زمین شہری ڈھانچےکو نقصان پہنچارہے ہیں۔ لیکن ان کی جگہ نئے درخت نہیں لگائے جارہے۔ حالاں کہ کراچی کے بہت سے ماحولیاتی مسائل کاواحد حل شجرکاری ہے۔
شہر کے پیڑ،پودے شہر کے ماحول اور درجہ حرارت کا تعیّن کرتے ہیں
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بارہا ایسا ہوچکا ہے کہ سیکڑوں درخت ایک ہی روز میں کاٹ دیے گئے، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی طرح شہر کے کئی علاقوں سے مقامی اور روایتی درخت کاٹ کر ان کی جگہ بیرونِ ملک سے لائے گئےبہ دیسی انواع کے پیڑ پودے لگادیے گئے ،لیکن ایسا کرنے سے پہلے کسی ماہرِ ماحولیات یا ماہرِ نباتات سے مشورہ نہیں کیا گیا۔
اس کے برعکس بہت سے ممالک میں یہ عمل کرنے سے قبل متعلقہ شعبے کے ماہرین سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اتفاقِ رائے سے فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر کے پیڑ، پودے اس شہر کے ماحول اور درجہ حرارت کا تعین کرتے ہیں جو بہت اہم بات ہوتی ہے۔ کراچی میں چند برسوں سے ہم جس سخت موسمِ گرما کا تجربہ کررہے ہیں اس میں شہر کے پیڑ،پودوںکا بہت عمل دخل ہے۔
شہری حلقے اس ضمن میں ایک اور پہلو کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب سے تیس،پینتیس برس قبل تک اس شہر میں نیم، پیپل، برگد، املی، املتاس، جنگلی بادام، شریفے، آم، امرود، شہتوت، پپیتے وغیرہ کے درخت ہر گلی، محلّےاور سڑکوں پر عام طور سے نظر آجاتے تھے ۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ غائب ہوتے گئے اور ان کی جگہ بہ دیسی انواع کے پیڑ، پودوں نے لےلی اور وہ بھی بہت کم تعداد میں۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ ببول ، شیشم، شہتوت، منہدی، انار وغیرہ کے درخت شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شہر سے غائب ہوچکے ہیں۔ اگر معدوم ہونے والے پیڑ، پودوں کی فہرست بنانا شروع کریں تو پورا دفتر کھل جائے گا۔ ایسے میں ماحول بدلنا لازم تھا۔ سو وہ ہوا۔ لیکن اب بھی مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیاجارہا اور بات بیان بازی سے آگے نہیں بڑھ رہی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اپنے دیس کے پیڑوں، پودوں، جھاڑیوں اور بیلوں کو غیروں نے نہیں بلکہ خود ہم نے صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی ہے۔انہیں بڑھتی ہوئی آبادی چٹ کرگئی یا نقد فصلوں کی طمع تباہ کر گئی۔ ان کی جگہ جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں سفیدے اورکونو کارپس کے درختوں کی بھر مار کر دی گئی۔ حاکمانِ وقت نے شہروں کی سجاوٹ کے لیے کھجور کے منہگے داموں منگوائے ہوئے درخت لگوائے یا پھر مغربی ملکوں سے ایسے پودے درآمدکیے گئے جن کا اس ملک کی مٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
عرب ملکوں سے منگوائے گئے کھجور کے درخت اور مغرب سے درآمدکیے گئے پودے ملک کی ذہنی پے چیدگی اور بیگانگی کے بہترین یا بدترین مظاہر ہیں۔اس بیگانگی کا قصوروار بیرونی طاقتوں کو بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا، کیوں کہ انگریزوں کے قائم کیے ہوئے باغات میں ہر دیسی درخت اور پودے کی نمائندگی تھی۔
