سیاسی تجزیہ کار عمران خان کی’’نظریاتی سیاست‘‘ یعنی کسی بھی ذریعہ سے اقتدار حاصل کرنا اور جلد از جلد اپنا ’’مشن‘‘ مکمل کرنا، سے بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کوئی بھی لکھاری خواہ اس کا تعلق سوشل میڈیا سے ہو، الیکٹرونک ذرائع ابلاغ سے یا پرنٹ میڈیا سے، کسی لگی لپٹی کے بغیر عمران خان کی’’رموزسیاست‘‘ پر کھلی گفتگو کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔کہتے ہیں اقتدار تک پہنچنے کے راستہ تلاش کرنیوالے بانی پی-ٹی-آئی اپنے مقصد کے حصول کیلئے روپ اور نظریہ تبدیل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔صرف چند ہفتے قبل تک جیل سے ہی فوجی قیادت اور حکومت کو’’انسانی حقوق اور جمہوریت‘‘ کی آڑھ میں دھمکیاں دینے اور نئے نئے بیانیوں سے انہیں نشانہ بنانے والے عمران خان’’ نو مئی کی بغاوت پر مٹی ڈال کر‘‘ آج اقتدار کی امید پر فوجی قیادت کے سامنے ’’سرتسلیم خم‘‘ ہیں اور ایک بار پھر فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے خواہشمند ہیں۔پاکستان کی فوج کی قیادت کو ’’ڈرٹی ہیری‘‘ کے القابات سے پکار کر ان کی دنیا بھر میں فخریہ تضحیک کرنے اور فوج کی اعلیٰ قیادت کو دہشتگرد قرار دلانے کیلئے طرح طرح کے جتن کرنے والا عمران خان آج ’’ڈرٹی ہیریز‘‘ کے قدموں میں بیٹھ کر انکی’’عنایات‘‘ کا خواستگار ہے۔سازش اور گمراہی کی طرز سیاست سے نفرت کرنیوالے ایک لکھاری کا کہنا ہے کہ ’’عمران خان کو جب لانچ کیا گیا تو اسکا پہلا نعرہ تھا ’’ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ یعنی نوجوانوں کو سیدھے راستے پر ڈالنے والا کوئی مسیحا آگیا ہو۔ یہ سیدھا راستہ کیسا تھا جو نوجوان نسل کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل رہا تھا۔اللہ کے کلام کے نام پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھا کرنے والے نے ان نوجوانوں کو ابلیس کے راستے پر لگا دیا‘‘۔ لگتا ہے سلمان رشدی کی طرح مذہب سے بھٹکے ہوئے کئی’’گمراہ اسکالرز‘‘ عمران خان کے زیر مطالعہ رہے ہیں جنہوں نے دین کو اپنے معنی پہنائے اور اپنی کی گئی تشریح کے مطابق لوگوں کو راستے سے بھٹکانے کی کوشش کی، خدائی دعویٰ کیا، مصنوعی جنت بنائی اور نوجوان نسل کو بطور خاص گمراہی کے راستے پر ڈالنے کا سامان پیدا کرتے۔ ان گمراہ نوجوانوں کو فدائین کا نام دیا گیا جو اپنے مرشد کا حکم بجا لانے میں لاثانی تھے۔ اپنے سربراہ یعنی مرشد کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ 1256ء میں منگولوں کے ہاتھوں تباہی کے 15 برس بعد مشہور اطالوی سیاح مارکو پولو 1272 میں چین جاتے ہوئے اس علاقے سے گذرا۔ اپنے مشہور زمانے سفرنامے میں مارکو پولو نے اس مصنوعی جنت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے: دو پہاڑوں کے درمیان واقع وادی میں ایک وسیع و عریض اور خوشنما باغ بنوایا ہے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں ہر قسم کے پھل پائے جاتے ہیں اور تصور سے باہر حسین محلات اور خیمے ہیں جن پر سونے کے ورق چڑھے ہیں اور ان میں نفیس تصاویر ہیں۔ اس باغ میں چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جن میں شراب، دودھ، شہد اور پانی بہتا ہے اور یہاں دنیا کی حسین ترین دوشیزائیں ہیں جو ہر طرح کے ساز بجاتی ہیں اور وہ حسین نغمے گاتی ہیں اور دل لبھانے والے رقص کرتی ہیں۔ مارکو پولو مزید لکھتے ہیں کہ 12 سے 20 برس عمر کے نوجوانوں کو نشہ پلا کر اس باغ میں لایا جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت میں پہنچ گئے ہیں۔ اسکے بعد جب انھیں بے ہوش کر کے اس مصنوعی فردوسِ بریں سے نکالا جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر کسی کو بھی قتل کرنے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ عمران خان نے گمراہی کے اس مشن میں کامیاب ہونے کے بعد دوسرا حملہ پاکستان کی معیشت پر کیا، اپنے دور حکومت میں ریکارڈ قرضے لئے۔ ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں آنے دی، سی پیک بند کرا دیا اور قومی لائنز کے خلاف سرکاری طور پرجھوٹا پروپیگنڈا کرکے اس کا لائسنس منسوخ کرادیا، نتیجتاً اس کی پروازوں پر پابندی لگ گئی جو اب تک جاری ہے اور پاکستان کو دیوالیہ کرنے کا مشن پورا کر دکھایا۔ عمران خان کی جانب سے پاکستان اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کیخلاف چلائی جانے مہم سوشل میڈیا ٹیم کے ہیڈ آفس امریکہ سے چلائی جاتی ہے جس کی سرپرستی ایک معروف یہودی فرم کے ذمہ ہے جو صرف عمران خان سے ہدایات لینے کی پابند ہے کسی اور کو جوابدہ نہیں۔عمران خان نے ڈی این اے کی طرح پولی گراف ٹیسٹ کرانے سے بھی انکار کردیا ہے حالانکہ امریکن سیکلوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پولی گراف ٹیسٹ’’دل کی دھڑکن/بلڈ پریشر، سانس، اور جلد کی حرکت کرنے کی استعداد کار‘‘ کی پیمائش کرتا ہے۔جانچ کا مقصد عام طور پر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آیا اس شخص نے جرم کیا ہے یا نہیں۔کیا عمران خان کو بھید کھل جانے کا خوف ہے؟؟