1965ء کی روایتی جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف محاذ ہو، پاکستانی عوام، حکومت اور فوج نے یکجان ہو کر ہر بار دشمن کو شکست دی ہے۔ عوام ، حکومت اور فوج کی یہی یکجہتی ہمیشہ دشمن کے راستے کی دیوار بنی رہی ہے۔ اب دشمن نے بڑی چالاکی سے اس ربط و یکجہتی کو توڑنے کیلئے ایک نئی چال چلی ہےاور پاک فوج کے خلاف من گھڑت ، بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈےکے ذریعے عوام میں نفرت کا بیج بونے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جس کا مقصد پاکستان کو تباہی کے راستے پر دھکیلنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے دیگر کوششوں کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل دہشت گردی کا استعمال بھارت اور مغرب کی طرف سے کیا جاتا ہے جس کے بے شمار ثبوت مل چکے ہیں۔ یہ شواہد ثابت کرتےہیں کہ دہشت گرد عناصر اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کا ٹارگٹ صرف افواج پاکستان ہیں۔ بہت سے غیر ملکی ماہرین بھی یہ ادراک رکھتے ہیں اور یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ پاکستان کی بقا کے واحد اور آخری ضامن اس کی افواج ہی ہیں۔ 2020ء میں معروف امریکی تجزیہ نگار، کرسٹین فیئر نے کہا تھا کہ ’’پاکستان کی تباہی کیلئے پہلے پاکستانی فوج کی تباہی لازمی ہے لیکن مجھے فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔‘‘
اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ 9؍مئی کے واقعات دشمن کی طرف سے بالواسطہ یا بلاواسطہ سوچی سمجھی سازش تھے۔ امریکہ، یو این اور برطانوی اراکین پارلیمنٹ سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا مطالبہ اور اسی آڑ میں پاکستان کے خلاف مہم چلانا کس طرف اشارہ ہے قوم کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے۔ بلاشبہ یہ حق و باطل کے درمیان ایک کٹھن جنگ ہے۔ باطل جھوٹی خبروں کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پھیلانا اورملک کو بدنام کر کے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ عوام اور افواج پاکستان کے درمیان دراڑ پیدا کرنا چاہتا ہے جبکہ حق حدیث پاکؐ کے مطابق وطن سے محبت کرتا ہے اور اس محبت میں اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا۔ حدیث قدسیہ کے مطابق وطن سے محبت تو ایمان کا حصہ ہے پھر بھلا کوئی مسلمان اپنے ہی ملک کو توڑنے، اس میں انتشار و فساد پھیلانے اور اپنے ہی وطن کے محافظوں کو کمزور کرنے کا تصور بھی کیسے کر سکتا ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود افواج پاکستان نہ صرف اپنی دفاعی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھا رہی ہیں بلکہ معاشی ترقی کیلئے کوششوں میں بھی عوام اور حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے تویہ ملک مضبوط ہے اور ملک ہے تو ہم ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عوام، حکومت اور فوج مل کر اپنے ملک کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور ثابت کریں کہ ہم ایک تھے ایک ہیں اور ہمیشہ ایک رہیں گے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کریں کہ بعض لوگ جو پاکستانی ہونے کے دعویدار ہیں باہر بیٹھ کر ملک کو بدنام اور کمزور کرنے کی کوششوںمیں ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ مصروف ہیں۔ امریکی سینیٹرز اورا قوام متحدہ کے ایک ونگ سے مطالبہ اور قراردادوں کے بعد یہی کوشش برطانیہ میں بھی کی گئی۔ اس کوشش میں پاکستانی ہونے کے دعویداروں نے بدنما کردار ادا کیا۔ ان لوگوں نے چند برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو اکٹھا کیا جنہوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے تقاریر کیں۔ برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کے کمیٹی روم میں سماعت کے نام پر منعقدہ اس تقریب میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کی قید کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس تقریب کے انعقاد میں زلفی بخاری اور مہر بانو قریشی کے درپردہ اہم کردار کی اطلاعات ہیں۔ ان کے علاوہ پی ٹی آئی برطانیہ کے عہدیدار بھی موجودتھے۔ اس موقع پر زلفی بخاری نے الزام لگایا کہ فروری کے انتخابات میںبڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔دیگر الزامات کے علاوہ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بانی پی ٹی آئی پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ بخاری نے یہ بھی کہا کہ موجودہ ناجائز پاکستانی حکومت گزشتہ دو سال سے جو مظالم ڈھا رہی ہے ان سے دنیا کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے برطانوی اراکین پارلیمنٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں جمہوری اصولوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو احسن اقدام ہے۔ زلفی بخاری نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی کے سابق سوشل میڈیا رہنما اظہر مشوانی بھی اس اجلاس میں شریک ہونے والے تھے لیکن وہ بوجوہ شرکت نہ کر سکے۔
اظہر مشوانی وغیرہ کے بارے میں سب جانتے ہیں اور ثبوت موجود ہیں کہ وہ کس طرح سوشل میڈیا پر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر کے عوام کو ورغلاتا رہا ہے۔ مہر بانو قریشی نے اس موقع پر اپنی تقریر میںکہا کہ مغربی جمہوریتوں کی خاموشی خوفناک اور مایوس کن ہے۔ انہیں امید تھی مغربی ممالک پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے کھڑے ہونگے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف گفتگو کرنے والے پاکستانیوں کے مقاصد واضح ہیں۔ اس طرح بیرون ملک بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست اور ریاستی اداروںکے خلاف مذموم مہم چلانے کی کس طرح اجازت دی جا سکتی ہے۔ امریکہ، یو این اور برطانیہ میں پاکستان مخالف ناکام کوششوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے لوگ پاکستان کو اپنا ملک نہیں سمجھتے اور بیرونی ممالک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میںمداخلت کی کھلم کھلا دعوت دے رہے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن شفاف اور جائز تھے لیکن 2024ء کے الیکشن دھاندلی زدہ ہیں کیسی عجیب منطق ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ہیں۔ پاکستان ایک خود مختاراورآزاد ملک ہے،کسی کواس کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا حق ہے اور نہ ہی یہ حق دیا جا سکتا ہے۔