وہاں دیسی کیکر بھی مل جاتا اور پیپل اور برگد بھی۔ اس کے برعکس ہمارے دیسی حکم رانوں کے بنائے ہوئے نئے پارکس میں ایک بھی دیسی پیڑ یا جھاڑی کا وجود نظرنہیں آتا۔ جب دیس میں ہر جگہ درخت ہی بیگانے ہوگئے تو اس دیس کے پرندے بھی کہیں ہجرت کر گئے۔ اب کووں اور چڑیوں کے علاوہ کوئی پرندہ مشکل ہی سے شہری علاقوں میں نظر آتا ہےکہ ہمارے دیس کے پرندوں کو ان اجنبی پیڑوں میں گھونسلے بنانے نہیں آتے اس لئے وہ منہ چھپا کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔
آنگن والے نیم میں اٹکاچاند
ملک میں دو ،تین دہائیوں میں ہونے والی اقتصادی پیش رفت سے کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ پرانے فطری نظام کی مکمل تباہی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔ یورپ اور امریکا میں پرانے فطری نظام کو بچانے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ بھیڑیوں اور چیلوں تک کو تباہی سے بچانے کے لیے پارک بنائے گئے ۔لیکن پاکستان جیسے ملک میں اپنے پیڑ، پودوں اور چرند ، پرند کی حفاظت تو ایک طرف انہیں ختم کر دینے والی کھاداور کیڑے مار ادویات سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
بعض حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک میں فطری نظام کی مکمل تباہی اور اجنبی درختوں اور پودوں کی بھرمار کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ کب کیا ہوگا، یہ بتانا مشکل ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب پاکستان بھی اپنوں کے لیے بے گانہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی لیے ہر برس ہزاروں پاکستانی بیرونِ ملک کوچ کرجاتے ہیں۔
اب تو ہماری شاعری میں بھی روایتی پیڑ، پودوں اور چرند ،پرند کا تذکرہ کم ہی ملتا ہے جو ہمارے ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔اب نیم کی ٹھنڈی چھاوں، برگد اور پیپل کے درختوں کے سائے میں گزارے ہوئے گرمی کے ایّام کا تذکرہ کہیں سننے کو نہیں ملتا۔کبھی رات کو آنکھ کھلتی تو چودھویں کا پورا چاند بادلوں سے اٹھکھیلیاں کرتا نظر آتا تو کبھی ’’آنگن والے نیم میں اٹکا‘‘ محسوس ہوتا تھا۔ سر سر کرتی ہوا کا شور بھی کسی مدھر تان سے کم نہ لگتا۔ اب نیم ، اور پیپل کے درخت ہیں اور نہ ہی بجلی۔ لوگ ہیٹ اسٹروک سے مریں گے نہیں تو اور کیا ہوگا۔ وائے تباہی۔
نیم ،پیپل اور کیکر
کراچی میں نیم ،پیپل اور کیکر کے درخت قیام پاکستان سے سو سال قبل اس شہر کے برطانوی حکم رانوں اور مقامی لوگوں نے نہایت محبت سے اگائے تھے۔ لیکن ہم نے انہیں بہت بے دردی سے کاٹ ڈالا۔ پھر درختوں میں اضافے کے نام پر اور سیاسی دباؤ پر بدعنوان، نااہل اور بدطینت سرکاری افسروں نے یہاں بڑی تعداد میں لگنم اور سفیدے کے بہ دیسی درخت اگا دیے۔
سفیدے کو مقامی درختوں پر ترجیح دی گئی ،کیوں کہ اس کی شجرکاری میں کام یابی کا امکان سو فی صد تھا۔ اس کا پودا زمین میں لگادیا جائے تو وہ لازمی طور پر درخت بن جاتا ہے کیوں کہ اسے کوئی جانور منہ نہیں لگاتا۔ اپنی ہی سرزمین پر ہمارا یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ دس سال میں پاکستانی اس حقیقت کو بھول گئے کہ سفیدہ غیرمقامی درخت ہے۔
