• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق خاتون اول بشری بی بی ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہیں۔مختلف اطراف سے دشنام طرازیوں کے تیر ہیں جو مسلسل برسائے جا رہے ہیں۔کبھی عدت کیس کے نام پر تذلیل کا سامان کیا جا رہا ہے،تو کبھی سابق خاوند کی درفطنیوں سے نئے نئے چٹکلے اخذ کیے جا رہے ہیں،میری دانست میں بشری بی بی کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ ایک عورت ہیں اور پاکستان کے سب سے مقبول رہنما کی اہلیہ ہیں،ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہمیشہ ذہنی چاند ماری کیلئے آسان تختہ مشق سمجھا جاتا ہے،لیکن بشری بی بی اس راستے کی پہلی مسافرنہیں ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے جب اس دور کے حکمران کو چیلنج کیا تو مادر ملت اور قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ کے ساتھ وہ کچھ کیا گیا جسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی شرمناک کہا جا سکتا ہے۔ عورت کی حکمرانی کے مسئلہ کو آڑ بنا کر ان کی کردار کشی کی گئی۔لیکن ان کے قدم نہ ڈگمگائے وہ الیکشن تو ہار گئیں لیکن بہت سے چہروں کو انہوں نے بے نقاب کر دیا۔اس امتیازی رویے کی دوسری بڑی شکار جناب ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ محترمہ بیگم نصرت بھٹو تھیں۔لاہور کی سڑکوں پران کے سروں سے دوپٹے کھینچے گئے ، ان پر طرح طرح کے مقدمات بنائے گئے،جیلیں اور کال کوٹھڑیاں ان کا مقدر ٹھہریں، بینظیر بھٹو کے سامنے ان کے باپ کو پھانسی پہ لٹکا دیا گیا ان کے بھائی قتل کر دیے گئے ،قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر جب انہوں نے قدم رکھا تو ان پر آواز ے کسے گئے۔لیکن قدرت نے آوازیں کسنے والوں سے یوں انتقام لیا کہ میثاق جمہوریت کے نام پر ایک مرتبہ پھر اسی خاتون کے ساتھ بیٹھنا پڑا جن کی تصویریں ہیلی کاپٹر سے گراتے رہے تھے۔۔صنفی امتیاز کے اس معاشرتی رویے کا شکار محترمہ کلثوم نواز بھی رہیں۔جب وہ لندن کے ہسپتال میں زیر علاج تھیں تو ان کی بیماری کا مذاق اڑایا گیا۔ان کے متعلق ناگفتنی کہی گئی۔لیکن وہ یہ باتیں سنتے سنتے قبر میں اتر گئیں۔اور اب بشری بی بی سب کے نشانے پر ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر یاسمین راشد، صنم جاوید، عالیہ حمزہ اور کئی دیگر خواتین بھی ریاستی جبر کا شکار ہیں لیکن جو کچھ محترمہ بشری بی بی کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان کے خلاف ایک ایسا بیہودہ مقدمہ قائم کیا گیا جس کی نہ کوئی اخلاقی حیثیت تھی اور نہ قانونی۔عدت کیس کے حوالے سے مختلف فقہانے اپنی اپنی آرا پیش کیں جن کا مجموعی نتیجہ یہ تھا اگر دوران عدت نکاح کر بھی لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اسے نکاح فاسد کہا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی کوئی فوجداری جرم نہیں۔ اور اگر ایک لمحہ کیلئے یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ کہ نکاح غلط تھا تو بھی یہ انکا ذاتی معاملہ تھا۔ریاست کو اس میں دخل کا کوئی حق نہ تھا۔لیکن اس ایشو کو بنیاد بنا کر محترمہ کے کردار پر کیچڑ اچھالا گیا، ان کے سابق خاوند کی طرف سے ایسا مقدمہ دائر کیا گیا جس میں واحد گواہ ان کا گھریلو ملازم تھا۔مقدمے کی سماعت کے دوران ایسے ایسے سوالات کیے گئے کہ جنہیں دہراتے ہوئے بھی انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔تحریک انصاف سے عدم اتفاق رکھنے والا کوئی بھی شخص اس بات کی تائید نہیں کر سکتا کہ اس نوعیت کے گھریلو اور ذاتی معاملات کو عدالتوں میں زیر بحث لایا جائے یا انہیں میڈیا کی زینت بنایا جائے۔کئی معاشرتی بیماریوں کا ادراک کیے بغیر ماتحت عدالت سے ایک ایسا فیصلہ دلوایا گیا جس سے طلاق شدہ خواتین کو بلیک میل کرنے کا ایک نیا راستہ کھول دیا گیا۔ایسے ناہنجار اور بدقماش لوگ جن سے خواتین نے بمشکل طلاق حاصل کی ہوتی تھی انہیں یہ حق دے دیا گیا کہ وہ طلاق کے بعد کسی بھی وقت ان کے خلاف مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔نہ نکاح کے دوران عورتوں کو سکون میں رہنے دیا جائے اور نہ ہی طلاق کے بعد انہیں چین سے زندگی بسر کرنے دی جائے۔ان سارے رکیک حملوں کے باوجود عمران خان کی اہلیہ ثابت قدم رہیں نہ تو انہوں نے کوئی کمزور بات کی نہ ہی عمران خان کے خلاف بیان دیا اور حکومت کی وہ ساری کاوشیں بے کار ہو گئیں کہ جن سے عمران خان کی شخصیت پر کوئی ایسا داغ لگایا جائے جس سے انہیں کمزور کیا جا سکے۔ بشری بی بی استقامت کی ایک نئی مثال بن کر سامنے آئی ہیں۔مفاد پرستی، عہدوں کی بندر بانٹ سے دور بیٹھ کر وہ اپنے خاوند کے ساتھ وفا کا ایک عظیم رشتہ نبھا رہی ہیں۔دور اقتدار کے دوران کئی کہانیاں انکے ساتھ منسوب رہیں،داستان گو کالم نگاروں نے اپنا اپنا منجن بیچا لیکن انہوں نے ایک وفا شعار بیوی کی طرف اپنے خاوند کا غیر مشروط ساتھ دیا۔وہ جیلوں اور عدالتوں کے درمیان چکر کاٹ رہی ہیں لیکن ’’چکر بازوں‘‘ کے چکروں سے بچ نکلی ہیں۔ انہوں نے مشرقی عورت کے وقار کا بھرم رکھا ہے۔ غیر ضروری معاملات پر باوقار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔انکے اس باوقار طرز عمل سے ملکی سیاست اور تحریک انصاف کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔اب وقت ا ٓگیا ہے کہ خواتین کا بطور ہتھیار استعمال ختم کیا جائے۔9مئی کے مقدمات میں پابند سلاسل خواتین رہا کی جائیں۔بشری بی بی سمیت جملہ خواتین سیاستدانوں کیساتھ صنفی امتیاز روا رکھنا بند کیا جائے اور اپنے معاشرے کو خواتین کیلئے محفوظ بنایا جائے۔

تازہ ترین