یہ ایک ابدی ہے کہ انسانی تاریخ واقعات اور سانحات سے بھری ہوئی ہے،جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یادوں سے محو ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تاہم یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ واقعۂ کربلا کو گزرے ہوئے چودہ صدیاں گزر گئیں، مگر آج بھی غم حسین زندہ ہے، پوری دنیا کے مسلما ن 10 محرم کے واقعے پر دل گرفتہ ہیں۔ امام عالی مقام ؓ کی عظیم قربانی قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
آپ نے بچپن سے شہادت تک علم کے جوہر دکھائے،عالم انسانیت کے روشن چراغ، جرأت و شجاعت کے بے مثال کردار، نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسین ؓنے کربلا میں باطل نظریے پر کاری ضرب لگا کر دشمنوں کو ہمیشہ کےلیے نیست ونابود کر دیا۔ آپ کی قربانی نامساعد حالات کے باوجود حق کے لیے باطل قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیتی ہے۔
آپ نے کربلا کے میدان میں اپنے اصحاب کے ساتھ رہنما اصول پیش کر کے حق وباطل میں ایک لکیر کھینچ دی۔ آپ نے اپنے اہل بیت واصحاب کی قربانی پیش کر کے اسلام کو زندہ کر دیا۔
شہید کربلا حضرت امام حسینؓ اور سپاہ یزید کی جنگ تلواروں کی نہیں، بلکہ اصولوں کی جنگ تھی ،کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یزید نے جو اسلام کے نام پر اقتدار کا ڈھانچہ کھڑا کیا ہے، وہ غیراسلامی اور غیرشرعی ہے ،اس میں حرام وحلال کی حدود مٹا دی گئی ہیں، اس کا اصرار تھا کہ کسی طرح سے حسینؓ سے بیعت لے لی جائے۔
آپ کو یہ کیسے گوارا تھا کہ آپ یزید کی بیعت کریں، چناںچہ آپ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے اور وہاں سے عا زم کربلا ہوئے۔ ایک مقام آیا آپ نے دریافت کیا کہ اس جگہ کو کیا کہتے ہیں، بتایا گیا کہ اس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ آپ نے آبدیدہ ہو کر کہاکہ یہی جگہ ہماری قتل گاہ ہے، چناںچہ وہیں خیمے نصب کر دیئے گئے، مگر جب یزید کو خیمے نصب کرنے کی اطلاع ملی تو اس نے حکم دیا کہ آپ کے خیمے وہاں سے ہٹا دیئے جائیں۔
اس پر انصار جوش میں آگئے اور حضرت عباس علمدار نے کہاکہ کس کی مجال ہے کہ میرے ہوتے ہوئے خیام حسینی کو یہاں سے ہٹایا جائے، لیکن امام عالی مقامؓ نے سب کو سمجھا بجھا کر وہاں سے خیمے ہٹالئے اور دریائے فرات سے تین میل کے فاصلے پر میدان میں خیمے نصب کئے ،جہاں پانی کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا، آپ کا طرز عمل یہ بتاتاہے کہ آپ کا مقصد جنگ وجدل نہیں تھا، بلکہ اپنے نانا کے دین کی حفاظت کرنا تھا۔
شب عاشور امام عالی مقامؓ اور آپ کے انصار نے عبادت میں گزاری، دسویں کی صبح ہوتی ہے۔ آپ نے فوج اشقیا ءکو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ تم جانتے ہو کہ میں نبی کریمﷺ کا نواسہ ہوں۔ علیؓ کا بیٹا ہوں۔ ہمارے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن ؓوحسینؓ جوانان جنت کے سردار ہیں۔ تم لوگ کیوں میری جان لینے پر آمادہ ہو؟ افسوس کہ آپ کی اس تقریر کا بھی فوج اشقیاء پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
بالآ خر جنگ کاآغاز ہوتا ہے، پہلے حسینؓ کے دوست حبیب ابن مظاہر، جناب زہیر، نافع ابن ہلال، مسلم ابن عوسجہ، عابس شاکری، بریر ہمدانی جاتے ہیں اور داد شجاعت دکھاتے ہوئے شہید ہوتے ہیں۔ اب اقربا کی باری آتی ہے، قاسم وعون محمد گئے، اتنی بے جگر ی سے لڑے کہ دشمن کی فوج میں ہلچل مچ گئی۔ جعفر بن عقیل نے 15 دشمنوں کو واصل جہنم کیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔
محمد بن عبداللہ جعفر میدان میں آئے اور شہید ہوئے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ جب آپ کے لخت جگر نور نظر حضرت علی اکبرؓ نے اذن جہاد کی اجازت چاہی۔ علی اکبر آگے بڑھے اور نہایت دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس کے بعد آپ اپنے چھ ماہ کے شیرخوار علی اصغر کو میدان میں لے کر آئے اور کہا کہ اے فوج اشقیاء، اسے تھوڑا سا پانی پلا دو، جواب میں ایک تیر آیا اور بچے نے باپ کے ہاتھوں پر دم توڑدیا۔
ایک وقت ایسا آیا کہ آپ تنہا رہ گئے اور فوج یزید نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا، آپ نے تلوار کھینچ کر دشمن پر حملہ کیا تین دن کے بھوکے پیاسے نے میدان کربلا میں جرأت اور جواں مردی کی ایسی مثال قائم کی جس پر تاریخ انسانیت آج بھی ناز کرتی نظر آتی ہے۔