• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت جن مشکل مسائل میں گھرا ہوا ہے ان میں شرح آبادی میں اضافہ بھی سب سے زیادہ توجہ طلب ہے کیونکہ ملکی معیشت پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور معاشی بحران نے انسانی زندگی کے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک کی آبادی چوبیس کروڑ چودہ لاکھ نوے ہزار نفوس تک پہنچ چکی ہے اور آبادی بڑھنے کی رفتار 2.55 فیصد ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر رفتار یہی رہی تو 2050 تک آبادی دوگنا ہو جائے گی۔ افزائش آبادی کی شرح پنجاب میں 2.53 ، سندھ میں 2.57، خیبر پختونخوا میں 2.38 اور بلوچستان میں 3.2 فیصد ہے۔ مجموعی آبادی میں 51.48 فیصد مرد اور 48.51 فیصد عورتیں ہیں۔ صرف افریقہ کے صحارا کے علاقے میں شرح افزائش پاکستان سے زیادہ ہے۔ باقی تمام دنیا میں پاکستان آبادی کی افزائش کے اعتبار سے سرفہرست ہے۔ چالیس سال سے کم عمر افراد کی تعداد مجموعی آبادی کا 61.12 فیصد یعنی سب سے زیادہ ہے۔ افزائش آبادی کی روک تھام کیلئے بہبود آبادی کے نام سے ایک محکمہ موجود ہے جس کے پاس نہ تو اتنا بجٹ ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ عملہ جو 96 فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کی ترغیب و تربیت کے تقاضوں پر پورا اتر سکے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے جس پر قابو پانے کیلئے پہلے تو حکومت کو چاہئے کہ اس معاملے کو اپنی اولین ترجیح قرار دے۔ کم بچوں کے تصور کو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کے مطابق توازن آبادی کے نظریے میں تبدیل کرے۔ بہبود آبادی کے محکمے میں وزیر اور سیکرٹری سمیت تمام عملہ تربیت یافتہ رکھے اور علمائے کرام کی خدمات بھی حاصل کرے۔ میڈیا میں تشہیر کے علاوہ تعلیمی نصاب میں بھی توازن آبادی کے تصور کو شامل کیا جائے۔ پھر مانع ادویات کی کم قیمت پر اور آسانی سے دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ مختلف اسباب کے نتیجے میں ملکی معیشت زوال کی جس سطح پر پہنچ چکی ہے اسے سہارا دینے کیلئے یہ اقدامات وقت کی ناگزیر ضرورت ہیں۔

تازہ ترین