پھر ہم کونو کارپس لے آئے۔اس کے ساتھ کراچی کا ماحول تبدیل ہوتا گیا۔ 1970 میں ملک پر پیٹروڈالر کی یلغار ہوئی اور معمولی تعلیم یافتہ مگر نوآمدہ دولت کے مالک ہنرمند اور نیم ہنرمند لوگوں میں زمین کے حصول کی لامحدود اشتہا پیدا ہو گئی۔ ان حالات میں کراچی میں بے تحاشا رہائشی منصوبے سامنے آنے لگے اور دھڑا دھڑ عمارتیں تعمیر ہونے لگیں۔
یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور اب کراچی کی سرحدیں بہت پھیل چکی ہیں۔شہر میں خالی جگہیں کم پڑنے کے بعد شہر کے ارد گرد موجود وسیع و عریض سرسبز قطعات اراضی اور جنگلات کا رخ کیا گیا اور وہاں سے بھی صدیوں پرانے پیڑ، پودوں اور چرند پرند کا صفایا کردیا گیا۔
کوئل کی کُوک ہے اور نہ بُلبل ومینا کی آواز
ہم نے لاکھوں درخت بے رحمی سے کاٹ ڈالے کیوں کہ نام نہاد ترقی کے منصوبوں میں درختوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وسیع پیمانے پر درخت کاٹنےکے بعد ان لوگوں نے یہاں سجاوٹی جھاڑیاں اور غیرملکی پودے اگا دیے۔تاہم پرانے درختوں کی کٹائی کا عمل آج تک جاری ہے۔ پیپل، برگد، نیم اور کیکر جیسے شان دار اور حیرت انگیز درختوں کی جگہ دھول اڑنے لگی۔ ایسے میں ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ بڑے پیمانے پر نباتی فضلہ پیدا کرنے والے درخت ختم ہو گئے۔ یہ فضلہ ہوا سے کاربن الگ کر کے عالمی حدت میں کمی لاتا ہے۔
اس اقدام کا دوسرا منفی پہلو یہ تھا کہ ان بڑے درختوں میں کئی نسلوں سے رہنے والے پرندے اچانک بے گھر ہو گئے۔ ایک جائزے کے مطابق1970کے عشرے میں کراچی میں مختلف اقسام کے170پرندے پائے جاتے تھے۔ ان میں وہ غیرملکی پرندے شامل نہیں ہیں جو ہر دو سال بعد یہاں سے گزرتے ہوئے سستانے کے لیے رک جاتے تھے۔
اب اس شہر میں صرف چند ہی اقسام کے پرندے باقی رہ گئے ہیں۔ اب یہاں زیادہ تر علاقوں میں نہ کوئل کوکتی ہے اور نہ مینا کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ہم اپنے پروں والے دوستوں کے نغموں سے ہی محروم نہیں ہوئے بلکہ ان کا حسن بھی ہمارے لیے اجنبی ہو چکا ہے۔
مقامی اور روایتی پیڑ، پودے
ماہرین ماحولیات کے مطابق ہر خطّےکے کچھ مقامی اور روایتی پیڑ، پودے ہوتے ہیں جو اس کے ماحول سے اچھی طرح ربط قائم کرچکے ہوتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض کو کسی زمانے میں کسی اورخطّے سے لاکرلگایا گیا ہو، لیکن طویل وقت گزرنے کی وجہ سے وہ اس خطّے کے ماحول کا حصّہ بن گئے ہوں۔ ایسا تقریبا ہر خطّے میں ہوتا ہے۔ لیکن کسی اور خطے سے لاکر لگائے گئے بعض پیڑ، پودے حملہ آورنوع ثابت ہوتے ہیں جو مقامی پیڑ ، پودوں پر تیزی سے غالب آنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ ہر جگہ حملہ آورنوع کے پیڑ پودے بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔
مثلا کیکر کا درخت ہمارے خطےمیں انگریزوں نے متعارف کرایا تھا۔ وہ اسے میکسیکو سے لائے تھے۔ یہ غالبا 1878 کی بات ہے۔ پاکستان میں یہ صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ تعداد میں نظر آتا ہے۔ یہ یہاں حملہ آور نوع بن گیا ہے۔ دراصل سندھ ریتیلا علاقہ ہےاس لیے انگریزوں نے یہاں کے لیے کیکر کے درخت کا انتخاب کیا تھا، کیوں کہ یہ کم پانی ملنے کے باوجود تیزی سے بڑھتا اور اپنی تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔
انگریزوں کے سامنے سندھ کے حوالے سے مسئلہ یہ تھا کہ یہاں کے زیادہ ترجنگلی اور فطری پیڑ، پودے زیادہ بڑے اور گھنے نہیں تھے۔ انگریزوں نے برصغیر پاک وہند کے اور بھی علاقوں میں کئی بہ دیسی انواع کےپیڑ ، پودے متعارف کرائے جن کی وجہ سےکئی مقامی اور روایتی پیڑ پودوں کی تعداد میں تیزی سے کمی دیکھی گئی۔
اس خِطّےمیں سفیدے کا بھی درخت انگریزوں نے پہلے پہل متعارف کرایا تھا۔وہ 1920 کا زمانہ تھا۔ کراچی میں اسے بڑے پیمانے پر لگانے کا کام شہر کے سابق میئر عبد الستّار افغانی کے دور میں شروع کیا گیا تھا جو بعد میں بھی جاری رہا ۔ لیکن جب اس کے منفی اثرات سامنے آئے توان درختوں کو کاٹا جانے لگا،تاہم یہ نہیں سوچا گیا کہ اس سے کراچی کے ماحول پر کیا اثر پڑے گا۔ دراصل یہ درخت زیر زمین موجود پانی اور گند آب کی نکاسی کی لائنز کو نقصان پہنچا رہا تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں سیدھی اور بہت گہرائی تک جاتی ہیں تاکہ پانی حاصل کرسکیں۔ دوم یہ کہ یہ زیرِ زمین موجود پانی کو کافی مقدار میں استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد لگنم کا درخت لاطینی امریکا سے لاکر یہاں لگایا گیا۔
کراچی میں بھی اسے وسیع پیمانے پر لگایا گیا ۔ سابق سٹی ناظم ،مصطفی کمال کے زمانے میں کراچی میں جو درخت وسیع پیمانے پر لگایا گیا اسے کونو کارپس براڈ لیو، کہتےہیں۔ ریاست ہائے متحدہ ،امریکا، کی شمالی ریاست، فلوریڈا ، اس کا اصل وطن ہے۔اسے کچھ عرصہ قبل کویت میں بھی لگایا گیا۔کراچی دراصل ریگستانی علاقہ ہے اور یہاں کی زمین اور زیرِ زمین پانی میں نمک پایا جاتا ہے، یعنی سیلائن ہے۔
کونو کارپس ایسے علاقے میں تیزی سے نمو پاتا ہے۔ شاید صرف یہ دیکھ کر ہمارے اربابِ اختیار نے اسے کراچی میں لگانے کا فیصلہ کرلیا ہو، مگر اس کے منفی پہلووں پر غور نہیں کیا گیا۔ کھجور کا درخت بھی مقامی نہیں ہے۔اسے یہاں سب سے پہلے سکندرِ اعظم لایا تھا۔ پھر عرب بھی ساتھ لائے۔ اس کا اصل وطن عراق ہے۔ اب یہ یہاں خود اُگ جاتا ہے اور سندھ کے بعض علاقوں میں بہترین فصل دیتا ہے۔
بہ دیسی انواع کے پودے
یورپ اور امریکا میں بھی پہلے بڑی تعداد میں بہ دیسی انواع کے پودے لگائے گئے ۔پھر جوں جوں ان کے ہاں تحقیق ہوئی اور نقصانات سامنے آتے گئے، انہیں اس بارےمیں عقل آتی گئی ۔ پندرہ بیس برسوں سے ان کے ہاں اس بارے میں بہت سنجیدگی سے کام ہورہاہے اور اب وہ مقامی اور روایتی پیڑ پودے، لگانے پر زور دے رہے ہیں۔ مثلا ایڈی لیڈ میں تیس لاکھ مقامی اور رویتی انواع کے درخت لگانے کا منصوبہ رو بہ عمل ہے۔
کراچی میں کل کتنے درخت ہیں اور کن کن انواع کے ہیں؟ اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ کسی کو کچھ نہیں معلوم اور نہ ہی یہ معلوم کرنے کے لیے کبھی کوئی کوشش ہوئی۔ آج دنیا کی نصف آبادی شہروں میں رہ رہی ہے اس لیے بہت سے ممالک میں شہر کی انتظامیہ یا متعلقہ سرکاری اداروں کے پاس شہر کے بارے میں ہر طرح کی معلومات ہوتی ہیں۔ آج تو دنیا میں یہ ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے کہ کس ملک میں درختوں کی فی کس تعداد کتنی ہے،یعنی پر کیپیٹا ٹری۔ کراچی کا حال یہ ہے کہ یہاں عزیز بھٹّی جیسے بڑے پارک میں بھی بہت ہی کم درخت ہیں۔
