• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملامتی صوفی شعراء خود اپنی مذمت کا حوصلہ رکھتے تھے خود کو گناہ گار گردانتے تھے، کفر کا فتویٰ انکے جذبوں کو جوان کرتا وہ خود اپنی برائیاں بیان کرتے تاکہ نام نہاد پارسائوں کا پردہ چاک ہو۔ یہ اپنے وقت کے قاضیوں، حاکموں اور عالموں کی منافقت کو سرعام تنقید کا نشانہ بناتے۔ وہ اپنے گناہوں کو مشہور کرکے ان کی سزا بھی بھگتنے کیلئے تیار رہتے تھے تاکہ کوئی سچے گناہ گاروں کو پھانسی نہ چڑھا سکے اور انہیں معافی دیدے۔ ہم آج کے تضادستانی ملامت کے تو دلدادہ ہیں مگر صوفیوں کی طرح اپنی نہیں دوسروں کی ملامت کے، ہماری اس سوچ نے ہم میں سے تقریباً ہر ایک کو خود کش بنا دیا ہے، ظلم وستم کا شکار مظلوم فلسطینیوں سے بھی کہیں زیادہ خودکش بم دھماکے اس خطے میں ہوئے، ان خودکش مسلم بمباروں کا ہدف اسلام مخالف یہودی، عیسائی، کافر یا زندیق نہیں بلکہ اپنے ہی مسلمان بھائی ہیں، ہم سب خودکش کیوں ہیں؟ کوئی مذہبی خودکش ہے تو کوئی سیاسی خودکش، کوئی اپنی ہی ماں بہنوں کو مار کر پھانسی چڑھنے کو تیار ہے تو کوئی اپنی ہی ریاست کو نقصان پہنچا کر اسکی مذمت کرکے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مار رہا ہے کوئی صحافیوں کو نشانہ بنا کر خود اپنے لئے اطلاعات کا دروازہ بند کرکے زندہ درگور ہونے کا خواہشمند ہے ؟ایسا کیوں ہے ؟ملامت انسان کی اصلاح کرتی ہے جبکہ خودکش سوچ انسان کو تباہ کرتی ہے ملامت آپکو گناہِ تکبر سے بچاتی ہے جبکہ خودکش سوچ کا مطلب ہی تکبر ہے، آپ خود کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں جبکہ آپ جنکو مارنا چاہتے ہیں آپ کو وہ سب زہر لگتے ہیں ،ملامت آپ کو انکساری پر آمادہ کرتی ہے جبکہ خودکش سوچ سب کو کچل دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے ۔بلھے شاہ ،شاہ حسین اور اس روایت کے صوفی شوخ رنگ کے کپڑے پہنتے جو معاشرتی بغاوت کی علامت تھے سرعام رقص کرتے، حکومت وقت پر تنقید کرتے مگر انکا اس میں کوئی ذاتی فائدہ نہ تھا وہ عوام پر ظلم اور عدل کے نام پر ناانصافی کے خلاف سرعام آواز بلند کرتے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنے گناہ کی تشہیر کرینگے تو لوگ ان کو تحقیر سے دیکھیں گے یوں ان کے گناہ جھڑیں گے؎

ایہنا سبھاں تھیں ہے بلھا اوگنہار پرانا

ظلم کریں تے لوک ستاویں، کسب پھڑلیولٹ کھانا

پڑھا لکھا ہو کر خود کو ان پڑھ کہنا، بڑا رتبہ رکھنے کے باوجود خود کو چھوٹا سمجھنا ،مشہور ہونے کے باوجود خود کو بے نام رکھنا اور عالم فاضل ہوتے ہوئے خود کو جاہل سمجھنا ملامتی شاعروں کا طریقہ تھا۔ بلھے شاہ سید ہونے کے باوجود اپنے آرائیں مرشد کے حضور قصیدے پیش کرتے تھے شاہ حسین فخریہ خود کو جولاہا کہتے تھے مگر آج ہم علم نہ ہونے کے باوجود بحث میں کسی دوسرے کو بولنے نہیں دیتے ۔سلطان باہو فرماتے ہیں :

علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا،

کیہہ لینا علم نوں پڑھ کے ھو

ہم خودکش شخصیت کے بونے ہونے کے باوجود خود کو جن بنا کر پیش کرتے ہیں ہمیں تھوڑے لوگ جاننے لگ جائیں شہرت چھو بھی جائے تو ہم متکبر ہو جاتے ہیں لوگوں سے ہاتھ ملانا پڑے تو دو انگلیاں آگے کرکے اپنی بڑائی ثابت کرنیکی کوشش کرتے ہیں دو کتابیں پڑھ لیں تو ہر موضوع پر بولنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ہم نے پاکستانی سیاست اور تاریخ کی مبادیات کو پڑھا نہیں مگر ہم سب پاکستانی سیاست پربڑھ چڑھ کرڈینگیں مارتے ہیں کیا ہمیں علم ہے کہ کمیونسٹوں کے ساتھ کیا کیا ظلم ہوئے؟ حسن ناصر کو کس طرح مارا گیا؟نہ ہم نے جماعت اسلامی کے خلاف ریاستی کارروائیوں کا مطالعہ کیا ، نہ کبھی پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے کارکنوں کےساتھ ہونیوالے مظالم کی تفصیل پڑھی اور نہ ادراک ہے کہ کتنے لیڈر سیاست کی وجہ سے پھانسیاں جھولے؟ کون سے ہزاروں، کوڑے کھا چکے، اب تک سینکڑوں جیل جا چکےاور وہ لاکھوں کون تھے جو تشدد کا نشانہ بن چکےمگر ہم خود کو سب سے بڑا تاریخ دان ثابت کرتے ہوئے فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ جتنا ظلم اب ہو رہا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا چونکہ پہلے ظلم کا درد کسی اور کو ہوا تھا اور اس بار کے ظلم کی تکلیف خود ہمیں ہوئی ہے اس لئے ہم تاریخ سے ماضی کا ظلم وستم مٹا کر صرف خود کو سب سے بڑا مظلوم ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ رویے سچ کو دفن ،تاریخ کو قتل اور خود اپنی سیاست کی خاطر دوسروں کیلئے زمین تنگ کرنے کے عمل کو جنم دے رہے ہیں۔

آج کل کے ہمارے چند لیڈر ریاست کیلئے خودکش بمبار بن چکے ہیں تشدد، تخریب، گالیاں اور دشنام ان کا بارود ہے بظاہر انکا نشانہ انکے سیاسی مخالف ہیں لیکن انہیں علم نہیں کہ وہ سیاست کی جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے خود ہی کاٹ رہے ہیں کیونکہ جو سلوک وہ خود سے اختلاف رکھنے والوں سے آج کر رہے ہیں جب تاریخ کا پہیہ گھومے گا تو یہی سلوک انکے ساتھ ہو گا ،خودکش اپنی نفرت سے دوسروں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے مگر اسی نفرت کا نشانہ وہ خود بن کر ساتھ ہی تباہ ہو جاتا ہے ۔

ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ خودکشی دراصل امید کے خاتمے کا نام ہے جبکہ ملامت کا جذبہ امید سے جڑا ہے۔ تضادستانی سیاست کو ڈیڈلاک سے نکلنا ہے تو امید کوجگانا ہو گا خودکش نفسیات سے نکل کر خود احتسابی اور خود ملامتی کارویہ اپنانا ہوگا ۔جب خود کو سب سے ایماندار، سب سے پاپولر، سب سے بہتر سمجھنا بند کرینگے تو بحرانوں کا حل نکلنا شروع ہو جائیگا، ذات اور نام کے فرعونوں کو ہر دوسرا شیطان نظر آتا ہے حالانکہ شیطان خود انکے اندر بیٹھا ہوتا ہے، انا اور تکبر جھوٹے خدائوں کو جنم دیتے ہیں ملامت انا اور تکبر کے بتوں کو توڑتی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ تضادستان کے چاروں بڑے کردار اور اداروں میں کوئی بھی ملامتی نہیں سارے کے سارے خودکش ہیں کوئی اپنی غلطی کو نہ تلاش کر رہا ہے اور نہ مان رہا ہے، سارے اپنے آپ کو پارسا اور دوسروں کو پاپی سمجھ رہے ہیں ۔کیا عدلیہ ،کیا مقتدرہ، کیا حکومت اور کیا اپوزیشن ،سب کے سب خودکش بمبار جیسی سوچ کے حامل بنے ہوئے ہیں خود تو اپنی تباہی کی طرف جا رہے ہیں مخالفوں کو بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں اور نتیجے میں پورے پاکستان کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں ان میں کوئی ایک بھی ملامتی ہو جائے اپنے پاپوں اور گناہوں کو سامنے رکھ کر دوسروں کی غلطیوں اور خامیوںسے درگزر کرے تو اب بھی راستہ نکل سکتا ہے۔ عدلیہ نے کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے تضادستان کے جسم پر بار بار زخم لگائے لیکن کوئی غلطی پر بولے تو وہ توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ اگر ادارہ ملامتی بنتا تو بھٹو کیس کے منصفوں پر بھی دو چار فقرے ملامت کے کہہ دیتا، افتخار چودھریوں، ثاقب نثاروں، کھوسوں اور جسٹس منیروں پر بھی دوچار فتوے لگا دیتا ،یہ کیا کہ نوسو چوہے کھا کر ایک حج کر لیا تو سارے گناہ معاف ہو گئے؟ دو فیصلے عوامی کر دیئے شہرت سمیٹ لی تو یہ پارسائی کے رتبے پر فائز ہو کر خودکش بن گئے؟ مقتدرہ نے کیا کیا غلطیاں نہیں کیں اور اب کیا کیا نہیں کر رہی طاقت زور اور زبردستی سے کس کس کو زیر نگیں نہیں کیا آج کے تضادستان کی تباہی میں انکا کیا کوئی کم حصہ ہے مگر ایوب خانوں، ضیاء الحقوں، یحیٰی خانوں اور پرویز مشرفوںکی قبروں پر سلامی اب بھی دی جاتی ہے نہ کوئی حرف ملامت نہ کوئی مداوا؟ ملامت کریں گے خود اپنی غلطیاں مانیں گے تب ہی تضادستان ،پاکستان بنے گا۔ حکومت کو دیکھ لیں یہ لوگ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر پارسائی اور جمہوریت کے سنگھاسن پر بیٹھےتھے اب انہی بتوں کی بارگاہ میں پھر سے سجدہ ریز ہیں جنکے خلاف علم بغاوت کیا تھا نہ کوئی ملامت نہ کوئی مداوا؟اسی لئے بگٹٹ سیاسی خودکشی کی طرف جا رہے ہیں آخر میں دو حرف اپوزیشن کیلئےبھی ،مرشد پاک نے اپوزیشن، میڈیا اور انسانی حقوق کا اپنے دور حکومت میں جو مذاق اڑایا آج تقدیر کا پہیہ انہیں خود مظلوم کی پوزیشن میں لے آیا ہے مگر خودکش اپوزیشن آج بھی متکبر اور پارسائی کی چوٹی پر کھڑی ہے نہ ماضی پر کوئی حرف ندامت ، نہ ملامت، نہ اصلاحِ احوال۔

باقی تضادستانیوں کی طرح میں بھی ایک خود کش ہوں نہ مجھے کوئی ندامت ہے نہ ملامت پر آمادہ ہوں، میں بھی پارسا ہوں سب سے بہتر ہوں باقی سب غلط، بس میں صحیح ہوں، مانتا ہوں کہ میں خودکش ہوں ملامتی نہیں.

تازہ ترین