کرب، ذہنی دباؤ یا تناؤ کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے والوں میں ہر عُمر اور جنس کے افراد شامل ہیں، جب کہ یہ کیفیات بہت سی بیماریوں کی وجہ یا اُن کے بڑھاوے کا بھی سبب ہیں۔ اگر ہم’’ عمومی صحت‘‘ کی بات کریں، تو اِس میں جسمانی بیماریوں سے نجات کے ساتھ، ذہنی صحت بھی شامل ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، ایک’’ مکمل صحت مند فرد‘‘ سے مراد کسی بھی جسمانی و ذہنی بیماری سے مبرّا فرد ہے۔
جب کہ ایک مکمل صحت مند شخص کو مجموعی طور پر جذباتی، نفسیاتی اور سماجی اعتبار سے بھی سو فی صد نارمل ہونا چاہیے-مختلف تجربات سے ثابت ہوچُکا ہے کہ میٹابولک سینڈروم یا موٹاپے، ذیابطیس، بلند فشارِ خون اور دل کے امراض کا براہِ راست تعلق ذہنی دباؤ سے ہے۔ اِس ضمن میں تھیلیم اسٹریس ٹیسٹ اور گاما کیمرے سے دل و دماغ کی شریانوں میں خون کی روانی میں تبدیلی اور کمی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
ذہنی دباؤ کے جسمانی صحت پر اثرات
دیرینہ اور شدید ذہنی دباؤ سے ہمارا جسمانی مدافعتی نظام کم زور ہوسکتا ہے، جس سے انفیکشنز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جیسے Autoimmune diseases کا۔ یعنی وہ بیماریاں، جن میں جسمانی مدافعتی نظام کا اپنے ہی نارمل نظام پر حملہ آور ہونے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ اِسی طرح ذہنی دباؤ کئی اشکال میں نظامِ انہضام پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، جیسے تیزابی عمل کا بڑھنا، خوراک کی نالی میں جلن اور تیزابی اجزا کا اُلٹا بہاؤ۔
یعنی معدے اور آنت کی ذہنی دباؤ کے زیرِ اثر بیماریاں۔آپ نے عام زندگی میں بھی محسوس کیا ہوگا کہ بسا اوقات کوئی غیر معمولی یا حادثاتی خبر اور دباؤ سے دردِ شکم، نظامِ انہضام میں تیزابیت اور بول و براز کی بے قاعدگی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
ذہنی دباؤ کی علامات
ملازمت، ازدواجی زندگی، خاندان اور مالی معاملات سے متعلق مسائل، کسی کی فوتیدگی یا صدمے کی وجہ سے خوف، ڈیپریشن یا مایوسی کی کیفیات جنم لے سکتی ہیں، جو پھر شدید ذہنی دباؤ کی بھی صُورت اختیار کرلیتی ہیں اور متاثرہ فرد معاشرے میں کارآمد کردار ادا کرنے سے قاصر ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ اُسے ادویہ کے استعمال کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔اِسی طرح نیند کے معمولات کی تبدیلی نفسیاتی خلفشار اور مزید بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔
جیسے شدید بے خوابی، بار بار نیند سے اُٹھنا، مشکل سے نیند آنا یا اس کا اُلٹ، یعنی بے انتہا نیند آنا۔ اِسی طرح بعض اوقات ذہنی دباؤ بھوک کی کمی، وزن کے گرنے، بڑھنے، طہارت وصفائی سے گریز اور ڈر وغیرہ کی صُورت بھی سامنے آتا ہے۔ یہ میٹابولک سینڈروم کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر موروثیت میں ایسی کوئی ہسٹری موجود ہو۔ اِسی طرح ذہنی دباؤ سے چنبل، ناسور، کیل مہاسے بھی نمودار ہو سکتے ہیں یا بڑھ سکتے ہیں۔ اسٹریس کی وجہ سے دردِ شقیقہ یا سر درد شروع ہوسکتا ہے، جس میں بعض اوقات عام ادویہ کے علاوہ مخصوص ادویہ بھی استعمال کروائی جاتی ہیں۔ پٹّھوں کا درد، پٹّھوں اور پنڈلیوں کا اکڑاؤ بھی، جسے عام زبان میں’’ کڑل پڑجانا‘‘ کہتے ہیں، اِس کیفیت میں عام ہیں۔
