ایک طویل مدت کے بعد اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا کہ اب وفاقی دارالحکومت بہت تبدیل ہو گیا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ سیکورٹی ’’ہائی الرٹ‘‘ ہے۔ اس شہر پر اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہر موڑ پہ چند آنکھیں نگران، ہر چوک پہ ایک لائسنس طلب
اسی خوف سے میں نے اے اکبر اس پارک میں جانا چھوڑ دیا
اور ایک اہم بات مشاہدہ میں یہ آئی کہ بہت سے غیر متعلقہ لوگوں نے چھوٹے موٹے ڈمی ٹائپ اخبارات سے ’’پریس کارڈ‘‘ بنوا رکھے ہیں اور بلا روک ٹوک شہر میں پھر رہے ہیںکہ پولیس کو وزارت داخلہ کا حکم ہے کہ صحافیوں اور اخبارات سے متعلقہ عامل صحافیوں سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ ایک ایسے ہی شخص نے کسی غیر معروف اخبار کا کارڈ دکھاتے ہوئے مجھے بتایا کہ ’’پولیس یہ کارڈ دیکھ کر راستہ چھوڑ دیتی ہے۔‘‘اس کا نوٹس لیا جانا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پریس کارڈ صرف صحافیوں کو ہی جاری ہوں۔ مقصد تو یہ تھا کہ علامہ راغب احسن کے صاحبزادے احسن ریاض سے علامہ صاحب کے نام قائد اعظمؒ کے خطوط حاصل کروں جو میں کتابی صورت میں شائع کرنا چاہتا ہوں۔ قیام پاکستان سے قبل علامہ راغب احسن مسلم لیگ کے صف اول کے رہنمائوں میں شامل تھے اور وہ واحد سیاستدان ہیں جن کو قائد اعظم نے سب سے زیادہ خطوط لکھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلمانوں کی حمایت میں ’’ستار‘‘ کے نام سے الٰہ آباد سے پہلا ہفت روزہ اخبار نکالا۔ یہ انڈین پارلیمنٹ کے رکن بھی تھے۔ احسن ریاض جنہیں ہم پیار سے جگر کہتے ہیں پلاننگ کمیشن میں بڑے عہدہ پر فائز رہے اب بیمار رہتے ہیں اور قائدؒ کے خطوط کا ’’تاریخی ورثہ‘‘ ان سے کہیں اِدھر اُدھر ہو گیا ہے۔ لیکن یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے جناب عمر حیات قائد اعظم یونیورسٹی سے اس پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، ان سے بہت کچھ مل جائے گا۔ پرانے ساتھی اور بڑے نام کے صحافی، کالم نگار بردارم جبار مرزا نے بہت ہی محبت فرمائی ہر وقت میرے ساتھ رہے اور سب سے بڑا احسان یہ کیا کہ گولڑہ شریف اور حضرت بری امام لے گئے جہاں حضرت مہر علی شاہؒ اور حضرت عبداللطیف قادریؒ کے مزارات پر حاضری دی وہیں ایک اللہ والے بزرگ صاحبزادہ خواجہ سید برکات احمد چشتی کی زیارت بھی ہوئی۔ اعلیٰ حضرت پیر برکات شاہ نے گولڑہ شریف میں قیام کیا ہوا ہے لوگ حاضر ہوتے ہیں اور جھولیاں بھر بھر کر لے جاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے پُرتکلف کھانا بھی کھلایا اور یہ نوید بھی دی کہ ملک کے حالات بہت جلد بہتر ہونے والے ہیں، اندھیرے چھٹ جائیں گے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ’’اب دیر نہیں ہے‘‘۔ یہ وہ نوید ہے جو اور بھی اللہ والے دے رہے ہیں۔ حضرت پیر برکات کا حضرت معین الدین چشتی ؒسے تعلق ہے اور روحانی فیض بھی اس آستانہ سے حاصل کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی اقامت گاہ کا نام ’’چشتی چمن‘‘ رکھا ہے؎
اے طائر حیات ہمیشہ رہے خیال
پرواز ہو بلند تیری دامِ حرص سے
بریگیڈیئر صولت رضا سے ایک طویل مدت بعد ملاقات ہوئی وہیں ندیم حسن بھی ملے۔ بھٹو خاندان کے ’’سچے عاشق‘‘ ضیاء کھوکھر اور برادرم نذیر ڈھوکی سے بھی گپ شپ رہی۔ شیخ رشید سے دو تین گھنٹے کی طویل نشست رہی ان کی اطلاع یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو باہر بھیجنے کے لئے کئی ممالک کا دبائو ہے اور موجودہ حکومت ان کے خلاف عدالتی کارروائی کر کے مشکل میں ہے۔ انہیں راولپنڈی ایکسپریس وے کی جگہ میٹرو بنانے پر اعتراض ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ لال حویلی میں ان کا ’’دربار عام‘‘ جاری و ساری ہے۔
