غلام کے پاس نہ کوئی آپشن ہوتا ہے نہ چوائس۔ وہ بدترین جبر کا بے بس شکار ہوتا ہے۔ غلام کی اپنی کوئی مرضی، رضا یا ’’فری وِل‘‘ نہیں ہوتی۔ غلام چاہے سپارٹکس جیسا سرکش او رباغی ہی کیوں نہ ہو، اسے اپنے آقا کے سامنے سرنڈر کرنا ہی پڑتا ہے۔ غلام کتنا ہی تنومند، طاقت ور، جانباز، سرفروش اور وحشی کیوں نہ ہو ......اپنے منخنی، کمزور، کوزہ پشت اور معذور ترین آقا کے مقابل ہلکا اور کمزور ترین ہوتا ہے۔ غلام زندہ ہونے کے باوجود بے جان کٹھ پتلی کی مانند اپنے آقا کے اشاروں پر ناچنے کیلئے مجبور ہوتا ہے اس لئے غلاموں کو برا بھلا کہنا، گلہ شکوہ یا نفرت کرنا بری بات ہے اور پھر جب غلامی صدیوں پر پھیل جائے، نسل در نسل نسوں میں اتر جائے، رگوں اور روحوں میں سما جائے تو پھر یہ منحوس غلامی......غلاموں کی سیکنڈ نیچر یعنی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے اور پھر اگر کسی معجزے کے سبب غلام آزاد بھی ہو جائے تو اس کے طور طریقے، قرینے سلیقے ، آداب و اسلوب ، رہن سہن ، بود و باش، نشست و برخاست، عادات و ترجیحات غلاموں جیسی ہی رہتی ہیں۔
ہمارا عظیم صوفی شاعر ٹھیک ہی کہتا ہے
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھما زخمایا
’’نیچ‘‘ دراصل کوئی ذات نہیں، ایک رویہ ہے، ایک کیفیت ہے جو صدیوں کے مسلسل جبر کا نتیجہ ہوتی ہے یعنی پھر وہی بات کہ غلامانہ نیچ پن قابل نفرت و حقارت نہیں، بالکل ایسے ہی جیسے پاگل کو تو قانون بھی خون تک معاف کر دیا کرتا ہے۔
اصل میں تو وہ آقا قابل نفرت و مذمت ہوتے ہیں جو جن چیزوں پر قابو پا لیتے ہیں ......انہیں چیزوں کے بدترین غلام بن جاتے ہیں۔ اس سے بڑا انسانی المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان جسے اپنا غلام بنا لے ......خود اس کا غلام بن جائے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی داروغۂ زندان خود اپنے قیدیوں کا قیدی بن کر ان کے اشاروں پر ناچنے لگے۔
ہمارے حکمران طبقات عموماً ایسے ہی بدترین آقا ہیں جو اپنے ہی غلاموں کے غلام بن جانے کو ’’آزادی‘‘ اور ’’عزت‘‘ کی علامت سمجھتے ہیں۔
بات تھوڑی باریک اور ذرا سی پیچیدہ ہے لیکن معمولی سی فالتو کوشش سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔ مثلاً آپ اس آدمی کو کیا کہیں گے جو ہر قسم کے حربے استعمال کر کے ’’دولت‘‘
کو اپنا غلام بنا لے اور پھر اسی دولت کا اسیر ہو کر اس کے اشاروں پر ناچنے لگے اور نتیجہ میں یہ ’’دولت‘‘ جسے اس کی ’’کنیز‘‘ ہونا چاہئے، اس کی ’’مالکن‘‘ بن جائے، جسے باعث راحت ہونا چاہئے وہ باعث زحمت بن جائے اور اس مضحکہ خیز کھیل کے دوران آقا کبھی جان ہی نہ پائے کہ وہ تو کب کا اپنے منصب سے گر کر غلام بن چکا ہے۔ یہی حال طاقت کا ہے۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ گواہ ہے کہ گنتی کے چند باوقار لوگوں کو چھوڑ کر بھاری اکثریت ان لوگوں کی رہی جو طاقت پر قابو پا کر خود اس کے قیدی بن گئے......اقتدار کو زیر کرنے کے بعد اس بری طرح اس کے زیر اثر آئے کہ بری طرح ذلیل و خوار ہو گئے۔ جس طاقت نے انہیں عزت بخشی، اسی طاقت کے ہاتھوں بری طرح بے عزت ہو کے رخصت ہوئے اور ان میں سے بہتوں کے تو آج نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ یہی حال شہرت کا ہے کہ صرف سیاست ہی نہیں، باقی شعبوں میں بھی یہی بدنصیبی دہرائی گئی۔ شہرت پر کنٹرول حاصل کیا اور پھر جب دماغ کو چڑھ گئی تو خود اس کے کنٹرول میں آنے کے بعد روبوٹ کی طرح ایکٹ کرنے لگے۔ ہماری فلم انڈسٹری مرحومہ میں بہت سے سٹارز ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے بے پناہ شہرت پائی لیکن راس نہیں آئی اور وہ اپنی ہی اس ’’کنیز‘‘ کے ’’غلام‘‘ بن کر بری طرح برباد ہو گئے اور کسمپرسی کے عالم میں یوں ریڑیاں رگڑتے رہے کہ پوچھنے والا کوئی نہ تھا لیکن ان کی خیر ہے کہ جب کوئی فن کار اپنی فتح شدہ دولت و شہرت کا ’’مفتوح‘‘ بن کر مسخ اور مفلوج ہوتا ہے تو صرف خود کو برباد کرتا ہے جبکہ حکمران ایسے رویے اختیار کریں تو خود اپنے ساتھ قوموں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔ دولت، طاقت، شہرت کسی طرح بھی شیر کی سواری سے کم نہیں کہ سوار جونہی ذرا ڈھیلا پڑتا ہے ......سواری اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ عبرت کی مزید کتنی مثالیں ہماری منتظر ہیں لیکن یہ بات طے کہ غلام نہیں ......وہ آقا قابل مذمت ہوتے ہیں جو اپنے غلاموں کے غلام بن کر رسوائی اختیار کر لیتے ہیں۔