• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت نے مشرق وسطیٰ کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو گزشتہ دنوں تہران کے ایک گیسٹ ہائوس میں رات گئے حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اسماعیل ہنیہ، نومنتخب صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے ایران آئے تھے۔ ابتدا میں ایسی خبریں گردش کررہی تھیں کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے میزائل حملے میں شہید کیا مگر بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ ان کی قیام گاہ میں آتش گیر مواد نصب کیا گیا تھا جسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ایران کے باہر سے تباہ کیا گیا جس کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ، محافظ سمیت شہید ہوگئے۔ اسرائیل نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہنیہ پر ہونے والا حملہ، حماس کے ہاتھوں اسرائیلیوں کے قتل کا بدلہ ہے۔ دوسری طرف ایران نے اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے کی کھلم کھلا دھمکی دی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کو سخت سبق سکھانے کا اعلان کیا اور کہا کہ چونکہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایران میں ہوا ہے، اس لئے ایران خون کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔

اسماعیل ہنیہ 1962میں غزہ کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی ادب میں گریجویشن کی اور اسلامی تحریک میں شامل ہو گئے۔ 62 سالہ اسماعیل ہنیہ کو 2017 میں حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا اور انہوں نے کئی مرتبہ اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حماس، اسرائیل جنگ کے بعد سے وہ قطر میں رہائش پذیر تھے اور طویل عرصے سے غزہ پٹی کا دورہ نہیں کرسکے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کو مئی میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے جنازے میںبھی قتل کئے جانے کا منصوبہ تھا لیکن جنازے میں بڑے مجمع کی موجودگی کے باعث آخری لمحات میں اسے موخر کردیا گیا۔ حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور اس سے قبل ان کے بیٹوں سمیت خاندان کے دیگر افراد کی شہادت یقیناً اسرائیل کا ایک گھنائونااور ناقابل معافی عمل ہے۔ پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا اور عالمی سطح پر اسرائیل کے ہاتھوں اسماعیل ہنیہ کے قتل کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ان کے قتل کے بعد یہ چہ میگوئیاں بھی گردش کررہی ہیں کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے قتل کے پیچھے بھی اسرائیل کا ہاتھ تھا اور اس سے قبل بھی اسرائیل، ایرانی جوہری سائنسدانوں کے قتل میں ملوث رہا ہے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل نے ایران کی سرزمین پر کسی ممتاز سیاسی رہنما کو نشانہ بناکر عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیری ہیں۔

ایران کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کی دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لبنان، عراق، شام، بحرین اور فلسطین سمیت کئی ممالک میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور حمایت کے وسیع نیٹ ورک نے ایران کو مغربی دنیا میں دشمنوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے جبکہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام روز اول سے اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔ ان ممالک کی پوری کوشش ہے کہ ایران کسی طرح بھی ایٹمی طاقت نہ بن سکے مگر ایران نے عالمی پابندیوں کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو جاری رکھا ہوا ہے۔ میرے نزدیک اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی کا مقصد ایران کو امریکی اور اسرائیلی مفادات پر حملے اور جوابی انتقامی کارروائیوں کیلئے اُکسانا ہے تاکہ امریکہ اور اسرائیل کو ایران کی فوجی اور ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا جواز مل سکے۔ امریکہ اور اسرائیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ایران کی فوجی، اقتصادی، جوہری طاقت کمزور اور مشرق وسطیٰ میں ایرانی پروکسی ختم کئے بغیر خطے میں اپنے مفادات حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

اسرائیل کے ہاتھوں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کا تہران میں قتل نہ صرف ایران کیلئے شرمندگی کا باعث ہے بلکہ اس کی سیکورٹی ایجنسیوں کی صلاحیتوں پر بھی سوالیہ نشان ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران کا ردعمل کیا ہوگا، خطے میں بڑھتی کشیدگی کیا رنگ لائے گی اور مستقبل میں اس کے کتنے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ اگر ایران جوابی کارروائی کرتا ہے تو فوری ردعمل میں امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے بڑے پیمانے پر فضائی حملے کئے جائیں گے اور ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ امریکہ پہلے ہی اپنا بحری بیڑہ اور درجنوں جنگی طیارے خطے میں بھیج چکا ہے اور کشیدگی میں اضافے کی صورت میں امریکہ مزید بحری بیڑے اور جنگی طیارے خلیج فارس روانہ کرے گا۔ موجودہ صورتحال سے پاکستان بھی براہ راست متاثر ہوگا اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوسکتا ہے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایران کو چاہئے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے بچھائے گئے جال میں نہ آئے اور نہ ہی انہیں ایسا کوئی موقع فراہم کرے جس سے ایران کو مزید نقصان اٹھانا پڑے۔ بہتر ہے کہ ایران، پاکستان کے ساتھ مل کر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کرے اور وہ تمام اسلامی ممالک جنہوں نے حال ہی میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کئے ہیں، اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت اور ایسے برے وقت میں ایران کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کریں کیونکہ اگر آج ہم ایران کی تباہی پرخاموش تماشائی بنے رہے تو کل یہ آگ دوسرے اسلامی ممالک تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

تازہ ترین