بیتے دنوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ یہ معلوم ہوا کہ برادرم پرویز رشید ، جبار مرزا اور شیخ رشید گارڈن کالج میں ہم جماعت تھے۔ شعیب بن عزیز اور پرویز رشید اکٹھے سائیکل پر آیا کرتے تھے ۔ شیخ رشید نے واقعہ سنایا کہ کالج یونین کے الیکشن میں میرا اور پرویز رشید کے درمیان جنرل سیکرٹری کے لئے مقابلہ تھا۔ میں نے سائیکل پکڑی، پرویز رشید کے گھر جا پہنچا ان کی والدہ کو خالہ جان کہتا تھا، میں نے ان سے کہا کہ میرے لئے دعا کریں کہ جیت جائوں۔ خالہ جان نے پیار کیا اور دعا کر دی۔ پرویز رشید نے مجھ سے پوچھا کہ میرے گھر کیوں گیا تھا میں نے کہا کہ خالہ سے دعا لینے گیا تھا۔ مقابلہ سخت تھا میں جیت گیا۔ پرویز رشید کی والدہ نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ تو اس نے ماں سے کہا کہ تیری دعا قبول ہو گئی اور میں ہار گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک اور کتاب لکھنا چاہتے ہیں جس میں بڑے انکشافات ہوں گے۔ میں نے پیشکش کی کہ میں انہیں ایک سٹینو گرافر مہیا کر دوں گا جو ان کی یادداشتیں لکھ لے گا اور میں اسے شائع کروں گا۔ میرے اور ان کے درمیان اس حوالے سے زبانی MOUطے پا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ رشید بہت سے اہم واقعات کا چشم دید گواہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ، وزیر اعظم نواز شریف ہی نہیں مرحوم وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا ساتھی اور ان کے دور میں بااختیار وزیر رہا ہے۔ بہت سے راز اس کے سینے میں دفن ہیں۔ اگر دیانتداری سے اس نے سب کچھ لکھ دیا تو کتاب نہ صرف بڑی مقبول ہو گی بلکہ نئی نسل کے لئے مشعل راہ بنے گی۔ آزاد کشمیر اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر محترمہ شاہین ڈار سے فون پر بات ہوئی جو مظفر آباد میں تھیں۔ میں مظفر آباد جانا چاہتا تھا لیکن موسم راہ میں دیوار بن گیا۔ مسلسل بارش اور بوندا باندھی جاری تھی یہی وجہ ہے کہ میڈم بھی اسلام آباد نہ آ سکیں۔ میرے سیکرٹری جنرل رفعت قادری بھی فیصل آباد میں تھے ، وعدہ کر کے کہ آ رہا ہوں نہیں آئے۔ اگر وہ آ جاتے تو فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے کئی معاملات طے ہو جاتے ۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب مجھے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور اس طرح شفقت بھی فرماتے ہیں۔ میں ایف یو جے کا پی ڈی ایم اسلام آباد میں کرانا چاہتاہوں اس حوالے سے جناب وزیر اطلاعات سے تعاون و امداد درکار تھا۔ مگر سیکرٹری جنرل صاحب نے زحمت گوارا نہیں کی اس لئے یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اگر بہت سے پرانے ساتھیوں سے ملاقات نہ ہو سکی اس کے باوجود دورہ اسلام آباد یوں کامیاب رہا کہ حضرت سیّد برکات صاحب قبلہ سے نیاز حاصل ہوا اور دو ڈھائی گھنٹہ ان کی محفل میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا کہ یہی وہ اللہ والے لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت علامہ اقبالؒ نے کہا ہے ؎
ہوا ہے تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جن کو حق نے دیئے ہیں اندازِ خسروانہ