مَردوں میں جنسی خواہش کی کمی، جب کہ عورتوں میں بانجھ پن کے مسائل، ایامِ حیض میں تبدیلی، کمی، زیادتی یا بے اعتدالی پائی جا سکتی ہے۔عالمی سطح پر شایع ہونے والے بہت سے تحقیقی مضامین ذہنی دباؤ اور جسمانی بیماریوں کے درمیان تعلق اور اثرات کا نئی جہتوں سے احاطہ کرتے ہیں۔درحقیقت، کورونا وبا کے دَوران جسمانی حفاظتی نظام کی کم زوری سے، خود حفاظتی نظام کی بیماریوں اور انفیکشنز کے درمیان تعلق ظاہر ہوا۔اِن تحقیقی آرٹیکلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذہنی دباؤ امراضِ قلب، موٹاپے، شریانوں کی تنگی اور کم عُمری کی اموات میں اضافے کا سبب ہو سکتا ہے۔
وسیع پیمانے پر کی گئی تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ ذہنی دباؤ سے دل کے امراض یعنی انجائنا، اچانک موت اور کورٹیسول ہارمون میں زیادتی، جو کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہو، دل کی دھڑکن میں تیزی یا بے اعتدالی و بے ترتیبی جیسے مسائل بھی سامنے آسکتے ہیں۔ جب کہ غیر محسوس اور بلاواسطہ طریقے سے ہائی بلڈ پریشر یا ذیابطیس میں اضافہ اور بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے، جو آگے جا کر دل کے دورے، فالج یا گُردوں کے فیل ہونے یا اُن کی شدّت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
ڈیوک یونی ورسٹی کی ایک اسٹڈی سے ظاہر ہوا کہ غیر ورزشی میلان، سُستی اور فربہی کے شکار اشخاص ذہنی پریشانی سے دل کے امراض یا ہارٹ اٹیک میں ہونے والی پیچیدگیوں سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ دِل کے دورے کے بعد ذہنی دباؤ سے اموات اور پیچیدگیوں میں دُگنا اضافہ نظر آتا ہے۔پی ای ٹی اسکین اور تھیلیم اسکین سے ذہنی دباؤ کا اثر خون کی روانی میں دیکھنے میں آتا ہے۔
اِسی طرح زیادہ کولیسٹرول، تمباکو نوشی اور ذیابطیس کے علاوہ ذہنی دباؤ میں بھی شریانوں کی اندرونی ساخت میں تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے، خاص طور پر یہ دل، دماغ اور گُردوں کی شریانوں میں تنگی اور رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ ذہنی دباؤ یا اسٹریس میں کورٹیسول ہارمون کی زیادتی سے ٹائپ ٹو ذیابطیس کے جَلد لاحق ہونے، انسولین کے خلاف مزاحمت یا نشاستے اور گلوکوز کی خون کی مقدار میں بے اعتدالی سامنے آئی ہے۔
نیز، اس سے غیر معمولی بھوک یا بلاواسطہ ذیابطیس سے متعلق دوسری بیماریوں یعنی گُردوں میں نفروپیتھی اور آنکھ کے پردے پر ریٹینوپیتھی میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے۔یعنی اعصابی و دماغی سگنلز اور کنکشنز کی پیچیدگیاں، جن میں پیروں اور ہاتھوں کا سُن ہو جانا بھی شامل ہے۔ اِن تمام وجوہ کی بنا پر ذہنی پریشانی سے ذیابطیس اور اس کی پیچیدگیوں کے ساتھ ہونے والے علاج کے لیے اینڈو کرائنولوجسٹ، ماہرِ امراضِ قلب، نیورولوجسٹ، ماہرِ نفسیات، سمیت آنکھوں کے ماہر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔
ذہنی دباؤ، دل و دماغ کی شریانوں کی بیماریوں میں اضافے کا بھی باعث ہے، جب کہ دل کے اٹیک اور فالج کے بعد ذہنی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جس سے پیچیدگیاں بھی بڑھ جاتی ہیں، جو بعدازاں درمیانے یا شدید درجے کے ڈیپریشن کا باعث بنتی ہیں۔ اور یوں مریض کے علاج سے صحت یابی کی طرف سفر میں رکاوٹ حائل ہوجاتی ہے۔ اگر دورانِ حمل ذہنی پریشانیوں سے نیند کا معمول متاثر ہوجائے، تو بہت سے عوارض اور حمل میں پیچیدگیوں کا اندیشہ ہوتا ہے۔
خاتون قبل از وقت زچگی، گُردوں، بلڈ پریشر کی بیماریوں اور کم وقتی ذیابطیس کا شکار ہو سکتی ہے۔ اِسی طرح آنول نال(placenta) کے اندر کورٹیسول کی مقدار بڑھ جائے، تو بچّے کے ارتقائی عمل میں پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے اور کم وزن یا قبل از پیدائش یا حمل ضائع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔اگر حمل کے دَوران طویل عرصے تک ذہنی خلفشار رہے، تو آگے جا کر بچّے کی ذہنی ارتقاء متاثر ہو سکتی ہے، ایسے بچّے بڑے ہوکر جارحانہ اور جذباتی رویّوں کے حامل ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، بچّہ دانی کا اندورنی ماحول، بچّے کی آنے والی زندگی کے لیے بہت اہم ہوتا ہے اور حاملہ کی ذہنی پریشانی بچّے کے مستقبل کی پروگرامنگ اور ساخت پر اثر انداز ہو کر اُس کی آئندہ زندگی میں پریشانیوں اور بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔ دورانِ حمل کی ذہنی پریشانی اور چڑچڑا پن بعد از حمل بھی ڈیپریشن کا اہم سبب ہے، جو کہ ماں اور بچّے کے درمیان قدرتی تعلق میں دُوری کی وجہ بھی بن سکتا ہے، جس سے ماں کی نگہہ بانی اور لگاؤ میں کمی کی وجہ سے بچّے کی پرورش میں مسائل سامنے آتے ہیں۔ یوں اِس مرحلے پر نفسیاتی علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔
بچّوں میں ذہنی دباؤ کے اثرات
موڈ میں تبدیلی، چڑچڑا پن، بے چینی، نیند کی بے اعتدالی، اکیلا پن، اُداسی، پڑھائی میں یک سُوئی کی کمی، کلاس فیلوز اور سینئرز کی تنقید کے ضمن میں عدم برداشت، ہکلانا، لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے پسینہ آنا، جسمانی بڑھاؤ اور نشوونما میں کمی، فربہی یا دُبلا پن، یہ سب بچّوں میں نظر آنے والی وہ علامات ہیں، جن کا سبب’’ ذہنی دباؤ‘‘ ہوسکتا ہے اور اِس مرحلے پر بچّے، والدین اور اساتذہ کی اعصابی مدد کے منتظر ہوتے ہیں۔ اُن میں کھیل کود، عبادت اور فیملی سپورٹ سے بہتری نظر آتی ہے، لیکن کبھی کبھار اُنھیں ادویہ کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔
عُمر رسیدہ افراد میں ذہنی دباؤ اور اُس کے اثرات
بوڑھے افراد کو ذہنی دباؤ کے نتیجے میں متواتر سر درد، کم خوابی، جسمانی تھکاوٹ، مطالعے میں یک سُوئی کی کمی، کھانے پینے یا رفع حاجت کی بے اعتدالی، پٹّھوں اور سینے میں بے وجہ درد، مایوسی، ڈیپریشن، یادداشت کی کم زوری، نگہہ داشت کرنے والوں سے عدم تعاون، لگاتار کراہنے اور رونے جیسی شکایات ہوسکتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ذہنی دباؤ سے دمے(asthma) کا اٹیک بھی ہو جاتا ہے، حالاں کہ پینک اٹیک یا نفسیاتی گھبراہٹ میں بھی سانس کی گھٹن اور تنگی ہو سکتی ہے، مگر وہ عارضی ہے اور مسکن ادویہ سے ٹھیک ہوجاتی ہے، لیکن اسے دمے سے الگ کر کے دیکھنا چاہیے۔ اِسی طرح سائٹوکائنز پروٹین کی زیادتی، جو ذہنی دباؤ سے بڑھتی ہے، دَمے کی وجہ یا اس میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ بعض صُورتوں میں ذہنی دباؤ کے سبب جسم کے کسی حصّے کے زخم دیر سے مندمل ہوتے ہیں، کیوں کہ اِس صُورت میں کورٹیسول کی زیادتی ہوجاتی ہے۔
دل ٹوٹنے کی بیماری (Heart broken syndrome)
شدید ترین ذہنی پریشانی اور انتہا درجے کے صدمے میں دل کے پٹّھوں کے پھیلاؤ اور کارکردگی میں حد درجہ کمی نظر آسکتی ہے۔مثال کے طور پر عشق میں ناکامی، کسی قریبی عزیز کے انتقال یا میاں بیوی میں علیٰحدگی کی صُورت میں دل کے پٹّھے پھیل کر اُس کی کارکردگی متاثر کرسکتے ہیں، جن میں علاج سے بہتری لائی جاسکتی ہے یا پھر متاثرہ فرد کو مستقل معذوری کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یوں ہارٹ بروکن سینڈروم، ’’کارڈیومایوپیتھی‘‘ کا سبب بنتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ پائے جانے والے دماغی صحت کے عوارض ذہنی پریشانی، خلفشار اور الجھاؤ ہیں۔ دنیا بَھر میں ہر281 ملین افراد میں سے 3سے6 فی صد میں ذہنی پریشانی کا عارضہ موجود ہے، جکہ پاکستان اور دوسرے ترقّی پذیر ممالک میں یہ شرح اِس سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے۔ جب کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق تقریباً260 ملین افراد میں ڈیپریشن کا مرض ظاہر ہوا ہے۔یعنی ذہنی دباؤ سے دوچار افراد کی اِس قدر بڑی تعداد سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تدارک اور علاج
ذہنی دباؤ، کرب یا تناؤ ایک قابلِ علاج مرض ہے۔ اِس ضمن میں اپنے قریبی جنرل فزیشن سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، جو متاثرہ فرد سے تمام معلومات لے کر اُس کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اِسی طرح فیملی ممبرز، دوست اور اساتذہ بھی اعصابی مدد فراہم کرسکتے ہیں یا پھر کسی ماہرِ نفسیات کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں، جو ہسٹری، علامات، نفسیاتی دباؤ کی وجوہ اور اس سے متعلق دوسری بیماریوں کی معلومات حاصل کرکے علاج تجویز کرسکتا ہے۔
اِس ضمن میں اسٹریس اسکیل کا پیمانہ، تھائی رائڈ غدود کے لیبارٹری ٹیسٹس، وٹامنز کی کمی، کولیسٹرول اور خون کی مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے تاکہ سوزش و علامات وغیرہ کے ساتھ دوسری بیماریوں کی بھی معلومات حاصل ہوسکیں۔
مزید براں، ریڈیائی طریقۂ کار، یعنی سی ٹی اسکین، پیٹ اسکین، تھیلیم اسکین اور ایکو کارڈیو گرافی سے بھی ذہنی امراض اور اسٹریس سے متعلق دوسری پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص میں مدد لی جاسکتی ہے۔یاد رہے، ذہنی دباؤ حاملہ خواتین سے لے کر نومولود بچّوں، نوجوانوں، ادھیڑ عُمروں، بوڑھوں اور حیض کی بندش کے بعد(سن یاس کے عرصے میں) خواتین پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور اسے قریبی دوستوں، محلّے داروں، سوسائٹی کے افراد، اساتذہ، والدین اور معالج کی مدد سے بغیر ادویہ اور دیگر طریقوں سے بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
نیز، ورزش، مذہبی ترغیبات و عبادات اور کارآمد مگر غیر درسی مصروفیات سے بھی اِس پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے اور اِس ضمن میں سماجی اداروں اور تنظیموں کا کردار بہت اہم ہے، جب کہ سرکاری طور پر بھی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ قلب ہیں اور ٹبّا ہارٹ انسٹی ٹیوٹ، کراچی سے منسلک ہیں)