چند برس قبل جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل اسٹڈیز کے شعبے کےطلبا نے تحقیق کی تو اندازہ ہوا کہ شہر کے اٹھارہ میں سے دس ٹاوئنز کے پارکس میں درخت بہت ہی کم تعداد میں ہیں یا بالکل نہیں ہیں۔ اس وقت کراچی میں بڑے پیمانے پر موجود درختوں میں سے نوّے فی صد اس خطّے کے نہیں ہیں، یعنی وہ بہ دیسی انواع سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق آسٹریلیا، امریکا، افریقا اور یورپ سے ہے۔ ہمارے مقامی اور روایتی درخت اب خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
شجرکاری میں تنوّع
ماہرین بتاتے ہیں کہ کسی علاقے میں وسیع پیمانے پر شجرکاری کرنے کے ضمن میں اب یہ بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ مونو کلچر پلانٹنگ نہ ہو۔یعنی تمام درخت ایک ہی قسم یا نوع کے نہ ہوں، بلکہ ان میں تنوّع ہو اور جینیٹک بیرئیر ہو۔ ایسا کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی نوع کے درختوں پر کوئی بیماری حملہ کرتی ہے تو دوسری نوع کے درخت اس سے محفوظ رہتے ہیں اور صرف بیمار درختوں کو کاٹنا پڑتا ہے۔
یعنی وہ علاقہ درختوں سے بالکل خالی نہیں ہوجاتا۔ امریکا میں ایل ٹری بڑے پیمانے پرلگایا گیا تھا۔ ان پر بڑے پیمانے پر بیماری حملہ آور ہوئی تو حکام کو تمام متاثرہ درخت کاٹنے پڑے جس سےماحول پر بہت منفی اثر پڑا ۔اب ماہرین شہروں کی انتظامیہ کو شجرکاری کے ضمن میں مشورہ دیتے ہیں کہ کم از کم دس فی صد کی شرح سے ایک نوع کے پیڑ ، پودے لگائیں۔
شہر میں پیڑ پودوں کے حوالے سے کیا اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں؟ اس حوالے سے ماہرینِ نباتات کا کہنا ہے کہ ہم ارد گرد نظر ڈالتے ہیں تو درختوں کے حوالے بہت کچھ بدلا ہوا پاتے ہیں۔ مثلا آج جامعہ کراچی کی حدود میں لگے درختوں میں سے پچاس فی صد وہ نہیں ہیں جو پچیس تیس برس پہلے تھے ۔ اب یہاں صرف چار، پانچ انواع کے پیڑ، پودے غالب نظر آتے ہیں۔
کراچی میں پہلے عوام اور متعلقہ ادارے کئی طرح کے پودے لگاتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسی خطّے سے تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں کراچی میں کافی تعداد میں نیم کے درخت لگائے گئے تھے۔ ریڈیو پاکستان کی عمارت کے سامنے آج بھی زیادہ تر درخت نیم کے ہیں۔
بہ دیسی انواع کی شجرکاری کے ضمن میں بعض ماہرینِ نباتات کا موقف ہے کہ کونو کارپس درخت کے بجائے ایک قسم کی جھاڑی ہے۔تاہم بعض ماہرین اس موقف سے اختلاف کرتے ہیں۔ اسے جھاڑی کہنے والوں کا موقف یہ ہے کہ اس کی شاخیں ڈی فیوزڈ ہوتی ہیں، یعنی یہ چھدری یا پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ،اس کا تنا لمبائی میں بڑھتا ہے اور یہ کینوپی یا چھتری نما شکل نہیں بناتا۔ یہ بھی زیرِ زمین پانی کی بڑی مقدار استعمال کرتا ہے۔
لہذا اب سفیدے کے درختوں کی طرح ہم انہیں بھی کاٹ رہے ہیں۔اسلام آباد میں بھی بہ دیسی انواع کے درختوں کے ساتھ ایسے کئی تجربات کیے جاچکے ہیں۔کونو کارپس کے پولن یا اسپورزکے دمے اور الرجی کے مریضوں پر منفی اثرات کے بارے میں ہونے والی تحقیق اس کی تردید بھی کرتی ہے اور تصدیق بھی۔
پرندوں کی سفیدے اور کونو کارپس سے دوستی نہیں
