• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سمیت دنیا بھر کی نظریں اِس وقت رواں سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن پر مرکوز ہیں۔ سابق امریکی صدر اور ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے، امریکی صدر جوبائیڈن کی آئندہ صدارتی الیکشن سے دستبرداری اور نائب صدر کملا ہیرس کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کے اعلان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی عوامی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ دنوں ری پبلکن نیشنل کنونشن میں صدارتی نامزدگی قبول کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ قتل ہونے سے بال بال بچ گئے کیونکہ خدا اُن کے ساتھ تھا۔ متوقع کامیابی کی صورت میں ٹرمپ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ امریکہ میں انتہائی نوعیت کی تبدیلیاں لائیں گے، غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کیلئے نیشنل گارڈز اور فوج سے مدد لینا، کچھ اسلامی ممالک سے لوگوں کا امریکہ میں داخلہ بند کرنا اور غیر قانونی تارکین وطن کے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی شہریت پر پابندی لگانا اُن کے ایجنڈے میں شامل ہے جبکہ چین پر تجارتی پابندیاں لگانے، بیشتر درآمدی مصنوعات پر نئے ٹیکس عائد کرنے اور میکسیکو میں منشیات کے منظم گروہوں کے خلاف سخت آپریشن بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن، ان کے اہل خانہ اور تمام سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات شروع کریں گے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ ہفتے انتخابی ریلی کے دوران قاتلانہ حملے میں بال بال بچ جانے والے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے امریکی عوام میں مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور ہمدردی کے ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں پڑنے سے اُن کی جیت یقینی نظر آرہی ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان اور امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی کے حامی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے دوست عمران خان کو جیل سے نکالنے اور پاکستان میں نئے انتخابات کیلئے حکومت پر دبائو ڈالنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی کے حامی، ڈونلڈ ٹرمپ کو نہ صرف سپورٹ کررہے ہیں بلکہ اُن کی انتخابی مہم کیلئے دل کھول کر فنڈز دے رہے ہیں تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار آسکیں۔ پی ٹی آئی کیلئے امریکہ ہمیشہ سے ایک مضبوط قلعہ ثابت ہوا ہے اور کچھ روز قبل امریکی کانگریس میں پاکستان مخالف قرارداد کی اکثریت سے منظوری کے بعد پی ٹی آئی کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دو ممالک کے درمیان تعلقات شخصیت پر نہیں بلکہ ملکوں کے مفادات پر مبنی ہوتے ہیں مگر موجودہ صورتحال میں اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان پر دبائو میں اضافہ ہوگا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان میں مداخلت کیلئے یہ بہانہ مل جائے کہ امریکی کانگریس نے پاکستان مخالف جو قرارداد منظور کی ہے، اِس پر فوری عملدرآمد کروایا جائے۔ اسی طرح آئی ایم ایف جسے امریکہ کا ایک ہتھیار تصور کیا جاتا ہے اور وہ امریکی اشارے پر ہی کسی ملک کیلئے قرض کی منظوری دیتا ہے، امریکہ اسے بھی پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے استعمال کرسکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی یہ جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے شاید آئندہ پاکستان کو آئی ایم ایف کا کوئی نیا پروگرام نہ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بڑے واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا یہ آخری پروگرام ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کا بورڈ پاکستان کیلئے قرض کی منظوری میں تاخیری حربے اختیار کررہا ہے اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کو جواز بنایا جارہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف سے جلد از جلد معاہدے کی منظوری حاصل کرے۔

امریکہ جو دنیا کو مرد اور عورت کے یکساں حقوق کا درس دیتا ہے، کی تاریخ میں آج تک کوئی خاتون صدر منتخب نہ ہوسکی۔ 2008 میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا مگر امریکیوں نے انہیں مسترد کردیا حالانکہ ہیلری کلنٹن زیادہ موزوں صدارتی امیدوار تصور کی جارہی تھیں۔ ایسی صورتحال میں بھارتی نژاد غیر سفید فام خاتون صدارتی امیدوار کملا ہیرس جن کے والدین کئی دہائی قبل بھارت سے امریکہ منتقل ہوئے تھے، کو ہرانا ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے نہایت آسان ہوگا اور اس طرح آئندہ صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت یقینی نظر آرہی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین