چند روز قبل ایک مشہور و معروف ڈرامہ اور فلم نگار کااغوا وائرل ہوا۔ ایف آئی آر کے مطابق پہلی دفعہ ہی ایک خاتون سے موبائل پر بات چیت کے بعد وہ ان کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں پھر ان پہ تشدد اور لوٹ مار ہوئی۔ اسے ہنی ٹریپ کہتے ہیں کہ ایک خاتون مرد کو اپنے جال میں اتار کے بلیک میل کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وصل کی آرزو کرتا آدم زاد پہلے دن سے لٹتا چلا آرہا ہے۔
سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے
نومبر2012ء میں دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس ایک عورت کے ہاتھوں ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ ہے دنیا کے شاطر ترین مرد کی کل ذہانت، جو ایک مسکراہٹ کی مار ہے۔ اس طرح کے سکینڈلز سامنے آتے رہتے ہیں۔ڈرامہ نگار کا معاملہ مگر یہ ہے کہ فیمنسٹ خواتین کے مقابل وہ پدر سری نظام کی قیادت کر رہے ہیں۔ایک ڈرامے میں ان کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا، جس میں انہوں نے ”دو ٹکے کی عورت“ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ پاکستان میں اس وقت فیمنسٹوں اور پدرسری گروپ کی لڑائی پھیلتی جا رہی ہے۔ فیمنزم بنیادی طور پر یہ کہتا ہے کہ مرد ہے ہی ظالم۔ مرد نے ہمیشہ عورت کا استحصال کیا۔ پدر سری معاشرے کے حامی جواباً کہتے ہیں کہ درحقیقت یہ مرد ہے جو ظلم کا شکار ہے۔ وہ سارا بوجھ بھی اٹھاتا ہے اور طعنے بھی سنتا ہے۔ پدرسری معاشرے کے حامی کہتے ہیں کہ جس دن پاکستانی عورت نے اپنے تئیں کامیابی حاصل کر لی اور مکمل طور پر آزاد ہو گئی تو اسے بھی مغربی عورت کی طرح مرد کے ساتھ مل کر معاشی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ فیمنسٹ یہ کہتی ہیں کہ آزادی کیلئے ہم ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ہر سال آٹھ مارچ کو جب عورت مارچ منایا جاتا ہے تو نعرہ لگتا ہے، میرا جسم، میری مرضی۔ ڈرامہ نگار نے ٹی وی پر یہ الفاظ بولنے والی ایک خاتون کو یہ تک کہہ دیا تھا کہ تم پر کوئی تھوکتا بھی نہیں اور بڑا ہنگامہ ہوا تھا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ ڈرامہ نگار پہلے سے اس خاتون کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان کی خفیہ وڈیوز بنائی گئیں۔ پھر آخری دن تشدد والا واقعہ پیش آیا۔ ظاہر ہے کہ ڈرامہ نگار کی پوزیشن نہایت نازک تھی۔ باقی زندگی ان کو بلیک میل کرنے کا بندوبست کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد چار پانچ دن وہ سوچتے رہے کہ کیا کیا جائے۔ دو ہی آپشن تھے۔ بلیک میل ہوتے رہیں او رامید رکھیں کہ ان کی کوئی وڈیو لیک نہ ہو۔ اپنے مزاج کے مطابق ڈرامہ نگار کیلئے یہ آپشن موت سے بھی بدتر تھا۔ دوسرا آپشن یہی تھا، جو انہوں نے استعمال کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
وڈیو لیک ہونے سے پہلے اگر وہ کہہ دیتے کہ گن پوائنٹ پر ان کی نازیبا وڈیوز بھی بنائی گئی ہیں تو ان کی پوزیشن کہیں مضبوط ہو تی۔ ڈرامہ نگار ہمیشہ خبروں کا مرکز کیوں بنے رہتے ہیں۔ ان کا ایک خاص مزاج ہے۔ اس مزاج کے حامل یہ چاہتے ہیں کہ ان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص یاتو انہیں سجدہ کر کے اٹھے یا پھر اس سے ان کی مستقل جنگ رہے گی۔ یہ ایک خاص قسم کا تکبر ہے لیکن وہ خود بھی نہیں جانتے کہ اس کی بنیاد دراصل خوف ہے۔ اپنی آزاد سوچ رکھنے اور نہ جھکنے والوں سے وہ خوف محسوس کرتے ہیں۔ اس سب کے باوجود جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ حیران کن ہے۔ کئی ایسے مرد اور عورتیں ان کا تمسخر اڑا رہے ہیں، جنہوں نے خود ہمیشہ ناجائز تعلقات رکھے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا نیک مزاج رکھنے والا شخص کبھی پھسل نہیں سکتا۔ کیا گناہ صرف یہی ہے کہ ایک مرد نکاح کے بغیر عورت کے پاس جائے؟ کیا لوگوں کے پیسے کھانا، کم تولنا اور رشوت لینا کوئی گناہ نہیں۔ آپ کبھی زمینوں کے معاملات میں جا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ 80، 80سال کے بزرگ سفید داڑھیوں کے ساتھ سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ انجان شخص کو جال میں اتارنے کیلئے یہاں تک وہ کہہ ڈالتے ہیں کہ میں تو اب قبر کی تیاری کر رہا ہوں، کوئی دنیاوی لالچ میرے اندر باقی نہیں۔ جتنے لوگ ڈرامہ نگار پہ تبرہ کر رہے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نیک لوگوں کا ملک ہے۔ اس ملک میں دنیا کے بڑے مذہبی اجتماعات میں سے چند منعقد ہوتے ہیں۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ ملک تباہ و برباد ہوا پڑا ہے۔لوگ نیکی کی تبلیغ کرنے نکلتے ہیں اور اربوں روپے کما لیتے ہیں۔ قرآن یہ کہتاہے کہ انسان پر نیکی اور بدکاری دونوں طرح کے خیالات نازل ہوتے ہیں۔ فا الہمہا فجورہا و تقو ٰ ھا۔ پھر اس پہ نازل کیا اس کا گناہ اور اس کی نیکی۔
بہکا تو بہت بہکا، سنبھلا تو ولی ٹھہرا
اس چاک گریباں کا ہر رنگ نرالا ہے
باقی جو لوگ نیکی اور تقدس کے ساتویں آسمان پہ فائز ہیں، ان کی تقدیس انہیں مبارک۔ گو کالج کے دور میں، میں نے اٹھارہ سپارے بھی حفظ کیے تھے لیکن ذاتی طور پر مجھ سے بہت سے گناہ بھی سرزد ہوتے رہے۔ رسالت مآبﷺ نے ارشاد فرمایا تھا:’’ تمام بنی آدم خطا کار ہیں مگر بہتر گناہگار وہ ہیں، جو توبہ کر لیتے ہیں۔‘‘ ڈرامہ نگار کی وڈیو اب نشر ہو گئی، باقیوں کی حشر کے دن ہو جائے گی۔