کارگل کی جنگ کے پچیس سال بعدمقبوضہ کشمیر میں اس کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب میںبھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ دھمکی آمیز دعویٰ کہ پاکستان نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے، اس بنا پر انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی بے مثال کوششوں کی تو ایک دنیا معترف ہے جبکہ مودی کے اپنے دور حکومت میں ان کے ملک نے دنیا بھر میں دہشت گردی کی منظم مہمات چلانے کے حوالے سے بے پناہ شہرت کمائی ہے۔ پچھلے برسوں میں دہشت گردی کے بھارتی نیٹ ورک کے امریکہ اور کینیڈا تک پھیلے ہونے کے ٹھوس ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے یقینی شواہد ریکارڈ پر موجود ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے سیاہ کارنامے جھٹلائے نہیں جاسکتے۔ افغانستان میںبھارتی قونصل خانے پچھلی افغان حکومت کے دور میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے تربیتی مراکز بنے رہے ہیں۔ان حقائق کی موجودگی میں مودی کی جانب سے پاکستان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی چال کے مترادف ہے۔ پھر یہ کہ بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے خلاف یہ ہرزہ سرائی اُن کشمیریوں کی سرزمین پر جاکر کی ہے جنہیں حق خود ارادی دینے کا وعدہ ان کے ملک نے ادارۂ اقوام متحدہ میں پوری عالمی برادری کے سامنے کیا تھا لیکن پون صدی سے زیادہ مدت گزر جانے کے باوجود کشمیر پر فوجی طاقت کے بل پر غاصبانہ قبضہ جمارکھا ہے جبکہ نریندر مودی نے اپنے پچھلے دور میں انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کامذاق اڑاتے ہوئے کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کی باقاعدہ ریاست بناڈالا ہے حالانکہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے فیصلے کو کشمیریوں کا جائز حق مانتے ہوئے بھارت نے اقوام متحدہ میں یقین دہانی کرائی تھی کہ ریاست میں جلد ازجلد رائے شماری کروادی جائے گی اور کشمیری عوام جو فیصلہ بھی کریں گے اسے تسلیم کیا جائے گالیکن پھر بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کی عیارانہ حکمت عملی اپنائی اور نریندر مودی نے اپنے تازہ خطاب میں بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی فوجی دہشت گردی کو پوری قوت سے کچل دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کشمیری بھارت کے حامی ہیں تو عشروں سے ریاست پر لاکھوں بھارتی فوجی کیوں مسلط ہیں، کشمیریوں کو وہ آئینی حقوق اور آزادیاں کیوں حاصل نہیں جو بھارت کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں،کشمیری رہنما سالہا سال سے قید و بند کا شکار کیوں ہیں اور عالمی سطح پر یہ مقبوضہ ریاست دنیا کی سب سے بڑی جیل کیوں قرار دی جاتی ہے؟ اس تناظر میں پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے مودی کے بیان کا مسترد کیا جانا بالکل درست ہے۔ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرا بلوچ کے مطابق بھارت کو غیر ملکی علاقوں میں ٹارگٹڈ کلنگ، تخریب کاری اور دہشتگردی کو منظم کرنے کی اپنی مہم جوئیوں پر غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان جارحیت کے خلاف اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے ارادے اور صلاحیت میں پرعزم ہے جس کی مثال فروری 2019 میں بھارت کی دراندازی پر پاکستان کے مضبوط ردعمل سے ملتی ہے۔ پاکستان بھارت کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن واستحکام کو فروغ دینے کیلئے پر عزم ہے ۔ دفتر خارجہ نے بھارتی حکمرانوں کے طاقت کے نشے کو کشمیر سمیت تمام پاک بھارت تنازعات میں اصل رکاوٹ قرار دیا جس کا مبنی برحقیقت ہونا آٹھ دہائیوں پر محیط مشترکہ تاریخ سے ثابت ہے۔تاہم پرامن بات چیت کا راستہ آج بھی کھلا ہوا ہے جسے اپناکر پورے خطے کو ترقی و استحکام اور خوشحالی سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے۔