بہ دیسی انواع کے پیڑ، پودوں کی ہمارے ماحول سے مطابقت کے حوالے سے یہ تحقیق کی گئی تھی کہ مقامی اور روایتی پیڑ، پودوں پر کن کن اقسام کے اور کتنے پرندے یا جانور آتے یا گھونسلا بناتے ہیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ وہ سفیدے اور کونو کارپس کے درختوں کا رخ نہیں کرتے۔ دراصل کسی علاقے کے پرندے اور جانور روایتی اور مقامی پیڑ، پودوں سے خوراک اور دیگر فائدے حاصل کرتے ہیں۔
جب وہ پیڑ، پودے ختم کردیے جاتے ہیں تو ان جان داروں کو خوراک اور ٹھکانہ نہیں ملتا۔ ایسے میں وہ مرجاتے ہیں یا اپنا ٹھکانہ تبدیل کرلیتے ہیں۔ یہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کا اصول کہلاتا ہے۔ جو جان دار نئے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کرپاتا اس کی نسل ختم ہوجاتی ہے۔ یہ عمل بہت بڑا ماحولیاتی نقصان ہوتا ہے۔ اسے چھوٹا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔
گھنےاور سایہ درخت کراچی کی اشد ضرورت
کراچی میں موسمِ گرما کی بڑھتی ہوئی شدت کے ضمن میں ماہرین ماحولیات و موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی ایئر پورٹ کا 1947 سے اب تک کا موسمیاتی ڈیٹا بتاتا ہے کہ شہر کےدرجہ حرارت میں دو ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شہر میں عمارتوں اور سڑکوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ کنکریٹ کی عمارتیں دن بھر گرمی جذب اور رات کو خارج کرتی ہیں۔
کراچی جیسے شہر کے لیے اشد ضروری ہے، خصوصا سڑکوں پر،کہ یہاں کینوپی والے یا گھنےاور سایہ درخت لگائے جائیں جو مقامی، روایتی یا کم ازکم اسی خطّے کے ہوں۔ لیکن یہ کام منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کم ازکم تین چار برس میں مکمل ہوگا۔ اس کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ عموما یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے مقامی اور روایتی درخت چار پانچ برس میں گھنے ہوتے ہیں اور دو تین برس تک ان کی زیادہ دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔
ان کے مقابلے میں سفیدے اور کونو کارپس جیسے درخت بہت کم دیکھ بھال کے ساتھ ایک ڈیڑھ برس میں کافی بڑے ہوجاتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ یہ دونوں اقسام کے درخت ایک ساتھ لگائے جائیں اور جب مقامی اور روایتی انواع کے درخت بڑے ہوجائیں تو دوسری انواع کے درخت کاٹ کر ان کی جگہ پہلی قسم کے مزید درخت لگادیےجائیں۔
بہ دیسی انواع کے تیزی سے پھیلنے کے بارے میں ماہرین کا موقف یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ بعض بہ دیسی انواع کے پیڑ،پودے اور جانور حملہ آور نوع ثابت ہوتے ہیں اور وہ مقامی پیڑ، پودوں کو ختم کرکے اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں۔مثلا سندھ میں کیکر کا درخت حملہ آور نوع ثابت ہوا ہے۔ لیکن کونو کارپس کے بارے میں ابھی ایسے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔
دراصل جس پیڑ، پودے کی نشوونما کا مکینزم اچھا ہوتا ہےوہ چھا جاتا ہے۔ مقامی اور روایتی پیڑ، پودے کسی علاقے میں صدیوں سے پھل پھول رہے ہوتے ہیں، کیوں کہ انہوں نےاس علاقے کے ماحول سے مطابقت پیدا کرلی ہوتی ہے اور ان کا کوئی حریف نہیں ہوتا۔ لیکن جب کوئی بہتر حریف سامنے آجاتا ہے تو سر وائیول آف دی فٹسٹ کا نظریہ کام کرتا ہے۔