سپریم کورٹ نے پاکستانی تاریخ کا ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں واپس کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ کہا ہے کہ انتخابی نشان کے نہ ملنے سے کسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکا جا سکتا۔مبصرین سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے سے یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے عام شہریوں کو جمہوریت کی نہ صرف ضرورت ہے، بلکہ وہ اس کے مستحق بھی ہیں کیونکہ یہ جمہوریت ہی ہے جس کا وعدہ انکےابائو اجداد سے کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے غیر جمہوری روش اور اقتدار برقرار رکھنے کیلئے جائز و ناجائز حربوں کے استعمال کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ ان حالات میں جبکہ ججوں کو مختلف اطراف سے دبائوکاسامناتھا ، اس فیصلے کا آنا جمہوری ارتقا کیلئے ایک نیک شگون ہے اور اب سیاسی جماعتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اکٹھی بیٹھ کر عوام میں جمہوری اقدار اور روایات کو فروغ دینے والے سماج کو ارتقا پذیر کریںاور یہ معاہدہ کریں کہ وہ آئندہ کبھی غیرجمہوری عناصرکی مدد نہیں لیں گی اور جو بھی جماعت انکی مدد سے جیتے گی ، اسے حکومت بنانے سے باز رکھیں گی۔اسکے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو بھی اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف جو اپیل دائر کی تھی، اسے فوراً واپس لے لینا چاہیے۔ یاد رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھناچیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ کی ایک اہم کامیابی تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے پہلے ثاقب نثار اور بندیال کے ادوار میں مبصرین کہا کرتے تھے کہ ہمیں بینچ دکھائواور ہم فیصلے پہلے ہی صادر کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب پاکستانی سماج ،سیاست سے بیگانگی محسوس کرنے لگا تھا کیونکہ سیاست کا محور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی بجائے صرف اور صرف حصول اقتدار پر محیط ہو گیا ہے اور سیاست دان ہمہ وقت اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ مقتدرہ کے فیورٹ بن جائیں ۔واضح رہے کہ حالات کو اس نہج تک لانے کی ساری ذمہ داری غیر جمہوری حلقوںپر عائد ہوتی ہے۔ پہلے عمران خان کو بغیر کسی سیاسی تربیت کے ایک ہیرو کلٹ کے طور پرسیاست کے میدان میں اتارا گیااور پھر ایک اور غلطی کرتے ہوئے 2022ء میں اسے اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔سونے پر سہاگہ کہ 2024ء کے الیکشن سے پہلے تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ ایسی زیادتیاں کی گئیں کہ وہ عوام کی نظر میں ایک مظلوم ہیرو بن کر ابھرے اور حکمرانوں کو فارم 45اور 47کا سہارا لینا پڑا ۔ہمارے ہاں نو آبادیاتی سامراجیت اور جدید سامراجیت کی مداخلت کی وجہ سے ’’سول و ملٹری بیورو کریسی ‘‘دوسرے اداروں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور مضبوط رہی ہے۔اس لئے جب تک عوام منظم ہو کر اقتدار خود نہیں سنبھالتے ، اس وقت تک جمہوریت ایک خواب ہی رہے گی ۔پاکستان بننے کے کچھ عرصے کے بعد ہی گورنر جنرل غلام محمد نے ناظم الدین کی حکومت کو توڑ دیا جس کی بظاہر کوئی وجہ نہ تھی ، نہ تو غلام محمد اور ناظم الدین کے باہمی تعلقات خراب تھے بلکہ اس سے پہلے ناظم الدین نے آئین ساز اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کرلیا تھا۔اس کے بعد 16فروری 1954ء کو مشرقی پاکستان میں انتخابات ہونے والے تھے جسے غلام محمد اور محمد علی بوگرہ نے نہ صرف ملتوی کر دیا بلکہ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بھی ڈال دیا۔تاہم جب عوام کے پر زور اصرار پر مارچ کے دوسرے ہفتے میں انتخابات ہوئے تو اس میں حکمران جماعت مسلم لیگ کو عبرت ناک شکست ہوئی ، اسے 309میں سے صرف 10نشستیں حاصل ہوئیں۔اس شکست کی وجہ بھی ریاست کی وہ پالیسیاں تھیں جن سے مشرقی پاکستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں،اور اسی وجہ سے عوام نے جگتو فرنٹ کو بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈالاتھا۔
پاکستان میں 1952ء کے بعد سے ہی اگر سیاسی عوامل کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جمہوری ارتقا کو ہر ایک قدم پر کاری ضرب لگائی گئی جس سے جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی گئیں اور آمریت کے ستون مضبوط ہوتے چلےگئے۔اس کے بعد سول نوکر شاہی کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے فوج کو سیاست میں ملوث کرنا پڑا۔یوں آہستہ آہستہ ہمارا سماج ادارہ جاتی تصور سے محروم ہو گیا۔ اگر جمہوری ادارے پھل پھول جاتے اور اپنی دور رس جمہوری روایتیں سماج میں گہری کر لیتے تو پھر ریاست اور عوام کے درمیان حائل استحصالی گروہ اپنا وجود کھو بیٹھتے ۔پاکستان میں شخصیات کو ہیرو بنا کر سماج پر مسلط کیا گیا کیونکہ ہیروز قانون اور آئین سے بالا تر ہوتے ہیں۔یوں پچھلے 76 سال سے پاکستانی سیاست ایک دائرے میںہی چکر لگا رہی ہے اور حکمران طبقے سیاست کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع نہیں دے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اور آئین کے ہوتے ہوئے بھی عام آدمی کی زندگی بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ ان حالات میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے سیاست دانوں کو ایک اور تاریخی موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر اس سماج کو جمہوریت اور سول بالادستی سے مزین کر دیں تاکہ اکیسویں صدی میں پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام امن و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو کر پاکستان کو ایک فلاحی ریاست کی طرف لے جا سکیں۔